Express News:
2025-10-13@15:55:20 GMT

بغیر نگرانی انٹرا پارٹی انتخابات

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی قوانین میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کی نگرانی کا اختیار مانگ لیا ہے اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 208 میں ترمیم کی سفارش کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کی سفارش کا اب جو اختیار مانگا ہے۔

 اس میں بہت تاخیر کی گئی ہے، یہ اختیار تو اس وقت ملنا چاہیے تھا جب سیاسی پارٹیوں کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کا فیصلہ ہوا تھا۔ انتخابات میں شرکت کے لیے ہر سیاسی جماعت خود کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کراتی ہے، جس کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات کی شرط موجود ہے مگر انٹرا پارٹی انتخابات کرانے اور اس کی نگرانی کا اختیار سیاسی پارٹیوں ہی کے پاس ہے جو زیادہ تر بند کمروں میں بیٹھ کر عہدے بانٹ لیتی ہیں اور الیکشن کمیشن کو عہدیداروں کی فہرست بھیج کر انتخابی نشان حاصل کرنے کی حق دار بن جاتی ہیں۔

پاکستان میں جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے، جس میں اس کے اپنے طریقہ کار کے مطابق وقت مقررہ پر امیر جماعت کے لیے ملک بھر میں موجود جماعتی ذمے داروں سے رائے مانگی جاتی ہے اور ذمے داروں کو کچھ افراد کے نام دیے جاتے ہیں ان کے علاوہ بھی ووٹ دینے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی میں کوئی خود کو امیدوار کے طور پر پیش نہیں کرتا بلکہ کارکردگی کے باعث جماعت اپنے امیر کے امیدوار نامزد کرتی ہے اور جن لوگوں کو امیر کے انتخابات کے لیے ووٹ کا حق ہوتا ہے۔

 وہ اپنی مرضی سے اپنا ووٹ استعمال کرکے اپنا فیصلہ اوپر بھجوا دیتے ہیں اور جماعت اپنے طریقہ کار کے مطابق سب سے زیادہ ووٹ لینے والے کی کامیابی کا اعلان کرتی ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، سب فیصلہ تسلیم کرتے ہیں اور نیا امیر حلف اٹھا کر طریقہ کار کے مطابق باقی عہدیداروں کا فیصلہ کر کے اعلان کر دیتا ہے جس کی وجہ سے کبھی کسی امیر پر تنازعہ نہیں کھڑا ہوا۔

کسی حد تک جے یو آئی میں بھی بیرونی نگرانی کے بغیر ہی انتخابات ہوتے ہیں ، مولانا فضل الرحمن ہی کئی سالوں سے بلا مقابلہ سربراہ منتخب ہو رہے ہیں۔ راقم کو گزشتہ دنوں جے یو آئی ضلع وسطی کراچی کے انتخابات دیکھنے کا موقعہ ملا تھا جو دستگیر ایف بی ایریا کی ایک بڑی جامع مسجد میں بعد نماز عشا منعقد ہوئے جن میں بلاشبہ ہزاروں کارکن ووٹ دینے آئے تھے اور مسجد کے اندرونی چار بڑے دروازے بند کر کے مسجد کے جماعت والے ہال میں ایک دروازہ کھلا رکھا گیا تھا اور باہر مسجد کے بڑے صحن میں ووٹ کا حق رکھنے والے کارکنوں کو فہرست میں نام دے کر ووٹ کی پرچی دی جا رہی تھی اور پرچی دیکھنے کے بعد اسے مسجد کے جماعت والے ہال میں داخل ہونے دیا جا رہا تھا۔

ووٹوں کی پرچی کا عمل مکمل ہونے کے بعد داخلے کا گیٹ بند کر دیا گیا اور باہر موجود سیکڑوں کارکن شیشے لگے پانچ بڑے دروازوں سے اندر ہونے والی ووٹنگ دیکھ رہے تھے اور الیکشن کرانے والے شفاف ووٹنگ کی نگرانی کر رہے تھے جنھوں نے ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد کامیاب امیدواروں کا اعلان کیا۔

