پاکستان کا ریونیو 2 برسوں میں 9.6 سے بڑھ کر 18 ٹریلین روپے ہو گیا: آئی ایم ایف
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اسلام آباد(آئی این پی ) عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے گزشتہ 2 سالوں میں پاکستان کا ریونیو تقریباً دوگنا ہو گیا ہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ریونیو 9.6 ٹریلن روپے سے بڑھ کر18 ٹریلین روپے ہو گیا ہے۔وزارت خزانہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ریونیو میں اضافہ ٹیکس وصولیوں، نئے ٹیکس اور مرکزی بینک کی مدد سے ممکن ہوا۔دوسری جانب معاشی ماہرین کے مطابق ریونیو میں اضافہ مصنوعی ہے، گزشتہ 2سالوں میں ٹیکس نیٹ میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، 2 سالوں میں ٹیکس کی شرح میں بہت اضافہ ہوا، تنخواہ دار طبقے اور صنعتی شعبے پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا۔معاشی ماہرین کے مطابق سیلز ٹیکس کی شرح 12 سے بڑھا کر 15 اور پھر18 فیصد کر دی گئی، اس وقت کرنٹ اکانٹ سرپلس ہے لیکن روپے کی قیمت کم کی جا رہی ہے، دنیا میں امریکی ڈالرکی قیمت کم ہو رہی ہے لیکن پاکستان میں بڑھ رہی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
کیا واقعی بینک میں دو لاکھ روپے سے زائد رقم جمع کروانے پر ٹیکس کی کٹوتی ہو گی؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان کے مین سٹریم میڈیا سمیت سماجی رابطوں کے مخلتف پلیٹ فارمز پر پچھلے تین دنوں سے خبریں چل رہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے بینک میں دو لاکھ یا اس سے زائد کیش جمع کروانے پر 20 فیصد سے زائد ٹیکس عائد کیا ہے۔
بعض خبروں میں ٹیکس 40 فیصد سے زائد لکھا گیا ہے اور بعض چینلز کی جانب سے تو عوام کو ہوشیار رہنے کا بھی بتایا گیا ہے یعنی عوام کو بینک میں کیش جمع کروانے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
سماجی رابطوں کے ویب سائٹس پر کچھ مراسلے بھی گردش کر رہے ہیں جس میں کچھ کمپنیوں نے اپنے صارفین کو لکھا ہے کہ کیش کے بجائے ڈیجیٹل ادائیگی کرنی ہے ورنہ کیش میں ادائیگی سے 20 فیصد ٹیکس کاٹ دیا جائے گا۔
یہ خبریں کیسے سامنے آئیں؟
یہ خبریں دراصل مالی سال 2025 – 2026 کے بجٹ اور فنانس بل میں انکم ٹیکس آرڈیننس 2002 میں بعض شقوں میں ترمیم کے بعد سامنے آئی ہیں۔
انکم ٹیکس آرڈیننس 2002 کے شق نمبر 21 میں ترمیم کی گئی ہے جو قابل ٹیکس آمدن یعنی وہ منافع جس پر ٹیکس عائد ہوتا ہے، کے حوالے سے ہے۔
پشاور میں ٹیکس فرم السید ایسوسی ایٹس کے سربراہ اور ٹیکس امور کے ماہر سید انور شاہ ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں نئی ترامیم کا عام صارف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ کاروباری شخصیات اور کمپنیوں کے حوالے سے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ترامیم کا مقصد کیش ادائیگیوں کا راستہ روکنا ہے اور بینک کے ذریعے ادائیگیوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔
انور شاہ نے بتایا: ’کاروباری شخصیات کو ادائیگیاں چیک یا ڈیجیٹل چینلز کے ذریعے کروانے کا بتایا گیا ہے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو سالانہ انکم ٹیکس میں اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔‘
فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے مختلف مقدمات کی پیروی کرنے والے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل رحمان اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس ترمیم کا کسی بینک میں عام بندے کا پیسے جمع کرنے کے ساتھ تعلق نہیں اور نہ اس پر کوئی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
تاہم انکم ٹیکس آرڈیننس کی جس شق میں ترمیم کی گئی ہے، تو اس کا تعلق صرف کاروباری منافع کے ساتھ ہے اور سال کے آخر میں کمپنیوں کی جانب سے انکم ٹیکس جمع کرنے کے ساتھ ہے۔
رحمان اللہ نے بتایا: ’انکم ٹیکس کے شق نمبر 20 اور 21 بزنس سے متعلق منافع اور اخراجات کو انکم ٹیکش گوشواروں میں ایڈجسٹ کرنے کے حوالے سے ہے اور عام بینک ڈیپازٹ کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔’
انکم ٹیکس ترمیم میں کیا بتایا گیا ہے؟
دو لاکھ سے زائد کیش جمع کرانے پر ٹیکس کی خبروں میں صداقت جاننے سے پہلے، معلوم کرتے ہیں کہ انکم ٹیکس آرڈیننس میں حالیہ ترامیم کیا کی گئی ہیں۔
فنانس بل 2026 کے مطابق انکم ٹیکس کے شق نمبر 21 کے ذیلی شو q اور p میں ترمیم اور اضافہ کیا گیا ہے اور یہ شق کسی کاروبار کے منافع حاصل کرنے اور اس پر ٹیکس کے حوالے سے ہے۔
ترمیم میں یہ لکھا گیا ہے کہ اگر کسی کمپنی نے کوئی چیز خریدی اور اس کی ادائیگی ایک ایسے شخص کو کردی جو نان فائلر ہے، تو اس ادائیگی کی 10 فیصد ٹیکس ریٹرن میں بطور اخراجات شمار نہیں کی جائے گی۔
اسی طرح انکم ٹیکس کے شق نمبر 21 میں ایک ترمیم یہ کی گئی ہے کہ اگر آپ نے کسی سپلائر سے کوئی پراڈکٹ خریدی اور دو لاکھ سے زائد ادائیگی کیش میں کی تو ان اخراجات کا صرف 50 فیصد انکم ٹیکس ریٹرن میں بطور اخراجات قبول ہو گا جبکہ باقی پر ٹیکس عائد ہو گا۔
مگر سوشل میڈیا سمیت مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات نے اس ترمیم کو ایسے رپورٹ کیا ہے کہ جیسے کوئی بھی شخص بینک میں دو لاکھ سے زائد رقم ادا کرے گا، تو اس پر ٹیکس عائد ہو گا لیکن دراصل ایسا نہیں ہے۔
اس ترمیم کو قارئین کی سمجھنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے مثالوں کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی ہے جس میں دونوں ترامیم کو ایک ایک کر کے مثالوں سے وضاحت پیش کی جاتی ہے۔
پہلا ترمیم جو نام این ٹی این ہولڈر کو ادائیگی کے حوالے سے ہے، جس میں ادائیگی کی 10 فیصد اخراجات میں شمار نہ کیے جانے کا ذکر ہے۔
سب سے پہلے کسی بھی کاروبار میں انکم ٹیکس ادا کرنے کا فارمولہ جانتے ہیں جو کسی بھی کمپنی کو سال کے آخر میں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کے دوران ادا کرنی پڑتی ہے۔
مثال کے طور پر کسی کمپنی نے سال کے اوائل میں ایک کروڑ روپے کا مال خریدا اور مالی سال کے آخر تک 50 لاکھ روپے کا مال بیچ دیا۔
اس 50 لاکھ روپے میں کمپنی نے سال میں ملازمین کے تنخواہوں، یوٹیلیٹی بلز اور دیگر اخراجات پر 30 لاکھ خرچ کیے تو باقی 20 لاکھ کمپنی کا منافع ہو گیا جس پر کمپنی کو انکم ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
اب آتے ہے ترامیم کو مثالوں کے ذریعے واضح کرنے کی جانب
