Express News:
2025-10-04@16:48:46 GMT

پاکستان افغانستان تعلقات کی پیچیدگیاں

اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT

پاکستان افغانستان تعلقات ایک مشکل دوراہے پر ہیں۔ایک دوسرے کے بارے میں بداعتمادی اور خدشات کا بڑھنا ظاہر کرتا ہے کہ دونوں اطراف سے ان معاملات کو سنجیدگی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ افغانستان ان معاملات کو حل کرنے میں کسی بھی طرح کوئی بڑی سنجیدگی دکھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

پاکستان داخلی دہشت گردی اور تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو تحفظات کافی عرصے سے افغانستان کے سامنے پیش کررہا ہے، اس پر افغان طالبان کا طرز عمل وہ نہیں جو پاکستان کو درکار ہے۔

اگرچہ افغانستان کی طالبان حکومت ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان کو یہ یقین دہانی کراچکی ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی صورت میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے کسی کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔لیکن اس یقین دہانی کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہورہی ہے ، افغانستان کی طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی سہولت کاری بھی کررہی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کا داخلی سیکیورٹی بحران بڑھ رہا ہے اور اس کے تانے بانے افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں جو صرف ان دونوں ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ خطہ کے مجموعی امن اور سیکیورٹی کے لیے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔

اسی بنیاد پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے پہلی بار افغان حکومت کو واضح اور دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ وہ اب خوارج یعنی دہشت گرد یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ان کے بقول اب پاکستان میں افغان حکومت یا ان کی سہولت کاری کی مدد سے کام کرنے والی ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا بلکہ طاقت کی بنیاد پر اس سے نمٹا جائے گا اور اس پر کسی بھی سطح پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

پہلی بار وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان ہمارا دشمن ملک اور اب ہمیں اس سے کوئی اچھائی کی توقع نہیں اور ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب کچھ ہفتے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات کی بہتری کے لیے سفارت کاری اور ڈپلومیسی کا عمل چل رہا تھا۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ معاملات حل ہونے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کی طرف چلے گئے ہیں ۔کیونکہ افغان حکومت کی جانب سے بھی پاکستان پر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے بقول پاکستان کی حکومت اپنی داخلی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ہم پر الزام عائد کرکے خود کو سیاسی طور پر بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔

اس لیے پاکستان ہم پر داخلی سطح پر ہونے والی دہشت گردی کا ملبہ ڈال کر خود کو بچانے اور دو طرفہ تعلقات میں خرابیاں پیدا کررہا ہے۔معروف تجزیہ کار کامران یوسف کی رپورٹ کے بقول پاکستانی حکام نے اس بات کا تعین کیا ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے حالیہ حملوں میں ملوث 70فیصد عسکریت پسند افغان شہری تھے۔یہ تعداد گزشتہ برسوں میں ریکارڈ کیے گئے 5سے 10 فیصد کی شرح سے بہت زیادہ ہے ۔ان کے بقول اگرافغان طالبان حکومت نے ان معاملات پر ٹھوس اقدامات نہ کیے تو یہ نقطہ اہم فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے۔

اگرچہ حالیہ دنوں میں افغان حکومت نے پاکستان کی جانب سے دھمکی آمیز لہجے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان کے بقول بات چیت اور اعتماد سازی کے ساتھ بات کو آگے بڑھانا ہوگا۔لیکن افغان حکومت یہ بھول رہی ہے کہ پاکستان نے دو طرفہ تعلقات کی بہتر ی سمیت داخلی دہشت گردی اور ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف سرگرمیوں یا دہشت گردی پر ہمیشہ بات کی اور اپنے تحفظات سے بارہا آگاہ کیا مگر افغان حکومت نے نہ تو مثبت جواب دیا اور نہ ہی ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بڑا اقدام اٹھایا جو ظاہر کرتا ہے کہ افغان حکومت پاکستان کے تحفظات پر کسی بھی عملی اقدام کے لیے تیار نہیں۔

ایک طرف پاکستان کو ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے داخلی محاذ پر دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف بھارت افغانستان کو پاکستان مخالف سرگرمیوں اور ٹی ٹی پی کو سہولت کاری بھی کررہا ہے۔بھارت، افغانستان اور ٹی ٹی پی کا باہمی گٹھ جوڑ پاکستان مخالف سرگرمیوں کا مرکز ہے اور اسی تناظر میں ہمیں ان ممالک سے پراکسی جنگ کا سامنا ہے جو ہماری داخلی سیکیورٹی کے نظام کو چیلنج بھی کرتا ہے اور نئے خطرات کو پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔

اب امریکا نے افغانستان سے بگرام ائربیس مانگنے کا مطالبہ کیا ہے اور دھمکی دی ہے اگر افغان حکومت نے ایسا نہ کیا تواس کو اس کے سنگین سطح کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔طالبان نے فوری طور پر امریکی مطالبہ کو مسترد کردیا ہے ۔لیکن ساتھ ساتھ بات چیت کا عندیہ بھی دیا ہے اور یقیناً افغان حکومت امریکا سے چند بڑی سیاسی اور مالی شرائط کے ساتھ اس پر رضا مند بھی ہوسکتی ہے۔لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر افغان حکومت ایسا کرتی ہے تو اس پر چین کا کیا ردعمل ہوگا اور کیا چین کو ناراض کرکے افغان حکومت اپنی ائر بیس دے سکتی ہے۔