ہر بڑی جماعت میں جنرل کونسل یا مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس دکھاوے کے لیے ہوتا ہے اور طے شدہ پروگرام کے تحت پارٹی سربراہ حسب سابق بلامقابلہ منتخب ہوتا آیا ہے اور سربراہ کی مرضی کے باقی عہدیدار بھی زیادہ تر بلامقابلہ منتخب کر لیے جاتے ہیں یا ضرورت کے مطابق تبدیلی کر کے انٹرا پارٹی الیکشن کا اعلان کر کے الیکشن کمیشن کو تحریری اطلاع دے دی جاتی ہے مگر انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کو نگرانی کا اختیار نہیں ہوتا وہ انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم کر لیتا ہے۔

پی ٹی آئی نے پہلی بار جمہوری طور پر انٹرا پارٹی الیکشن اپنے غیر جانبدار رہنما جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں کرائے تھے جس میں انھوں نے بعض پارٹی رہنماؤں کو حقائق کی بنیاد پر نااہل قرار دیا تھا مگر جسٹس وجیہہ الدین کا فیصلہ خود بانی پی ٹی آئی نے تسلیم نہیں کیا تھا کیونکہ نااہل رہنما بانی کے پسندیدہ تھے اور پارٹی کے بڑے ڈونر تھے جنھیں بانی ہر حال میں عہدوں پر رکھنا چاہتے تھے، اس لیے جسٹس وجیہہ الدین دل ہار کر پارٹی چھوڑ گئے اور بانی کے پسندیدہ بلامقابلہ عہدیدار بنا دیے گئے تھے اور اس پہلے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی میں دوبارہ جمہوری الیکشن کرانے سے توبہ کر لی گئی تھی۔

2024کے انتخابات سے قبل بانی چیئرمین جیل میں تھے اور الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ دینے کا اعلان کیا تھا، جس پر مجبوری میں پشاور کے کسی نواحی علاقے میں نام نہاد عہدیدار منتخب کر لیے گئے جنھیں پارٹی میں کوئی جانتا نہ تھا مگر بانی چیئرمین کی مرضی کے مطابق نئے نام نہاد عہدیدار بلامقابلہ منتخب قرار دیے گئے، جس پر پارٹی کے اکبر ایس بابر جیسے بانی ارکان نے اعتراض کیا جس پر الیکشن کمیشن نے بھی پی ٹی آئی کے متنازعہ انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم نہیں کیے اور انتخابی نشان نہیں دیا جس کی توثیق سپریم کورٹ نے بھی کی جو قانونی فیصلہ تھا مگر پی ٹی آئی نے تسلیم نہیں کیا اور نہ دوبارہ انتخابات کرائے مگر ان کی سیاست پھر بھی چل رہی ہے کہ ہمارے عہدیداروں کو الیکشن کمیشن کیوں تسلیم نہیں کر رہا۔

ہر پارٹی میں ایسے ہی نام نہاد الیکشن ہوتے ہیں اور اسی لیے اپنی نگرانی میں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن اختیار مانگ رہا ہے تاکہ اس کی نگرانی میں الیکشن ہوں جو متنازعہ نہیں منصفانہ ہو سکیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انٹرا پارٹی انتخابات انٹرا پارٹی الیکشن الیکشن کمیشن سیاسی جماعت اور الیکشن تسلیم نہیں کی نگرانی پی ٹی آئی کے مطابق کا اعلان مسجد کے ہیں اور تھے اور کے لیے کے بعد ہے اور

پڑھیں:

علی امین گنڈاپور کے استعفے پر گورنر کی رائے کے بغیر نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب، غیرقانونی قرار

خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کا مؤقف ہے کہ وزیراعلیٰ اور کابینہ کے ڈی نوٹیفائی ہونے تک دوسرے وزیراعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوسکتا جبکہ ایڈووکیٹ جنرل کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب آئینی طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے مستعفی وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے پر گورنر ہاؤس کی رائے آئے بغیر نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر اپوزیشن نے سوالات اٹھاتے ہوئے اس انتخاب کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کا مؤقف ہے کہ وزیراعلیٰ اور کابینہ کے ڈی نوٹیفائی ہونے تک دوسرے وزیراعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوسکتا جبکہ ایڈووکیٹ جنرل کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب آئینی طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اسپیکر کے پی اسمبلی نے بھی نئے وزیراعلیٰ کے انتخابی طریقہ کار کو آئین کے مطابق قرار دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے مستعفی ہو جانے کے بعد نئے وزیراعلی کا انتخاب پیر کو ہوگا لیکن اس انتخابی عمل پراپوزیشن کی جانب سے سوالات اٹھا لیے گئے ہیں۔

علی امین گنڈاپور کی جانب سے دوسرا استعفی ہفتے کو گورنرخیبرپختنخواہ فیصل کریم کنڈی کو بھجوا دیا گیا جس پر گورنر نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ استعفیٰ موصول ہو چکا ہے لیکن ان کی قانونی ٹیم پیر کو اس کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی۔ دوسری جانب سیاسی اور قانونی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ کے استعفے کے حوالے سے اعلامیہ جاری ہوئے بغیر دوسرے وزیر اعلیٰ کا کیسے انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے کہا کہ حیران کن بات ہے ایک صوبے کے دو وزیراعلیٰ کیسے بن رہے ہیں، ایک کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا اور کابینہ بھی تحلیل نہیں ہوئی، کیسے سیاسی نابالغوں کے ساتھ ہمارا واسطہ پڑا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا لطف الرحمان نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کا طریقہ کار غیر قانونی ہے، ایک وزیراعلیٰ موجود ہے تو دوسرے وزیراعلیٰ کا کیسے انتخاب کیا جاسکتا ہے، صوبائی کابینہ بھی تحلیل نہیں ہوئی تو کیسے نئے وزیراعلی کا انتخاب ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی اقدام کے خلاف ہر کوئی عدالت جاسکتا ہے، پی ٹی آئی کے دوستوں کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس پر انہیں پچھتانا پڑے۔ اسپیکر بابر سلیم سواتی نے وزیراعلیٰ کے چناؤ کے عمل کو آئینی قرار دیا اور کہا کہ وزیراعلی استعفیٰ دے چکے ہیں اور اس حوالے سے آئین بڑا واضح ہے، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور مستعفی ہوچکے ہیں لہٰذا نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوگا۔ ایڈوکیٹ جنرل شاہ فیصل نے بھی وزیراعلیٰ کے انتخاب کو آئینی قرار دے دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سی ڈی اے کی جانب سے بغیر ادائیگی لوگوں سے زمین لینے کا انکشاف
  • بی جے پی دھاندلی کے بغیر ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکتی، عمر عبداللہ
  • الیکشن کمیشن نے پنجاب میں یونین کونسلز کی سطح پر حلقہ بندیوں کے جاری شیڈول کے تحت ابتدائی حلقہ بندیوں کی تیاری کا آغاز کردیا
  • الیکشن کمیشن نے پی پی 73 سرگودہا کا الیکشن شیڈول بحال کردیا گیا
  • الیکشن کمیشن، پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 73 سرگودھا تھری میں ضمنی انتخاب کے لئے شیڈول کا اعلان
  • آزاد کشمیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات مکمل
  • عوامی تحریک کے انٹرا پارٹی انتخابات کے انتظامات مکمل
  • پی ٹی آئی وفد کی گورنر خیبر پختونخوا سے ملاقات، وزیرِ اعلیٰ کے انتخابات میں تعاون مانگ لیا
  • علی امین گنڈاپور کے استعفے پر گورنر کی رائے کے بغیر نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب، غیرقانونی قرار