خاکہ نگاری شخصیت کی عکاسی کا فن ہے، اس میں انسان کی پوری شخصیت کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویر قاری کی نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہے، خاکہ ہو بہو تصویر جیسا ہے، اسے ویسے ہی پیش کرنے کا نام ہے، اسے قلمی تصویرکا نام بھی دیا جاتا ہے، یعنی لفظوں سے تصویر تراشنے کا نام خاکہ نگاری ہے مگر خاکہ نگاری محض لفظوں سے تصویر تراشنے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ فنی امور بھی ہیں جن کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے، اگر ان کو سامنے نہ رکھا جائے تو پھر ’’خاکہ‘‘ خاکہ نہیں رہے گا۔ اس کی اولین شرط یہ ہے کہ خاکہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت کے قریب تر ہو۔ یہ ابتدا میں بے ساختہ انداز میں شروع ہو کر غیر روایتی انداز میں ختم ہو جاتا ہے۔
خاکہ نگاری بنیادی طور پر کسی شخصیت یا فرد کا مختصر تعارف ہے جس میں اس کے ظاہری خد و خال، اس کی سوچ، کردار، انداز گفتگو، اس کی خوبیوں اور خامیوں کو ادبی اسلوب میں بیان کیا جاتا ہے تاکہ شخصیت یا فرد کا پورا پس منظر قاری کے سامنے آ سکے۔
اس کے اظہار کے وقت یہ بات ذہن نشین رہے کہ خاکہ نگاری میں سوانح عمری کی طرح فرد یا شخصیت کی زندگی کی مکمل عکاسی نہیں کی جاتی بلکہ شخصیت کی نمایاں خصوصیات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ شخصیت خاکہ نگار کے نزدیک سماج کا ادنیٰ رکن بھی ہو سکتا ہے اور معاشرے کا مشہور فرد بھی، جس نے مصنف کو متاثرکیا ہو۔
شخصیت کے انتخاب کی اولین شرط یہ ہے کہ خاکہ نگار نے شخصیت کو ہر رنگ اور ہر روپ میں نزدیک سے دیکھا ہو۔ ظاہری حالت یعنی ’’ حلیہ نگاری ‘‘ خاکہ نگاری کی جان ہے، حلیہ نگاری سے مراد یہ ہے فرد یا شخصیت جسمانی لحاظ سے کیسا ہے اس کا ناک نقشہ کیسا ہے، اس کی عادات و اطوار، رہن سہن، لباس، چال ڈھال اور انداز گفتگوکو مختصراً اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ شخصیت کی پوری تصویر واضح ہو کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔
خاکہ نگاری میں جتنا ذکر ظاہرکا کیا جاتا ہے، اتنا ہی ذکر باطن کا بھی کیا جاتا ہے، باطن سے مراد اس کی سوچ زندگی کے بارے میں اس کا نظریہ، دکھ سکھ کے تجربات کے وقت اس کا رویہ اس کی پسند اور ناپسند کیا ہے۔
باطن کی خصوصیات کا جائزہ اس فرد یا شخصیت کی فکری اور نظریاتی سوچ، خیالات، احساسات اور اس کے مزاج سے لگایا جاسکتا ہے۔ خاکہ میں فرد یا شخصیت کے ظاہر اور باطن کو اس طرح ابھارا جاتا ہے کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں اجاگر ہو جاتی ہیں۔
خوبیوں کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس میں وہی باتیں بیان کی جاتی ہیں جو شخصیت میں پائی جاتی ہوں۔ شاعری میں مبالغہ ہو سکتا ہے نثر میں زیب داستان بنانے کے لیے تحریر میں عبارات آرائی کی آمیزش سے کام لیا جاسکتا ہے، لیکن خاکہ نگاری میں اس سے گریز ضروری ہے۔ خاکہ نگاری میں بے جا تعریف، من گھڑت اور فرضی واقعات سے کام نہیں لیا جانا چاہیے۔
خاکہ نگاری اگرچہ ادبی اسلوب میں لکھی جاتی ہے، تاہم کیونکہ یہ حقیقت پر مبنی ہوتی ہے، اس لیے ایک اچھے خاکہ کی یہ خوبی ہے، اس میں شخصیت کو اچھا یا برا بنائے بغیر جیسی وہ ہے ویسی ہی پیش کر دی جاتی ہے۔ اس میں مصنف کا کردار ایک غیر جانبدار کا ہوتا ہے وہ شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں کو حقیقی اور ایمان داری کے ساتھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ شخصیت کے مختلف گوشے خود بخود سامنے آ جاتے ہیں خاکہ نگاری میں خامیوں پر نہ تنقید کی جاتی ہے اور نہ ہی اس پر نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے البتہ ہمدردانہ انداز بیان اختیار کیا جاتا ہے۔