مثال کے طور پر آپ کا پشاور میں پلاسٹک چپل کا کارخانہ ہے جس کے لیے آپ ماہانہ پانچ لاکھ روپے کا خام مال لاہور کے کسی سپلائر سے خریدتے ہیں، جس کا سالانہ خرچہ 60 لاکھ روپے بنتے ہیں اور اس سے ہر سال آپ 10 لاکھ روپے کماتے ہیں۔
اب اگر آپ کا سپلائر نان فائلر ہے تو آپ نے جو 60 لاکھ روپے ادا کیے ہیں، صرف 54 لاکھ کے آپ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کے وقت اخراجات میں شمار کر سکتے ہیں اور باقی آپ کے منافع میں حساب کیا جائے گا جس پر آپ کو ٹیکس دینا پڑے گا۔
اس کو ذرا مزید آسان بناتے ہیں۔
آپ نے سپلائر سے خام مال خریداری کے 60 لاکھ روپے دیے، یعنی یہ اخراجات ہیں جن پر انکم ٹیکس عائد نہیں ہے لیکن نان فائلر سے خریداری کی وجہ سے اس ادائیگی میں چھ لاکھ روپے آپ کے منافع میں شمار کیے جائیں گے۔
اس مثال میں اگر آپ کو 60 لاکھ روپے اخراجات پر 10 لاکھ روپے منافعے پر، اگر ایک لاکھ روپے ٹیکس دینے پڑتا تو اب یہ ٹیکس 16 لاکھ روپے پر ادا کرنا ہوگا کیونکہ نان این ٹی این ہولڈرز کو ادائیگی کی وجہ سے 10 فیصد اخراجات کی مد سے نکال کر آپ کے منافعے میں شامل کیا جائے گا۔
تاہم اس ترمیم میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کسان سے کچھ خریدتا ہے تو اس پر یہ قانون لاگو نہیں ہو گا، یعنی اگر اگر کسان نان این ٹی این ہولڈر بھی ہوں تو پوری ادائیگی اخراجات میں شمار ہو گی۔
تاکم اگر زرعی مصنوعات کسی مڈل مین یعنی ڈائریکٹ کسان سے نہیں بلکہ درمیان کے کسی شخص سے خریدی گئیں، تو اس پر قانون کا اطلاق ہو گا۔
دوسری ترمیم اور مثال
اب دوسری ترمیم کی طرف آتے ہیں جس پر سوشل میڈیا پر بھی بہت بحث ہورہی ہے کہ دو لاکھ روپے سے زائد کیش جمع کرنے پر ٹیکس عائد ہو گا، جو ایسا نہیں ہے اور اس ترمیم کا تعلق کسی عام شخص یا کسی تنخودار طبقے سے بھی نہیں ہے۔
مثال کے طور پر گندم کے کاروبار سے وابستہ کسی شخص نے سپلائر سے 20 آٹے کی بوریاں خریدیں اور دو لاکھ روپے یا اس سے زائد ادائیگی ایک ہی بل پر سپلائر کو کیش میں کی۔
اب اس صورت حال میں کیش ادائیگی کی وجہ سے دو لاکھ روپے میں 50 فیصد یعنی ایک لاکھ روپے اخراجات میں شمار کیے جائیں گے جبکہ باقی ایک لاکھ روپے انکم ٹیمس گوشوارے جمع کرنے کے دوران منافع میں جمع ہوگا جس پر آپ کو ٹیکس دینا پڑے گا۔
مزید اس کو آسان بناتے ہے کہ اگر ایک سال میں کسی شخص نے 12 لاکھ روپے کی آٹے کی بوریاں خریدی ہیں اور اس سے ایک سال میں چھ لاکھ روپے کمائے ہیں۔
اب انکم ٹیکس سلیب کے مطابق چھ لاکھ روپے تک منافع انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے، لیکن اگر 12 لاکھ روپے کی ادائیگی نقد کی ہے تو منافعے کے چھ لاکھ روپے کے ساتھ مزید چھ لاکھ روپے (بجائے اس کے کہ یہ اخراجات تھے) جمع ہوں گے اور اس پر آپ کو ٹیکس دینا پڑے گا۔
اب اس ترمیم کا مقصد ڈیجیٹل اور بینک تک ذریعے ادائیگیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے اور اگر ان تمام صورتوں میں ادائیگی ڈیجیٹل یا بینکنگ کے ذریعے ہوں، تو تمام ادائیگیاں اخراجات میں ہی شمار ہوں گی اور اس پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔
اسی طرح اگر کوئی کمپنی کسی ایسی شخص سے مال خریدتا ہے جو فائلر ہوں، تو وہ ادائیگی بھی اخراجات میں شمار ہوگی اور اس پر کوئی اضافی ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔
Post Views: 4