روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے درمیان دو گھنٹے طویل ٹیلیفونک گفتگو ہوئی، جس میں ایران کے جوہری پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی کے خطے پر اثرات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

خبر ایجنسیوں کے مطابق فرانسیسی صدر میکرون نے گفتگو کے دوران خدشہ ظاہر کیا کہ ایران کا جوہری پروگرام اور میزائل نظام خطے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ ایران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ مکمل تعاون کرے اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنائے۔

روسی صدر پیوٹن نے ایرانی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جوہری توانائی کی ترقی جاری رکھے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کی خودمختاری اور سلامتی کا احترام کیا جانا چاہیے۔

فرانسیسی صدر میکرون نے کہا کہ ایرانی جوہری پروگرام اور میزائل سسٹم سے جڑے خدشات کا سفارتی حل نکالنے کے لیے فرانس پرعزم ہے۔

دونوں رہنماؤں نے خطے میں امن و استحکام کی ضرورت پر اتفاق کیا اور کہا کہ سفارتی کوششوں کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا ہی بہترین راستہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جوہری پروگرام اور میزائل کہ ایران

پڑھیں:

سید عاصم منیر سے جنرل عبدالرحمان موسوی کا رابطہ، جنگ میں حمایت پر اظہار تشکر

ایرانی خبررساں ایجنسی کے مطابق ایرانی آرمی چیف نے فیلڈ مارشل سے ٹیلیفونک گفتگو میں ایران کی حکومت مسلح افواج اور عوام کی جانب سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اصولی اور جرات مندانہ حمایت نے ایران کے مؤقف کو تقویت دی اور خطے میں یکجہتی کو پیغام دیا۔ اسلام ٹائمز۔ ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل عبدالرحمان موسوی نے اسرائیل کے خلاف 12 روزہ جنگ کے دوران حمایت پر پاکستان سے باضابطہ اظہار تشکر کیا ہے۔ ایرانی خبررساں ایجنسی کے مطابق جنرل موسوی نے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ٹیلیفونک گفتگو میں ایران کی حکومت مسلح افواج اور عوام کی جانب سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اصولی اور جرات مندانہ حمایت نے ایران کے مؤقف کو تقویت دی اور خطے میں یکجہتی کو پیغام دیا۔

واضح رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے ایران کے مختلف علاقوں پر اچانک حملوں کا آغاز کیا تھا، جن میں ایرانی فوج اور پاسدارانِ انقلاب کے سینئر کمانڈرز سمیت جوہری سائنسدان بھی شہید ہوئے۔ ابتدائی حملے شہری و عسکری اہداف پر انتہائی تباہ کن نوعیت کے تھے۔ اس کے بعد امریکا نے بھی فردو، اصفہان اور نطنز میں ایرانی جوہری تنصیبات پر فضائی کارروائیاں کیں، جس سے خطے میں ایک نئی جنگی فضا پیدا ہو گئی، جوابی کارروائی میں ایران نے اسرائیل پر درجنوں میزائل داغے جنہوں نے تل ابیب سمیت دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔

پاکستان نے اس جنگ کے دوران بارہا خطے میں امن کی بحالی پر زور دیا لیکن ساتھ ہی یکطرفہ جارحیت کی مذمت اور ایران کی خودمختاری کے دفاع کی حمایت کا اعلان بھی کیا، پاکستانی وزارت خارجہ اور اعلیٰ عسکری قیادت کی سطح پر جاری بیانات میں مسلم امہ کے اتحاد اور علاقائی خودمختاری کے احترام کو مرکزی نکتہ قرار دیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • پیوٹن اور ایمانوئل میکرون کا رابطہ، ایران کے ایٹمی پروگرام پر تفصیلی بات چیت
  • جی7 کا ایران کے جوہری پروگرام پر جامع، قابلِ تصدیق اور دیرپا معاہدے کیلئے مذاکرات کی بحالی پر زور
  • امریکی حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو خاطر خواہ نقصان نہیں پہنچا، واشنگٹن پوسٹ کا دعویٰ
  • ایران کا اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی پر عمل درآمد پر شک و شبہات کا اظہار
  • جنگ بندی سمیت کسی بھی وعدے پر عملدرآمد کے بارے میں شدید شکوک ہیں، ایران
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ایرانی آرمی چیف کا ٹیلیفونک رابطہ
  • سید عاصم منیر سے جنرل عبدالرحیم موسوی کا رابطہ، جنگ میں حمایت پر اظہار تشکر
  • سید عاصم منیر سے جنرل عبدالرحمان موسوی کا رابطہ، جنگ میں حمایت پر اظہار تشکر
  • اسحاق ڈار کا حکان فدان سے رابطہ، علاقائی پیشرفت پر تبادلہ خیال