خاکہ نگاری میں سوانح عمری کی طرح فرد یا شخصیت کے علمی، فنی، ادبی کاموں کا جائزہ نہیں لیا جاتا اور نہ ہی اس میں اس کے سیاسی کارناموں، اس کے نظریات اور افکارکی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں بلکہ فرد یا شخصیت کی ان نمایاں خصوصیات کا اظہار کیا جاتا ہے جس سے اس کی انفرادیت کا پہلو نکلتا ہو۔ اس مقصد کے لیے خاکہ نگاری میں شخصیت سے متعلق اہم واقعات بیان کیے جاتے ہیں جن سے شخصیت کے پوشیدہ پہلو سامنے آئیں، جن سے اس کی انفرادیت نمایاں ہو۔
واقعات اس طرح بیان کیے جاتے ہیں کہ وہ آنکھوں کے سامنے ہوتے دکھائی دیتے ہیں، خاکہ میں شخصیت سے غیر متعلقہ اور غیر ضروری واقعات سے بھی گریز ضروری ہے، اس طرح کے واقعات خاکہ نگاری کو غیر دلچسپ اور بوجھل بنا دیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جو کچھ خاکہ نگاری میں تحریر کیا جائے وہ سچائی کے ساتھ بیان کیا جائے۔
بعض اوقات خاکہ نگار اپنے تعلقات اور قربت کی وجہ سے موضوع شخصیت کے بارے میں بعض اوقات نامناسب جملہ بھی تحریر کر دیتے ہیں یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے، اس سے گریز بھی ضروری ہے۔ وہ حقائق جو شخصیت کے لیے کسی بدنامی کا باعث بنیں اسے لکھنے سے گریز کرنا بھی ضروری ہے۔
خاکہ نگار جب کسی شخصیت کو موضوع بنانا چاہتا ہے واقعات سوانح اور خارجی مشاہدات کے ساتھ اپنے تاثرات سے بھی مدد لیتا ہے اس لیے خاکہ نگاری میں مشاہدات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ مصنف کی مشاہدات کی حس جتنی تیز ہو گی خاکہ اتنا ہی حقیقت سے قریب تر ہوگا۔
چند ذاتی عادات وغیرہ کا مشاہدہ کر کے مجموعی رائے بنانے کا رویہ درست نہیں۔ مصنف جو بات بھی پیش کرے پوری تحقیق کے بعد سامنے لائے، اس ضمن میں مصنف اپنے نظریات اور تصورات سے بے نیاز ہو کر آزاد سوچ کے ساتھ اپنے تجربات قلم بند کرے۔
منظرکشی بھی خاکہ نگاری کا ایک اہم جز ہے، منظرکشی کے ذریعے شخصیت کے کردار کو مصورانہ انداز میں ابھارنے اور اس کے منفرد پہلو کو اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے، خاکہ میں منظرکشی ایسی مکمل اور جاندار ہو کہ شخصیت کی صحیح اور سچی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ خاکہ نگاری کے مطالعے کی ضرورت کیوں ہے؟ یاد رکھیے خاکہ کے ذریعے اس عہد کی تہذیب و ثقافت، سماج کی جیتی جاگتی تصویر دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف خیالات کو بلندی حاصل ہوتی ہے بلکہ اس سے ذہن کے نئے دریچے کھلتے ہیں۔
خاکہ نگاری میں انسانی رویے کو دلکش اور لطیف انداز میں بیان کیا جاتا ہے اس سے سماجی حرکیات محرکات اور ان کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جس سے سماجی شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں گزرے ہوئے وقت کی ایک جھلک سامنے آتی ہے اس سے تاریخی شعور میں بھی اضافہ ہوتا ہے، اس لیے ادب میں خاکہ نگاری کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فرد یا شخصیت کیا جاتا ہے کہ شخصیت ضروری ہے شخصیت کی شخصیت کے کے سامنے ہوتا ہے جاتی ہے کی جاتی کے ساتھ پیش کر کا نام اس لیے
پڑھیں:
خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کو چترال میں اسپاغ لشٹ کے قریب دانش اسکول کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے، انھوں نے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چترال خیبرپختونخوا کا خوبصورت علاقہ ہے، وزیراعظم نے کہا کہ دانش اسکولز میں ایچی سن کے معیار کی تعلیم فراہم کی جارہی ہے اور غریب ، یتیم اور عام آدمی کے بچے بھی یہاں مفت تعلیمی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ کسی پر احسان نہیں، ریاست کا فریضہ ہے۔ انھوں نے گیس پلانٹ منصوبے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کیا اور اپر چترال کے لیے بجلی کی یکسان ٹیرف مقرر کرنے کے حوالے سے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کو اگلے ہفتے چترال بھیجنے کا اعلان کیا۔
