Express News:
2025-11-27@22:23:23 GMT

بغیر نگرانی انٹرا پارٹی انتخابات

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی قوانین میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کی نگرانی کا اختیار مانگ لیا ہے اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 208 میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کی سفارش کا اب جو اختیار مانگا ہے۔

 اس میں بہت تاخیر کی گئی ہے، یہ اختیار تو اس وقت ملنا چاہیے تھا جب سیاسی پارٹیوں کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کا فیصلہ ہوا تھا۔ انتخابات میں شرکت کے لیے ہر سیاسی جماعت خود کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کراتی ہے، جس کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات کی شرط موجود ہے مگر انٹرا پارٹی انتخابات کرانے اور اس کی نگرانی کا اختیار سیاسی پارٹیوں ہی کے پاس ہے جو زیادہ تر بند کمروں میں بیٹھ کر عہدے بانٹ لیتی ہیں اور الیکشن کمیشن کو عہدیداروں کی فہرست بھیج کر انتخابی نشان حاصل کرنے کی حق دار بن جاتی ہیں۔

پاکستان میں جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے، جس میں اس کے اپنے طریقہ کار کے مطابق وقت مقررہ پر امیر جماعت کے لیے ملک بھر میں موجود جماعتی ذمے داروں سے رائے مانگی جاتی ہے اور ذمے داروں کو کچھ افراد کے نام دیے جاتے ہیں ان کے علاوہ بھی ووٹ دینے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی میں کوئی خود کو امیدوار کے طور پر پیش نہیں کرتا بلکہ کارکردگی کے باعث جماعت اپنے امیر کے امیدوار نامزد کرتی ہے اور جن لوگوں کو امیر کے انتخابات کے لیے ووٹ کا حق ہوتا ہے۔

 وہ اپنی مرضی سے اپنا ووٹ استعمال کرکے اپنا فیصلہ اوپر بھجوا دیتے ہیں اور جماعت اپنے طریقہ کار کے مطابق سب سے زیادہ ووٹ لینے والے کی کامیابی کا اعلان کرتی ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، سب فیصلہ تسلیم کرتے ہیں اور نیا امیر حلف اٹھا کر طریقہ کار کے مطابق باقی عہدیداروں کا فیصلہ کر کے اعلان کر دیتا ہے جس کی وجہ سے کبھی کسی امیر پر تنازعہ نہیں کھڑا ہوا۔

کسی حد تک جے یو آئی میں بھی بیرونی نگرانی کے بغیر ہی انتخابات ہوتے ہیں ، مولانا فضل الرحمن ہی کئی سالوں سے بلا مقابلہ سربراہ منتخب ہو رہے ہیں۔ راقم کو گزشتہ دنوں جے یو آئی ضلع وسطی کراچی کے انتخابات دیکھنے کا موقعہ ملا تھا جو دستگیر ایف بی ایریا کی ایک بڑی جامع مسجد میں بعد نماز عشا منعقد ہوئے جن میں بلاشبہ ہزاروں کارکن ووٹ دینے آئے تھے اور مسجد کے اندرونی چار بڑے دروازے بند کر کے مسجد کے جماعت والے ہال میں ایک دروازہ کھلا رکھا گیا تھا اور باہر مسجد کے بڑے صحن میں ووٹ کا حق رکھنے والے کارکنوں کو فہرست میں نام دے کر ووٹ کی پرچی دی جا رہی تھی اور پرچی دیکھنے کے بعد اسے مسجد کے جماعت والے ہال میں داخل ہونے دیا جا رہا تھا۔

ووٹوں کی پرچی کا عمل مکمل ہونے کے بعد داخلے کا گیٹ بند کر دیا گیا اور باہر موجود سیکڑوں کارکن شیشے لگے پانچ بڑے دروازوں سے اندر ہونے والی ووٹنگ دیکھ رہے تھے اور الیکشن کرانے والے شفاف ووٹنگ کی نگرانی کر رہے تھے جنھوں نے ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد کامیاب امیدواروں کا اعلان کیا۔

ہر بڑی جماعت میں جنرل کونسل یا مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس دکھاوے کے لیے ہوتا ہے اور طے شدہ پروگرام کے تحت پارٹی سربراہ حسب سابق بلامقابلہ منتخب ہوتا آیا ہے اور سربراہ کی مرضی کے باقی عہدیدار بھی زیادہ تر بلامقابلہ منتخب کر لیے جاتے ہیں یا ضرورت کے مطابق تبدیلی کر کے انٹرا پارٹی الیکشن کا اعلان کر کے الیکشن کمیشن کو تحریری اطلاع دے دی جاتی ہے مگر انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کو نگرانی کا اختیار نہیں ہوتا وہ انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم کر لیتا ہے۔

پی ٹی آئی نے پہلی بار جمہوری طور پر انٹرا پارٹی الیکشن اپنے غیر جانبدار رہنما جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں کرائے تھے جس میں انھوں نے بعض پارٹی رہنماؤں کو حقائق کی بنیاد پر نااہل قرار دیا تھا مگر جسٹس وجیہہ الدین کا فیصلہ خود بانی پی ٹی آئی نے تسلیم نہیں کیا تھا کیونکہ نااہل رہنما بانی کے پسندیدہ تھے اور پارٹی کے بڑے ڈونر تھے جنھیں بانی ہر حال میں عہدوں پر رکھنا چاہتے تھے، اس لیے جسٹس وجیہہ الدین دل ہار کر پارٹی چھوڑ گئے اور بانی کے پسندیدہ بلامقابلہ عہدیدار بنا دیے گئے تھے اور اس پہلے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی میں دوبارہ جمہوری الیکشن کرانے سے توبہ کر لی گئی تھی۔

