فرانس: وزیراعظم سیبیسٹیئن لیکورنوتقرری کے صرف 26 دن بعد ہی مستعفی
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
فرانس کے وزیراعظم سیبیسٹیئن لیکورنو نے اپنی تقرری کے صرف 26 دن بعد ہی استعفیٰ دے دیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ اعلان اُس وقت سامنے آیا جب ایلیزے پیلس نے پیر کی صبح ان کی صدر ایمانوئل میکرون سے ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد ان کے استعفے کی تصدیق کی۔
خیال رہے کہ فرانس میں دو سال کے دوران یہ پانچویں وزیراعظم کا استعفیٰ سامنے آیا ہے جب کہ ایک سال میں مستعفی ہونے والے تیسرے وزیراعظم ہیں۔
لیکورنو نے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد کہا کہ وزیراعظم ہونا ایک مشکل کام ہے لیکن موجودہ حالات میں میرا آگے بڑھنا ناممکن تھا۔ سیاسی جماعتیں سمجھوتے پر تیار نہیں، سب اپنی انا کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انھوں نے مختلف سیاسی دھڑوں پر شدید تنقید کی اور کہا کہ سب ایسے برتاؤ کر رہے ہیں جیسے صرف ان کے پاس ہی اکثریت ہو۔
لیکورنو کی کابینہ کو اپوزیشن نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ اس میں زیادہ تر وزراء سابق وزیراعظم فرانسوا بیرو کی ٹیم سے ہی لیے گئے تھے۔
مختلف جماعتوں نے اس کابینہ کو مسترد کرنے اور عدم اعتماد کی تحریک چلانے کی دھمکی دی۔
فرانس میں گزشتہ دو برسوں میں یہ پانچواں وزیراعظم ہے جو حکومت سازی میں ناکام رہا۔
دائیں بازو کی نیشنل ریلی پارٹی (RN) کی رہنما مارین لی پین نے کہا کہ یہ مذاق اب ختم ہونا چاہیے۔ عوام تنگ آ چکے ہیں۔ واحد حل نئے انتخابات ہیں۔
ایک اور وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کو اب تین راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
وہ ایک نیا وزیراعظم مقرر کرسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کراسکتے ہیں یا خود ہی مستعفی ہوجائیں۔
لیکورنو کو ایمانوئل میکرون کا سب سے وفادار ساتھی اور آخری حل سمجھا جا رہا تھا۔ ان کی ناکامی کے بعد اب نئے انتخابات ہی زیادہ منطقی راستہ نظر آتے ہیں۔
تاہم اس سے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی جماعت کو شدید نقصان اور مارین لی پین کی جماعت کو بڑی کامیابی ملنے کا خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ فرانس میں جولائی 2024 کے بعد سے سیاسی عدم استحکام جاری ہے جب ایمانوئل میکرون نے اکثریت حاصل کرنے کی کوشش میں قبل از وقت انتخابات کروائے مگر نتیجہ ایک منقسم پارلیمان کی صورت میں نکلا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایمانوئل میکرون کے بعد
پڑھیں:
برداشت اور رواداری قیام پاکستان کی بنیاد ہے، وزیراعظم
اسلام آباد(نیوزڈیسک)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے معاشرے میں تحمل اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ نبی کریمﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے لیے بہت بڑا سرمایہ حیات ہے۔
وزیراعظم ہاؤس میں برداشت اور رواداری کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہاکہ برداشت اور رواداری کے حوالے سے تقریب کا انعقاد خوش آئند ہے، برداشت اور رواداری قیام پاکستان کی بنیاد ہے، قائد اعظم کی عظیم قیادت میں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں سے پاکستان معرض وجود میں آیا، تحریک آزادی میں عوام ،وکلاء ،ڈاکٹرز،انجینئرز، علماء اور اقلیتوں سمیت زندگی کے ہر طبقے کے لو گ شامل تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان سے تین دن پہلے 11 اگست کو قائد اعظم کی تقریر میں وہ فلسفہ بیان کر دیا گیا کہ ہم ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں بردباری، تحمل اور برداشت کو فروغ حاصل ہو گا، تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادت کی مکمل آزادی ہوگی اورہم آپس میں ہم آہنگی اوربرداشت کو فروغ دیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس حوالے سے نبی کریمﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے لیے بہت بڑا سرمایہ حیات ہے، طائف میں مخالفین نے پتھر برسائے لیکن جواب میں نبی کریم ﷺنے جو ارشاد فرمایا وہ قیامت تک محفوظ رہے گا، وہ ایک ایسا پیغام ہے جس سے تحمل اور برداشت کو فروغ ملتا ہے۔نبی پاک ﷺبرداشت اور رواداری کا مکمل پیکر تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات امن اور بھائی چارے پر مبنی ہیں، صلح حدیبیہ بھی اسی طرح کی ایک عظیم مثال ہے، جب مکہ فتح ہوا تو حضور اکرم ﷺکے بدترین مخالفین بھی کہہ رہے تھے، واقعی آپ اللہ کے سچے نبی ہیں،ہم سے غلطی ہوئی، تحمل برداشت، بھائی چارے اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا آپ کا پیغام اتنا مضبوط ہے کہ ہماری سوچ اور ہمارا سرداری نظام اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج دوبارہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں، تمام مذاہب اور حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات امن ،بھائی چارے اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا درس دیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحمل اور برداشت کی اقدار کو اگر ہم فروغ دیں تو پاکستان کا معاشرہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا، اللہ تعالیٰ پاکستان کو ایک عظیم ملک بنائے جس میں تمام مکاتب فکر اور تمام مذاہب کے لوگ امن اور چین کی زندگی بسر کریں، آئیے اج ہم اس کا عہد کریں اور عملی میدان میں عملی ثبوت دیں۔