اپر چترال میں جدید اسپتال کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے گزشتہ روز طلبہ کے لیے میرٹ پر ایک لاکھ لیپ ٹاپ فراہم کرنے کی اسکیم کا اجرا کیا ہے، یہ لیپ ٹاپ چترال کے ہونہار طلبا کو بھی ملیں گے۔
چترال میں تعلیمی اداروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس حوالے سے دانش اسکول کا قیام اہم پیش رفت ہے۔ چترال ایک انتہائی خوبصورت اور وسیع وعریض ضلع ہے۔ یہاں غربت اور ناخواندگی کی شرح بھی خاصی بلند ہے۔
خصوصاً اس علاقے میں دیہی آبادی جن کا کی روزی کا دارومدار گلہ بانی ہے، ان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بھی اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس علاقے میں گلہ بانوں کے لیے چراگاہوں کا ایشو ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔
گلہ بانوں کے لیے سہولیات فراہم کر کے اس علاقے میں روزگار اور خوش حالی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو بھی اس حوالے سے رہنما کردار ادا کرنا چاہیے۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت، کاروباری طبقے اور افسرشاہی کو پسماندہ اضلاع کی پسماندہ آبادی کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرنے چاہئیں۔ چترال میں ٹورازم کو بھی خاصی ترقی دی جا سکتی ہے۔
اس علاقے میں رہنے والی اقوام اور برادریاں زبان اور ثقافت کے اعتبار سے کشمیر اور گلگت بلتستان کے قریب ہیں۔ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں پچھلے دنوں گوجری زبان کو چھٹی سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے جو کہ ایک اچھا اور اہم اقدام ہے۔
اس حوالے سے چترال میں بھی گوجری زبان بولنے والوں کی آبادی کی ترقی کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر فون کرکے مبارکباد دی ہے اور انھیں پیشکش کی ہے کہ مل کر ترقی، خوشحالی، بدامنی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کام کریں، وفاق ان سے مکمل تعاون کرے گا۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان اچھا ورکنگ ریلیشن پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ بھی تشکیل پا گئی ہے، صوبے کی حکومت اور وزیراعلیٰ کو صوبہ خیبرپختونخوا کی تعمیر وترقی کے لیے وفاق اور دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر تعمیر وترقی کے عمل میں شریک ہونا چاہیے۔
خیبرپختونخوا پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے۔ اس صوبے میں سیاحت کی صنعت کا بہت زیادہ اسکوپ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں قیمتی معدنیات جن میں نایاب اور انتہائی قیمتی جیمزا سٹونز بھی شامل ہیں، زمرد (ایمرالڈ)، تورملین، ایکوامرین، زرد اور نیلا یاقوت (روبی)، اور ڈائمنڈ جیسے قدرتی جیمز اسٹونز وافر مقدار میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ سنگ مرمر، بلیک گرے نائٹ، سفید گرے نائٹ اور دیگر قیمتی ماربل کے وسیع ذخائر صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود ہیں۔ انتہائی قیمتی لکڑی بھی اس صوبے میں وافر تعداد میں موجود ہے۔ قدرتی مناظر اور معدنیات سے مالامال یہ خطہ اپنی مثال آپ ہے۔
اگر اس خطے کی ترقی پر یکسوئی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جائے تو آنے والے چند برسوں میں یہ صوبہ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس صوبے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو، انتہاپسندی پر قابو پایا جائے، جرائم کی روک تھام ہو اور ایسے علاقوں میں قانون کا نفاذ یقینی ہو جہاں جرائم پیشہ گروہ اور دہشت گرد گروہ بغیر کسی رکاوٹ کے موجود ہیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے خیبرپختونخوا کی حکومت مسلسل کوششیں کر رہی ہے لیکن اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفاقی حکومت اور وفاقی اداروں کا تعاون بھی اشد ضروری ہے۔ صرف چترال کو ہی مدنظر رکھ لیں تو اس ایک ضلعے کو ہی اگر ٹورازم کے لیے محفوظ بنا دیا جائے تو اربوں روپے کا زرمبادلہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ چترال بونی شندور 153کلومیٹر روڈ پر کام جاری ہے، چترال ایون 46کلومیٹر روڈ آیندہ سال مئی تک مکمل کر لی جائے گی، لواری ٹنل کی شمالی رسائی کے 7کلومیٹر حصے کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے۔
