خلائی مخلوق کی اڑن طشتری کا ٹکڑا؟ پراسرار دھاتی گولے نے سائنسدانوں کو چکرا دیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
کولمبیا کے پُرسکون شہر بوگا میں اچانک آسمان چمکا، اور پھر کچھ ایسا ہوا جس نے نہ صرف مقامی لوگوں کو چونکا دیا بلکہ ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔
آسمان سے ایک چمکدار، وزنی دھاتی گولہ زمین پر آگرا۔ ایسا منظر جو صرف سائنس فکشن فلموں میں دیکھا جاتا تھا، اب حقیقت میں لوگوں کے سامنے تھا۔
یہ پراسرار شے محض ایک گول دھات کا ٹکڑا نہیں بلکہ معمہ بن چکی ہے۔ مقامی ماہرین، خاص طور پر محقق جوس لوئس ویلازکویز، اس گولے کا بغور مطالعہ کر رہے ہیں اور ان کا مشاہدہ خاصا حیران کن ہے۔ گولے کی تین الگ سطحیں ہیں، مگر اس میں نہ کوئی جوڑ ہے، نہ کوئی ویلڈنگ کا نشان۔ گویا یہ کسی کاریگر کی تخلیق نہیں بلکہ کسی نامعلوم ٹیکنالوجی کی پیداوار ہو۔
ویلازکویز کے مطابق، یہ عجیب و غریب صفات اس امکان کو تقویت دیتی ہیں کہ شاید یہ گولہ زمین سے باہر، کسی اور دنیا سے آیا ہو۔ اس دعوے نے عوام میں چہ مگوئیاں چھیڑ دی ہیں کہ کیا واقعی ہم کائنات میں تنہا نہیں؟
تاہم، ہر کوئی اس خیال سے متفق نہیں۔ امریکی ماہرِ طبیعیات اور یونیورسٹی آف سان ڈیاگو سے منسلک جولیا موس بریج نے اس دریافت کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گولہ زیادہ تر ایک فن پارے یا آرٹ پروجیکٹ جیسا لگتا ہے، نہ کہ کسی خلائی مخلوق کی سفری چیز۔
???? BREAKING - Radiologist Examines UFO Sphere That Crashed in Buga, Colombia#Ufotwitter pic.
فاکس نیوز ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے مکمل سائنسی تجزیہ ضروری ہے۔ ان کے مطابق، فضا میں عجیب و غریب اشیاء کا نظر آنا کوئی نئی بات نہیں، اور کئی حکومتیں پہلے ہی آسمان پر نظر آنے والی ’’نامعلوم اشیاء‘‘ کی موجودگی کو تسلیم کرچکی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف تحقیقی گروہ جیسے سائنسی کوالیشن فار یو اے پی اسٹڈیز، یو اے پی ڈسکلوژر فنڈ اور گیلیلیو پروجیکٹ اس گولے جیسے واقعات کو گہرائی سے جانچنے میں مصروف ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا یہ واقعی کسی اور دنیا سے آیا ہے یا ہماری اپنی زمین کی ایک فنکارانہ چال ہے؟
بوگا میں گرا یہ دھاتی گولہ اب صرف ایک شے نہیں بلکہ عالمی سطح پر جاری یو ایف اوز اور کائناتی اسرار کی بحث میں نیا ایندھن بن چکا ہے۔ جہاں کچھ اسے غیر زمینی زندگی کا اشارہ سمجھ رہے ہیں، وہیں دوسرے اسے صرف انسانی تخلیق کا حصہ مانتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے: آسمان سے گرنے والا یہ پراسرار گولہ سادہ نہیں، بلکہ سائنس، تجسس اور قیاس آرائیوں کا ایک دھماکا خیز امتزاج ہے۔ اب دنیا منتظر ہے کہ سچ آخر کب سامنے آئے گا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
چاند اور مریخ مشنوں کیلئے خلائی زرعی فارمز کا روڈ میپ جاری
میلبورن(ویب ڈیسک) سائنس دانوں نے چاند اور مریخ مشنوں کے لیے خلائی زرعی فارمز کا روڈ میپ جاری کر دیا۔خبرایجنسی کے مطابق عالمی سائنس دانوں نے چاند اور مریخ پر طویل مدتی انسانی قیام کو برقرار رکھنے کے لیے پودوں پر مبنی زرعی نظام تیار کرنے کی ایک جامع روڈ میپ پیش کی ہے، جو زمین پر بھی پائیدار غذائی پیداوار میں انقلاب لا سکتی ہے۔
میلبورن یونیورسٹی کے مطابق اس منصوبے میں مختلف ممالک اور خلائی ایجنسیوں کے 40 سے زائد سائنس دان شامل ہیں، جنہوں نے طویل المدتی خلائی مہمات کے لیے خود کفیل، پودوں پر مبنی لائف سپورٹ سسٹم تیار کرنے کے لیے درکار سائنسی پیش رفت کی نشاندہی کی ہے۔ یہ تحقیق نیو فائیٹولوجسٹ جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ بایو ری جنریٹو سسٹم تازہ غذا اگا سکتے ہیں، پانی اور ہوا کو دوبارہ قابلِ استعمال بنا سکتے ہیں اور خلا بازوں کی صحت اور فلاح و بہبود کا سہارا بن سکتے ہیں۔ مستقبل کی خلائی مہمات کی رہنمائی کے لیے محققین نے ایک نیا فریم ورک بھی تجویز کیا ہے۔ بایوری جنریٹو لائف سپورٹ سسٹم ریڈی نیس لیول ، جو یہ جانچنے میں مدد دے گا کہ کس حد تک پودے خلائی مکانات میں غذائی اجزا کی ری سائیکلنگ، پانی کی صفائی، آکسیجن کی پیداوار اور غذائیت فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
میڈیا ریلیز کے مطابق روڈ میپ میں فصلوں کی سائنس میں ہونے والی جدید ترین پیش رفت جیسے سنتھیٹک بایولوجی، پریسیژن سینسنگ اور کنٹرولڈ انوائرنمنٹ ایگریکلچر کو نمایاں کیا گیا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ تحقیق ناسا کے 2027 کے آرٹیمس تھری مشن سے قبل ترجیحات طے کرنے میں مدد دے گی، جس کے تحت انسان دوبارہ چاند کی سطح پر جائیں گے اور لونر ایفیکٹس آن ایگریکلچرل فلورا تجربہ کیا جائے گا جو پہلی بار چاند پر پودے اگا کر انہیں واپس لانے کی کوشش ہوگی۔
مطالعے کے شریک مصنف اور میلبورن یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سگفریڈو فوینٹس کے مطابق چاند کے لیے زرعی نظام ڈیزائن کرنا زمین پر زراعت کو بہتر بنانے کے لیے اہم بصیرتیں فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی ماہرین کے ساتھ مل کر انہوں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ پودوں کو کس طرح انجینئر، موافق اور مانیٹر کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ چاند اور مریخ کے ماحول میں بھی نشوونما پا سکیں۔