2024کے انتخابات سے قبل بانی چیئرمین جیل میں تھے اور الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ دینے کا اعلان کیا تھا، جس پر مجبوری میں پشاور کے کسی نواحی علاقے میں نام نہاد عہدیدار منتخب کر لیے گئے جنھیں پارٹی میں کوئی جانتا نہ تھا مگر بانی چیئرمین کی مرضی کے مطابق نئے نام نہاد عہدیدار بلامقابلہ منتخب قرار دیے گئے، جس پر پارٹی کے اکبر ایس بابر جیسے بانی ارکان نے اعتراض کیا جس پر الیکشن کمیشن نے بھی پی ٹی آئی کے متنازعہ انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم نہیں کیے اور انتخابی نشان نہیں دیا جس کی توثیق سپریم کورٹ نے بھی کی جو قانونی فیصلہ تھا مگر پی ٹی آئی نے تسلیم نہیں کیا اور نہ دوبارہ انتخابات کرائے مگر ان کی سیاست پھر بھی چل رہی ہے کہ ہمارے عہدیداروں کو الیکشن کمیشن کیوں تسلیم نہیں کر رہا۔

ہر پارٹی میں ایسے ہی نام نہاد الیکشن ہوتے ہیں اور اسی لیے اپنی نگرانی میں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن اختیار مانگ رہا ہے تاکہ اس کی نگرانی میں الیکشن ہوں جو متنازعہ نہیں منصفانہ ہو سکیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انٹرا پارٹی انتخابات انٹرا پارٹی الیکشن الیکشن کمیشن سیاسی جماعت اور الیکشن تسلیم نہیں کی نگرانی پی ٹی آئی کے مطابق کا اعلان مسجد کے ہیں اور تھے اور کے لیے کے بعد ہے اور

پڑھیں:

ضمنی انتخابات: قومی و صوبائی اسمبلی کے کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن جاری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ضمنی انتخابات کے سلسلے میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے متعدد حلقوں سے کامیاب ہونے والے امیدواروں کے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیے ہیں۔

نوٹی فکیشن کے ذریعے قومی اسمبلی کے 5 جب کہ پنجاب اسمبلی کے 7 حلقوں کے نتائج کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس موقع پر الیکشن کمیشن نے یہ بھی واضح کیا کہ تمام نوٹیفکیشنز سرکاری طور پر گزیٹ آف پاکستان میں شائع کرنے کی ہدایت جاری کی جا چکی ہے، تاکہ ان کی قانونی حیثیت مکمل طور پر قائم ہو سکے۔

قومی اسمبلی کے حلقوں میں این اے 18 ہری پور سے بابر نواز خان، این اے 104 فیصل آباد سے دانیال احمد، این اے 129 لاہور سے محمد نعمان، این اے 143 ساہیوال سے محمد طفیل اور این اے 185 ڈیرہ غازی خان سے محمود قادر خان کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔

فیصل آباد کے حلقہ این اے 96 کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا کیس ہے جس میں طلال چوہدری کے بھائی بلال چوہدری کا معاملہ زیرِ التوا ہے۔ الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اس کیس کا فیصلہ ہونے تک این اے 96 کا نوٹیفکیشن روکا جائے گا۔

پنجاب اسمبلی کی نشستوں میں پی پی 73 سرگودھا سے میاں سلطان علی رانجھا، پی پی 87 میانوالی سے علی حیدر نور خان نیازی، پی پی 98 فیصل آباد سے اعزاز علی تبسم، پی پی 115 فیصل آباد سے محمد طاہر پرویز، پی پی 116 فیصل آباد سے احمد شہریار، پی پی 203 ساہیوال سے محمد حنیف اور پی پی 269 مظفرگڑھ سے میاں علمدار عباس قریشی کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہونے والے ان انتخابات کو الیکشن کمیشن نے مجموعی طور پر شفاف قرار دیا ہے اور نتائج کی تصدیق کے بعد امیدواروں کی کامیابی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی مراحل کی تکمیل اور باضابطہ نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد ان امیدواروں کی اسمبلیوں میں شمولیت کا عمل جلد مکمل ہوگا۔ انتخابی عمل کے دوران ضابطہ اخلاق کی پابندی کے حوالے سے کمیشن نے دوبارہ یہ اعادہ کیا کہ جہاں خلاف ورزی ثابت ہوگی وہاں کارروائی لازمی ہوگی اور این اے 96 کا التواء اسی پالیسی کا حصہ ہے۔

کمیشن نے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ انتخابی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے تاکہ انتخابی عمل کو مزید شفاف اور قابلِ اعتماد بنایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • نون لیگ وفاقی وزراء کو بلا کر الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے، سعدیہ دانش
  • الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات میں کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن جاری کر دیئے
  • پاکستان ہاکی فیڈریشن کے خود ساختہ الیکشن کا دعویٰ مسترد، پی ایس بی خود انتخابات کرائے گا
  • ضمنی انتخابات میں کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن جاری
  • ضمنی انتخابات: قومی و صوبائی اسمبلی کے کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن جاری
  • ضمنی انتخابات میں کامیاب امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری
  • ضمنی انتخابات: کس حلقے میں کتنا ووٹر ٹرن آؤٹ رہا؟ الیکشن کمیشن نے بتا دیا
  • گلگت بلتستان میں آئندہ حکومت کون سی جماعت بنائے گی؟
  • وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ پر پارٹی میں مشاورت کریں گے، سلمان اکرم راجا
  • ضمنی انتخابات ،نون لیگ کاکلین سویپ ،قومی اسمبلی میں نمبر تبدیل