وزیر اعظم نے اپر چترال کے لیے وفاق کی طرف سے یونیورسٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی یونیورسٹیاں اور کالجز قائم ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ خیبرپختونخوا پاکستان کا واحد خطہ ہے جہاں بہت زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہاں نسلی اور ثقافتی ڈائیورسٹی بھی بہت زیادہ ہے۔
خیبرپختونخوا کی سرحد چونکہ افغانستان کے ساتھ ملتی ہے، اس لیے یہ صوبہ کئی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے پروموٹ ہونے والی دہشت گردی کو روکنا اور اس کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا خیبرپختونخوا میں کاروباری سرگرمیاں بڑھ نہیں سکتیں۔
خیبرپختونخوا میں مڈل کلاس کے پھیلاؤ کے لیے کاروباری سرگرمیوں کا بڑھنا انتہائی ضروری ہے۔ دہشت گردی اور قبائلی کلچر مڈل کلاس کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت کو اس حوالے سے ایک مربوط پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ استنبول میں جاری مذاکرات کی کامیابی خیبرپختونخوا میں ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ترجمان دفترخارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا استنبول میں اختتام پذیر ہوا پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان نے 4 برس سے افغان حکام کو افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی پر قابل اعتماد معلومات فراہم کیں تاہم بار بار کی یقین دھانی کے باوجود افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔
مذاکرات میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی کو سراہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انتہائی نازک مذاکرات تھے۔ ترکیہ کا مشترکہ اعلامیہ مذاکرات کا ایک کورنگ نوٹ تھا۔ یہ ایک کتاب کے سرروق کی طرح تھا نہ کہ مکمل کتاب کی طرح ۔
افغان فریق کی جانب سے جنگ بندی کے تسلسل کی یقین دھانی کرائی گئی ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ مذاکرات کے تسلسل کو گہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ تحریری ضمانتوں کا طلب کیا جانا مذاکرات کا حصہ تھا۔
ابھی مذاکرات جاری ہیں اور آیندہ نشست 6 نومبر کو ہو گی جس کی تکمیل پر بیان جاری کریں گے۔ آیندہ مذاکرات میں انٹرلوکیٹرز حکومتی سطح کے افراد اور سیاسی نمایندگی ہو گی۔
مذاکرات میں افغان طالبان حکومت نے کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے۔ سیکیورٹی صورت حال کا تقاضہ ہے ابھی سرحد کو بند رکھا جائے۔
افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی امورِ مملکت اور رموزِ مملکت جیسی اصطلاحات پر گہرا غور وفکر کرنا چاہیے۔ طالبان اگر حکومت میں آ گئے ہیں تو انھیں اپنے آپ کو فاتح یا مطلق العنان حاکم اور بادشاہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ افغانستان میں کئی کروڑ عوام آباد ہیں۔
یہاں مختلف نسلی، لسانی اور ثقافتی گروہ یا قومیتیں اپنے اپنے علاقوں میں صدیوں سے آباد چلی آ رہی ہیں۔ خانہ بندوش قبائل بھی افغانستان کی آبادی کا حصہ ہیں۔ افغانستان کا اقتدار کسی بھی افغان گروپ کے پاس ہو، اس کا پہلا فرض منصبی افغانستان کے عوام کی تعمیر وترقی ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ہر کام اور فعل کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آج اگر طالبان اگر حکومت میں ہیں تو وہ جو چاہیں کریں، اور وہ یہ سمجھیں کہ وہ اپنے کسی فعل کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں تو یہ ایک غلط طرزعمل اور طرز حکمرانی ہے بلکہ آمریت سے بھی بڑھ کر ہے۔