اسی طرح اگر امریکا اس ائر بیس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کے پیچھے اس کے اصل مقاصد کیا ہیں اور پاکستان پر اس ائر بیس کے تناظر میں داخلی سطح پر کیا اثرات پیدا ہوںگے اس پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔اسی طرح ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان امریکا اور چین کے ساتھ بہتری پر مبنی تعلقات کے ساتھ کھڑا ہے اور دونوں بڑے ممالک پاکستان کو سفارتی سطح پر فوقیت دے رہے ہیں۔

ایسے میں کیا چین اور امریکا اپنی سطح پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے موجود بگاڑ کو ختم کرنے میں کوئی کلیدی کردار ادا کریں گے اور کیا بھارت وافغانستان کی باہمی مداخلت جو پاکستان مخالف ہے اس کو ختم کرنے میں کوئی بڑا کردارادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔کیونکہ ایسے لگتا ہے اب چین اور امریکا کی بڑی حمایت اور سفارت کاری کے بغیر پاکستان اور افغانستان کا بحران حل نہیں ہوسکے گا ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان مخالف افغان حکومت ہے کہ افغان پاکستان کو پاکستان کے ٹی ٹی پی کی ان کے بقول حکومت نے کسی بھی کرتا ہے کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

مودی کی ہٹ دھرمی اور انا نے خطہ میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے ۔جنگ میں شکست فاش ہوئی جو کہ مودی نے مسلط کی تھی۔اگر جنگ زیادہ طویل ہوتی تو بہت زیادہ تباہی اور انسانی ہلاکتوں کا خدشہ تھا۔اس وقت جنگ بندی میں ٹرمپ نے اہم کردار ادا کیا۔بھارت نے خود جنگ بندی پر سکون کا سانس لیا کیونکہ بہت بری طرح بھارت کی فضائیہ رافیل طیارے پاکستان ائیر فورس نے تباہ کر دیے ۔پاکستانی افواج مسلسل بھارت کی حدود میں پیشرفت کر رہی تھی۔مودی کے ہتھیار ڈالنے پر بھارت کی اپوزیشن اور عوام نے اظہار برہمی اور ناراضی کا اظہار کیا۔
ٹرمپ اور مودی کے درمیان تعلقات کی خرابی کی اصل وجہ بظاہر پاک بھارت جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والا بحران بنا۔ مئی میں کشمیر میں ہونے والے حملوں اور جھڑپوں نے خطے کو ایک بار پھر خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر خود کو ثالث ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اعلان کیا کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ۔ یہ وہ اعلان تھا جسے پاکستان نے خوش آمدید کہا اور کئی حلقوں نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کا مستحق قرار دیا۔ مگر یہی معاملہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ مودی حکومت نے اس پر سخت ردعمل دیا اور دونوں رہنماؤں کے تعلقات میں تناؤ کی پہلی بڑی دراڑ یہیں سے پیدا ہوئی۔پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو امن کا سفیر قرار دینے اور نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی مہم نے مودی کو مزید مشتعل کر دیا۔ بھارت کے لیے یہ صورت حال اس وجہ سے زیادہ پریشان کن تھی کہ عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی پوزیشن بہتر دکھائی دینے لگی تھی، جبکہ بھارت یہ تاثر دینے میں ناکام رہا کہ وہ ہی خطے کا بڑا اور فیصلہ کن کردار ہے ۔ ٹرمپ نے اس دوران پاکستان کے ساتھ توانائی، کرپٹو کرنسی اور معدنیات کے شعبوں میں بڑے معاہدے کیے ۔ یہ معاہدے نہ صرف پاکستان کے لیے معاشی لحاظ سے اہم تھے بلکہ بھارت کے لیے یہ ایک واضح پیغام بھی تھے کہ امریکا اب خطے میں توازن قائم کرنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ نئے باب کا آغاز کر رہا ہے ۔
اسی پس منظر میں ٹرمپ نے مودی سے اپنی نوبیل امن انعام کی مہم میں حمایت طلب کی۔ مگر مودی نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ انکار صرف انکار نہیں تھا بلکہ ٹرمپ کی انا کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ ٹرمپ نے اس کا بدلہ لینے کے لیے بھارت پر بھاری ٹیرف عائد کر دیے ۔ اگست میں امریکی صدر نے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف لگا دیا، جس نے بھارتی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ اقدام واضح کرتا تھا کہ ٹرمپ اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے عالمی تجارتی نظام کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔
مودی نے اس صورتحال کا جواب عالمی سطح پر اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے دیا۔ انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر سات سال بعد بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ قریبی رابطہ کیا۔ یہ سفارتی سرگرمیاں دراصل امریکا کو یہ پیغام دینے کے لیے تھیں کہ بھارت کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرے گا اور اپنی خارجہ پالیسی کو کثیر جہتی رکھے گا۔ تاہم اس سب کے باوجود مودی نے چین کے فوجی پریڈ میں شریک نہ ہو کر یہ باور کرا دیا کہ بھارت اور چین کے تعلقات میں بنیادی بداعتمادی بدستور موجود ہے اور یہ قریبی تعلقات کسی بھی وقت محدود ہو سکتے ہیں۔ٹائم میگزین کے کالم نگار کے مطابق ٹرمپ اور مودی کے درمیان اصل تنازع روس نہیں بلکہ کشمیر میں ہونے والی جھڑپیں تھیں۔ ٹرمپ کی ثالثی کی کوشش اور اعلان کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ، بھارت کے لیے ناقابل قبول تھا۔ پاکستان نے ٹرمپ کے اس کردار کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہیں نوبیل امن انعام کے لیے مستحق قرار دینے کی فضا بھی بنائی۔ یہ وہ نکتہ تھا جس نے مودی کو سب سے زیادہ ناراض کیا۔ اس کے بعد ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ معاہدے اور مودی سے نوبیل مہم کی حمایت کی فرمائش نے تعلقات کو مزید خراب کر دیا۔
امریکا کے 50فیصد ٹیرف کے اعلان کے بعد بھارتی حکومت پر اندرونی دباؤ بھی بڑھ گیا۔ ایک طرف مقامی صنعت کار اور تاجر برادری پریشان تھی، تو دوسری طرف بھارت کی عالمی سطح پر کمزور ہوتی پوزیشن نے مودی کو مجبور کیا کہ وہ نئی راہیں تلاش کریں۔ چین اور روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش اسی دباؤ کا نتیجہ تھی۔ لیکن بھارت کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ مکمل طور پر امریکا سے تعلقات توڑ لے ، کیونکہ دفاعی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے میدان میں امریکا اب بھی ایک بڑی طاقت ہے ۔یہ ساری صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ اور مودی کی لڑائی ذاتی انا اور عالمی سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوئی۔ ٹرمپ نے ثالثی کا کریڈٹ لے کر خود کو امن کا سفیر ثابت کرنے کی کوشش کی، پاکستان نے اس کردار کو تسلیم کر کے ان کے نوبیل انعام کے امکانات کو بڑھایا، لیکن بھارت نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ پھر معاہدے ، نوبیل مہم کی حمایت کا انکار، بھاری ٹیرف اور چین و روس کی طرف مودی کا جھکاؤ، یہ سب عوامل ایک دوسرے سے جڑ کر امریکا اور بھارت کے تعلقات میں ایسی دراڑ لے آئے جس نے عالمی سیاست کو متاثر کیا۔
اب جبکہ کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ امریکا اور بھارت تعلقات میں دراڑ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلقات دوبارہ اعتماد کی سطح پر بحال ہو سکیں گے ؟ خطے کے امن کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاک بھارت تعلقات میں کوئی بہتری آ سکتی ہے ؟ کیونکہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا، ٹرمپ یا کوئی اور رہنما ثالثی کے دعوے کرتے رہیں، امن محض ایک خواب رہے گا۔ امریکا، چین اور روس اپنی اپنی بساط پر کھیلتے رہیں گے ، مگر اصل بوجھ پاکستان اور بھارت پر ہے کہ وہ اپنے عوام کے مستقبل کو جنگ کی نذر کرتے ہیں یا امن کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے ۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائیں اور اپنی توانائیاں جنگ کی تیاری کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔ امریکا جیسے طاقتور ملک کو بھی چاہیے کہ وہ ثالثی کو ذاتی مفاد کے بجائے حقیقی امن کے لیے استعمال کرے ۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف ٹرمپ اور مودی جیسے رہنماؤں کی سیاست خطے پر منفی اثر ڈالنے سے رُک سکتی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • سفری پابندی ختم؛ طالبان وزیر خارجہ آئندہ ہفتے بھارت کے دورے پر جائیں گے
  • سفری پابندی ختم؛ طالبان وزیر خارجہ آئندہ ہفتے بھارت کے دورے پر جائیں گے
  • ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت
  • جرمن شہر بون میں افغان قونصل خانے کے عملے کا اجتماعی استعفا
  • وفاقی حکومت نے افغانستان سے مذاکرات کی تجویز پر اتفاق کرلیا، علی امین گنڈاپور
  • وفاقی حکومت نے افغانستان سے مذاکرات کی تجویز پر اتفاق کرلیا ہے، علی امین گنڈاپور
  • افغان وزیر خارجہ پر سفری پابندی میں عارضی نرمی، بھارت کا ممکنہ دورہ اہم پیشرفت قرار
  • بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟
  • پاک افغان چیمبر اوریونان چیمبرکے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
  • افغانستان میں انٹرنیٹ پر کوئی پابندی عاید نہیں‘ طالبان