سعید غنی استعفا دے دیں،ایس بی سی اے بدعنوان ادارہ ہے،پاکستان پیپلزپارٹی
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر)کراچی کے علاقے لیاری سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول نے کہا ہے کہ وزیربلدیات سعید غنی سے کہوں گاکہ ان کو بھی مستعفی ہوجانا چاہیے، ایس بی سی اے افسران صرف معطل نہیں بلکہ گرفتار بھی ہوں گے۔ اب بلڈرز مافیا کے خلاف آپریشن شروع ہو گا۔نبیل گبول نے لیاری کے علاقے بغدادی میں متاثرہ عمارت کا دورہ کیا اور متاثرین سے ملاقات بھی کی۔ اس موقع پرمیڈیا سے گفتگو میں نبیل گبول نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) بدعنوان ادارہ ہے، ڈی جی ایس بی سی اے میرا فون تک نہیں اٹھاتے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا سعید غنی سے بھی استعفے کا مطالبہ کریں؟ کہا جاتا ہے کہ ایس بی سی اے کا ڈی جی ڈان ہے، اس کو کچھ کہیں گے تو اوپر سے فون آ جائے گا۔پی پی رہنما نے کہا کہ یہ صرف معطل نہیں گرفتار ہونے چاہییں، دو چار افسران کو میں نے ٹرانسفر بھی کرایا، وہ بلڈرز سے پیسے لیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جب سے ایم این اے بنا ہوں کئی عمارتیں گروائیں، مگر 3 ماہ بعد یہ عمارتیں دوبارہ تعمیر ہو جاتی ہیں، لوگ غیر قانونی تعمیرات کی طرف کیوں جاتے ہیں؟ لوگوں کو شعور دینا ہے۔نبیل گبول نے کہا کہ 122 عمارتوں کے خلاف کیسے آپریشن کریں گے، لوگوں کو گھروں سے نکالنا مذاق نہیں ہے، بہت بڑا آپریشن ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ویسا ہی آپریشن ہے جیسا کراچی میں گینگ وار کے خلاف کیا گیا تھا، تنظیموں میں کریمنلز کے خلاف 3 مہینے کا آپریشن کیا گیا تھا، اسی طرح کا آپریشن کرنا پڑے گا۔پی پی کے رکنِ قومی اسمبلی نے کہا کہ آپ کو علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے کو اختیار دینا ہو گا، بلڈر مافیا کے خلاف سندھ اسمبلی میں قانون سازی کریں گے، متاثرین کو معاوضہ ملنا چاہیے، ان کی بحالی کے اقدامات کرنا چاہییں۔ انہوں نے کہاکہ 122 عمارتیں خالی کرا رہے ہیں، لوگ اسکول میں جانے کو تیار نہیں، ہمارے پاس دوسری جگہ نہیں۔نبیل گبول نے کہا کہ 4 ملزمان کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں، 4 مرکزی ملزمان جو مافیا تھے بھاگ گئے ہیں، بھاگنے والے پی پی کے لیڈروں کا سہارا لیتے تھے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نبیل گبول نے کہا ایس بی سی اے نے کہا کہ انہوں نے کے خلاف
پڑھیں:
پاکستان میں جادو ٹونا کے خلاف قوانین کیا ہیں؟ کتنے سخت؟ اور سزائیں کیا ہیں؟
پاکستان میں جادو ٹونے کے خلاف کوئی مخصوص قانون موجود نہیں ہے۔ لیکن 2024 میں سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے “Criminal Laws (Amendment) Bill, 2024” کے متن میں جادو، ٹونا، سحر جیسے عملیات کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی۔ اس بل کے تحت پریکٹس یا اشتہار دینے پر 7 سال تک قید کی تجویز پیش کی گئی تھی مگر یہ بل اب تک قانون نہیں بن سکا۔
واضح رہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد جادو ٹونے یا عملیات کے خلاف کوئی مخصوص، جامع قانون فوری طور پر نہیں بنایا گیا۔ تاہم مختلف قوانین میں بعض دفعات موجود ہیں جن کے تحت جادو یا عملیات کے خلاف کیسز کو سنا جا سکتا ہے۔
موجودہ قانونی دفعات اور ان کا اطلاق پاکستان پینل کوڈ (PPC) – دفعہ 420دھوکہ دہی اور فریب کے تحت آتا ہے۔ اگر کوئی شخص جادو یا عامل بن کر لوگوں سے پیسے لیتا ہے یا جھوٹے دعوے کرتا ہے تو اس پر یہ دفعہ لگ سکتی ہے۔جس کے تحت ایسے شخص پر 7 سال قید اور جرمانہ ہوتا ہے۔
PPC دفعہ 505 (1b)2
اگر کوئی شخص جادو کے ذریعے خوف پھیلائے یا عوامی امن میں خلل ڈالے تو یہ دفعہ لاگو ہو سکتی ہے۔
