5 جولائی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے: شرجیل میمن
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن) سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے 5 جولائی کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ 5 جولائی کا دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، ایک غیر آئینی اقدام کے ذریعے ملک کی پہلی منتخب عوامی حکومت کو برطرف کیا گیا،5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قائم جمہوری حکومت پر شب خون مارا۔
نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اگر بھٹو کی حکومت برقرار رہتی تو آج پاکستان ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور مضبوط ملک ہوتا، ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیادرکھی، مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اصلاحات کیں اور پاکستان کو اسلامی دنیا کے اتحاد کی علامت بنایا۔ انھوں نے کہا کہ شہید بھٹو کے خلاف یہ سازش دراصل عالمی سازش تھی جس کا مقصد پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنا، ترقی کے راستے کو بند کرنا تھا۔
دریں اثنا پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثارکھوڑو نے کہا ہے کہ 5 جولائی جمہوریت پر شب خون مارنے کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا، 5 جولائی 1977 آمر ضیاء الحق کا شہید بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا اقدام تاریخ میں یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
جاری بیان میں نثار کھوڑو نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین سے 58 ٹو بی کی شق کا خاتمہ کرواکے رات کے اندھیرے میں جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجنے کا راستہ ہمیشہ بند کرادیا ۔ انھوں نے کہا کہ آئین کی اصل حالت میں بحالی،18 ویں ترمیم کی منظوری اور 58 ٹو بی کی شق کے خاتمے کا کریڈٹ پارلیمنٹ اور صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے ۔
مظفرگڑھ: لنگر سرائے کے قریب بس اور ٹر الر میں خوفناک تصادم، 6 افراد جاں بحق، 18 زخمی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
پانچ جولائی ایک تاریخ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پانچ جولائی کو پیپلز پارٹی کی حکومت ختم اور برطرف نہیں ہوئی تھی بلکہ ڈاکٹر نذیر شہید کے قاتلوں کی حکومت برطرف ہوئی تھی۔ جو بات سچ ہے وہ نوجوان نسل کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے بھٹو حکومت اور ان کی جمہوریت کی یاد دھانی قوم کو مسلسل کرانے کی ضرورت ہے۔ جن کو بھٹو صاحب کی حکومت کے بارے کچھ جاننا ہے وہ بھٹو کے مخالفین کو نہ پڑھیں خود بھٹو صاحب کے چہیتے کارکنوں کی کتا ب ہی مطالعہ فرما لیں۔ رانا شوکت محمود، پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر رہے، بھٹو کے صوبائی وزیر رہے، اپنی کتاب انقلاب اور رد انقلاب میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ بھٹو صاحب کے پریس سیکرٹری خالد حسن کی کتاب مطالعہ کرلی جائے آنکھیں کھل جائیں گی کہ بھٹو کی جمہوریت کیسی تھی؟ بھٹو صاحب نے ایک بار سکندر مرزا سے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کے لیے آپ کی خدمات ناگزیر ہیں، جب ہمارے ملک کی تاریخ معروضی مورخین لکھیں گے تو آپ کا نام مسٹر جناح سے بھی پہلے رکھا جائے گا‘‘۔ مکمل چاپلوسی۔ پیپلزپارٹی ایک سیاسی جماعت ہے اس کو اپنا پروگرام، اپنا منشور اور اپنی تاریخ اپنے رنگ اور مزاج کے مطابق ہی بیان کرنی ہے۔ بالکل کرے، کوئی نہیں روک سکتا مگر وہ دوسروں کو بے خبر نہ سمجھے۔