PPدفعہ 295 اور 298 (مذہبی جذبات مجروح کرنے کے قوانین)
اگر کوئی جادو یا عملیات مذہب کے خلاف ہوں، تو ان دفعات کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
سائبر کرائم ایکٹ (PECA 2016)اگر جادو کے جھوٹے دعوے یا دھوکہ دہی سوشل میڈیا یا ویب پر کی جائے، تو یہ ایکٹ لاگو ہو سکتا ہے۔
اہم بل اور تجاویز جو قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں پیش ہو چکے ہیں سندھ جادوگری ایکٹ (Proposed – 2020)سندھ اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا تھا جس کے مطابق جادو کے ذریعے کسی کو نقصان پہنچانے والے کو سزا دی جائے۔
اس میں 3 سال قید اور جرمانے کی تجویز دی گئی تھی، مگر یہ بل پاس نہیں ہو سکا۔
خیبر پختونخوا – عاملوں کے خلاف کارروائی (2022-23)خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے عاملوں اور جعلی پیروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا، لیکن یہ بھی عارضی اقدامات تھے، نہ کہ مکمل قانون سازی۔
مختلف عدالتوں کے فیصلےعدالتوں نے کئی مواقع پر عاملوں کو دھوکہ دہی اور غیر اخلاقی حرکتوں پر سزا دی، مگر ان فیصلوں کی بنیاد بھی PPC کی عمومی دفعات ہی تھیں، جبکہ جادو کے خلاف کوئی خصوصی قانون نہیں تھا۔
سینیٹ میں پیش کیا گیا بلستمبر 2024 میں سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے ایک خطرناک سماجی پریکٹس جادو ٹونا کے خلاف قوانین کو مزید سخت بنانے کی سفارش کی۔ “Criminal Laws (Amendment) Bill, 2024” کے تحت ایسے افراد جو جادو کرتے یا اس کا اشتہار دیتے ہیں، تو 7 سال تک قید اور 1 ملین روپے جرمانہ کی سزا تجویز کی گئی۔
کمیٹی نے نشاندہی کی کہ اشتہارات عوام کو بکثرت مل رہے ہوتے ہیں، ان کی حدود کا تعین ضروری ہے۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ایک نئی حکومتی کمیٹی بنانے اور مسلمان علما سے مشاورت کرنے کی سفارش کی تاکہ اس قانونی فریم ورک میں اسلامی تعلیمات کو بھی مدِنظر رکھا جا سکے۔
تاہم سینیٹ میں پیشگی منظوری کے باوجود، اسے سینیٹ فل ہاؤس یا قومی اسمبلی میں منظوری یا صدر مملکت کی طرف سے سند نہیں ملی۔
یہ بھی پڑھیے جادو ٹونا کرنے والے ہوشیار، سینیٹ میں ترمیمی بل پیش، سخت سزا تجویز
ماہرین کا کہنا ہے کہ علما کی مشاورت سے اسلامی فریم ورک میں توازن لایا جا سکتا ہے، مگر اس سے فرقہ پرستی یا غلط گرفتاریوں کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
پاکستان میں جادو ٹونا کے خلاف قوانین ایک نئے موڑ پر کھڑے ہیں۔ اگر بل پاس ہوا تو سخت سزاؤں اور جرمانے سے تجربہ کرنے والوں کے خلاف واضح قانونی راستہ ممکن ہوگا۔ تاہم اس کے نفاذ میں قانونی وضاحت، انسانی حقوق کا تحفظ، اور اسلامی تعلیمات کی پاسداری کو یقینی بنانا چیلنج رہے گا۔
پاکستان میں جادو ٹونا کرنے اور کروانے والوں کی تعداد کتنی ہے؟پاکستان میں جادو ٹونا کے حوالے سے اگرچہ کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں، لیکن مختلف تحقیقی رپورٹس اور مشاہدات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں جادو، سحر اور عاملوں پر یقین رکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی ایک تحقیق کے مطابق دیہی علاقوں میں تقریباً 55 فیصد اور شہری علاقوں میں 45 فیصد افراد جادو ٹونا پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان کی کل آبادی کو مدِنظر رکھا جائے تو اندازاً 12 سے 13 کروڑ افراد کسی نہ کسی درجے میں جادو یا روحانی اثرات پر یقین رکھتے ہیں۔ اس قدر بڑی آبادی میں سے لاکھوں افراد مختلف پیروں، عاملوں، نجومیوں یا روحانی معالجین سے رجوع کرتے ہیں۔
مختلف میڈیا رپورٹس کے ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں کم از کم 60 ہزار سے لے کر 1.2 لاکھ کے درمیان ایسے افراد یا جعلی عاملین موجود ہیں جو جادو ٹونا، بندش، تعویذ، سحر اور ایسی ہی دیگر ’خدمات‘ فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
صرف پنجاب میں 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق 10 ہزار سے زائد ایسے عاملین رجسٹرڈ یا فعال تھے۔ چونکہ یہ سرگرمیاں زیادہ تر غیر رسمی طریقے سے کی انجام دی جاتی ہیں، اس لیے ان کی درست تعداد معلوم کرنا مشکل ہے، تاہم سوشل میڈیا، اشتہارات اور اخبارات میں ان کی موجودگی سے یہ واضح ہے کہ جادو ٹونا کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ اور ان کا اثر عام زندگی پر خاصا گہرا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں جادو ٹونے پر مقدمہجولائی 2023 میں متحدہ عرب امارات کی عدالت نے 7 افراد کو گرفتار کیا جو دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے پاس ’400 سال پرانا جن‘ تھا اور وہ جادو ٹونا کر رہے تھے۔ انہیں 6 ماہ قید اور 50 ہزار درہم جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ اگرچہ یہ پاکستان کا کیس نہیں لیکن یہ بتاتا ہے کہ خطے میں جادو ٹونے کے مقدمات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔
یو اے ای میں جادو ٹونے کے خلاف کیا قوانین ہیں؟یو اے ای میں جادو ٹونا اور اس کے متعلق کام کرنے والوں کے خلاف قانون نہ صرف واضح اور مخصوص ہے، بلکہ اس پر کسی نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ 2021 کے قانون سازی کے بعد سے یہ جرم سزا یافتہ، ضبط شدہ، اور غیر ملکیوں میں ڈیپورٹیشن لاگو کرنے والا جرم بن چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیے نائجیرین نژاد برطانوی مصنفہ جو اپنی ہی لکھی کہانیاں پڑھ کے ڈر جاتی ہیں
یو اے ای میں جادو ٹونا (سورکری یا وِچرکرافٹ) کے خلاف قوانین حالیہ برسوں میں سخت تر ہو چکے ہیں۔ وہ کونسے قوانین ہیں؟ آئیے جانتے ہیں:
1۔ Federal Decree‑Law No. 31 of 2021 (Crimes & Penalties Law)، آرٹیکل 366
اس قانون کے تحت ’ماڈک یا جگلری‘ (جادو ٹونہ یا جادو کے عمل) کو براہِ راست جرم قرار دیا گیا ہے۔ اسے کرنے یا اس کے ذریعے کسی انسان کے جسم، دل، ذہن یا مرضی کو متاثر کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کم از کم AED 50,000 جرمانہ اور قید کی سزا دی جاتی ہے، اور غیر ملکی مجرمین کی صورت میں ڈیپورٹیشن بھی ہوتی ہے، جبکہ جادوئی آلات ضبط کر کے تلف بھی کیے جاتے ہیں۔
2۔ آرٹیکل 367 – اشتہاری، معاون یا سمگلنگ اقدامات شامل
یہ دفعات ان لوگوں پر لاگو ہوتی ہیں۔ جو دوسروں سے جادو کروانے میں معاونت کرتے ہیں، جادوئی کتابیں، تعویذ یا آلات درآمد یا فروغ کرتے ہیں، یا اشتہاری سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ان پر قید اور/یا جرمانہ لاگو ہوتا ہے ۔
پاکستان میں جادو ٹونے کے الزام میں گرفتاری اور مقدمات تو ہوتے ہیں، مگر زیادہ تر کیسز سے ’قتل‘، ’دھوکہ‘، یا ’فراڈ‘ جیسی دفعات کے تحت نمٹا جاتا ہے۔ صرف جادو/سحر کی خاص تعریف یا سزا موجود نہیں، جس کی وجہ سے سزائیں متفرق اور روایتی قانونی فریم ورک کے تحت ہوتی ہیں۔ یو اے ای کی مثال مؤثر ہو سکتی ہے، مگر پاکستان میں اس موضوع پر مخصوص قانون سازی ابھی تک مکمل طور پر نافذ نہیں۔
بعض پاکستانی ماہرین اس طرح کے جادو، ٹونا اور عملیات کرنے والوں کے خلاف نہ صرف کریک ڈاؤن سے اتفاق کرتے ہیں۔ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ اس سب کے خلاف باقاعدہ قانون ہو جس کے تحت کاروائی کی جا سکے۔ تاکہ جعلی پیروں، اور غلط عملیات کرنے والوں کا خاتمہ ہو سکے۔ مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے۔ جب حکومتی سطح پر اس کے خلاف سنجیدگی سے قوانین بنائے جائیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جادو ٹونے کے خلاف قوانین جادو، ٹونا، عملیات