جب ہم سیاسی واقعات کو کسی تعصب کے بغیر دیکھیں گے اور غلطیوں سے سبق سیکھیں تو آگے بڑھ سکیں گے۔ خالد حسن اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہیں بھٹو صاحب کی حکومت کی برطرفی میں امریکا کا کوئی کردار نہیں ملا۔ بھٹو صاحب اپنے دوستوں پر بھی بہت کم بھروسا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے دور میں ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید کیا گیا، خواجہ رفیق قتل ہوئے، نواب محمد احمد خان قتل ہوئے، ڈاکٹر نذیر احمد جنہیں سید اسد گیلانی کو دی گئی تنبیہ کے بعد ان کے کلینک میں گولی مار کر شہید کیا گیا تھا۔ خواجہ رفیق کو پنجاب اسمبلی کے پیچھے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے گولی مار دی گئی تھی۔ عبدالصمد اچکزئی کو ان کے گھر پر دستی بم حملے میں قتل کیا گیا۔ ایم پی اے اور بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مولوی شمس الدین کو ان کی گاڑی میں گولی مار دی گئی تھی اپنی جان بچانے کی کوششوں سے بچنے والوں میں ولی خان بھی شامل تھے، جنہوں نے حملے میں اپنے ڈرائیور اور ذاتی محافظ کو کھو دیا تھا۔ میاں طفیل محمد کو جیل میں بدتمیزی کا نشانہ بنایا گیا، اس زمانے کے اخبارات کا مطالعہ کیجیے، بہت کچھ مل جائے گا۔ اس وقت بدنام زمانہ فوس ایف ایس ایف تھی جسے پولیس افسر حق نواز ٹوانہ نے بنایا تھا۔ نواب محمد احمد خان کے قتل کے وقت مسعود محمود اس کے سربراہ تھے۔ یہ ایک نجی آرمی تھی۔ چودھری سردار سابق آئی جی پولیس پنجاب کی سوانح عمری دی الٹیمیٹ کرائم کا مطالعہ کیجیے‘ بہت کچھ اس میں مل جائے گا۔ ان کے مطابق ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود بھٹو صاحب کے چیف سیکورٹی آفیسر سعید احمد خان اور اس وقت کے ڈی آئی جی سردار عبدالوکیل، سب کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بات یہی تک محدود نہیں بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی مخالف خواتین کے خلاف اس وقت کی نتھ فورس کو جس طرح استعمال کیا! یہ سب کچھ غضب ناک تھا۔
چودھری ظہور الٰہی جن کے سیاسی وارث اس سے مفاہمت کیے بیٹھے ہیں ان کے خاندان نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ان کے خلاف 117 مقدمات بنائے گئے۔ اس میں بھینس چوری کا معاملہ بھی شامل تھا۔ دوسری جانب دیکھیے جب اقتدار کے آخری دنوں میں بھٹو صاحب نے مولانا مودودی سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تو مولانا نے انہیں عزت دی، گھر پر ملاقات کی اور کارکنوں سے کہا خبردار کوئی میرے مہمان کو گزند پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔
بھٹو صاحب انتقامی مزاج کے تھے فیصل آباد اس وقت لائل پور سے پی پی پی کے ایم این اے مختار رانا ان کے غصے کا نشانہ بنے، شدید جسمانی تشدد کیا گیا‘ پنجابی کے درویش شاعر استاد دامن نے بھٹو مخالف نظم لکھی ان کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ ہینڈ گرنیڈ رکھنے کا الزام لگایا۔ جے اے رحیم کابینہ کے ایک سینئر رکن تھے ان کا قصور یہ تھا کہ وہ بھٹو صاحب کے عشائیہ سے ذرا جلدی نکل گئے انہیں رات ایک بجے ایف ایس ایف کے ہاتھوں ذلیل کرایا گیا۔ ملک معراج خالد نے اپنی سوانح عمری معراج نامہ میں بیان کیا ہے کہ بھٹو اور کھر اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے تھے۔ معراج خالد کو ایک بار ظہور الٰہی کی بیٹی کا فون آیا، جس کا لاہور کالج آف ہوم اکنامکس میں داخلہ روک دیا گیا تھا۔ معراج ایک نفیس انسان تھے بھٹو صاحب سے داخلے کی اجازت چاہی تو بھٹو صاحب مشتعل ہوگئے، دلائی کیمپ بھی بھٹو صاحب سے جڑا ہوا ہے‘ افتخار تاری، چودھری ارشاد اور میاں اسلم یہاں قید کیے گئے۔ جنرل کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’’ورکنگ ود ضیا‘‘ میں واقعات بیان کیے ہیں جنرل گل حسن اور ائر مارشل رحیم خان نے بھٹو کو اقتدار میں لانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ان دونوں کو انتہائی ذلت آمیز طریقے سے برطرف کر دیا گیا، استعفوں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا، بے شمار واقعات ہیں اس دور کے اور یہ بھی سچ ہے کہ پیپلزپارٹی آج کچھ بھی کہے مگر تاریخ بہت بے رحم ہے۔
1977 کے انتخابات میں جہاں تک دھاندلی کی بات ہے اپنی انفرادی جیت کو یقینی بنانے کے لیے جو پہلی اینٹ بھٹو نے بنائی تھی وہ خود وزیر اعظم کے بلامقابلہ انتخاب سے رکھی گئی تھی، اس کی مثال ان کے وزیر اعلیٰ اور چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے بھی رکھی۔ بس پیپلزپارٹی کو اسی کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ بھٹو صاحب کے مداح اپنی سیاسی وابستگی رکھیں مگر تاریخ کا بھی مطالعہ کرتے رہیں۔