زیبرا میں سفید اور کالی دھاریاں کیسے اور کیوں بنتی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT
زیبرا کی سفید اور کالی دھاریاں حیاتیات کے لحاظ سے ایک دلچسپ ارتقائی پہیلی رہی ہیں۔
آج کی سائنسی تحقیق کے مطابق، یہ دھاریاں چند ارتقائی عوامل کے امتزاج سے پیدا ہوئیں جن میں سب سے مضبوط شواہد جلدی خلیات کی نشوونما، درجہ حرارت کے نظم، مچھروں اور کیڑوں سے تحفظ اور سماجی شناخت سے متعلق ہیں۔
1. دھاریوں کی حیاتیاتی بناوٹ
زیبرا کا بنیادی رنگ دراصل سیاہ ہوتا ہے، اور سفید دھاریاں وہ حصے ہیں جہاں میلانِن یعنی رنگ دینے والے خلیات میں پیدا نہیں ہوتا۔
جنین (embryo) کے دوران زیبرا کی جلد کے خلیات میں میلانن پیدا کرنے والے خلیے مخصوص انداز میں فعال یا غیر فعال ہوتے ہیں۔ جہاں یہ خلیے متحرک رہتے ہیں، وہاں کالی دھاری بنتی ہے۔ جہاں وہ غیر فعال ہو جاتے ہیں، وہاں سفید دھاری بنتی ہے۔
یہ سب کچھ جینز اور جلد کے خلیات کے تعامل کے تحت طے ہوتا ہے، خاص طور پر ایک مخصوص قدرتی میکانزم سے (جو شیر کی دھاریوں یا چیتے کے دھبوں کی طرح ہے)۔
2.
ارتقائی وجوہات
سائنسدانوں نے کئی نظریات دیے ہیں جن میں سے پانچ نمایاں ہیں:
a) کیڑے اور مچھر بھگانے کے لیے
تحقیق سے پتہ چلا کہ ٹسی فلائی (tsetse fly) اور دیگر خون چوسنے والے مچھر کالی-سفید دھاریوں والے جسم پر آسانی سے نہیں بیٹھ پاتے۔ ان دھاریوں سے روشنی کے پولرائزیشن میں تبدیلی آتی ہے، جس سے مچھر بھٹک جاتے ہیں۔ یہ نظریہ سب سے زیادہ قبول شدہ سمجھا جاتا ہے۔
b) درجہ حرارت کنٹرول کرنے کے لیے
سیاہ رنگ زیادہ حرارت جذب کرتا ہے جبکہ سفید رنگ کم۔ زیبرا کے جسم پر حرارت کی یہ باریک تبدیلیاں ہلکی ہوا پیدا کرتی ہیں جو جسم کو ٹھنڈا رکھتی ہیں۔ خاص طور پر گرم افریقی علاقوں میں یہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔
c) شکاریوں کو الجھانے کے لیے
جب زیبرا کا جھنڈ حرکت میں ہوتا ہے تو اس کی دھاریاں شکاریوں (شیر وغیرہ) کو فاصلے اور سمت کا اندازہ لگانے میں مشکل دیتی ہیں — یہ motion dazzle کہلاتا ہے۔
d) سماجی شناخت
ہر زیبرا کے دھاریوں کا پیٹرن منفرد ہوتا ہے، جیسے انسان کے فنگر پرنٹس۔ ان دھاریوں کے ذریعے زیبرا ایک دوسرے کو پہچان سکتے ہیں، ماں اور بچہ، یا جھنڈ کے ارکان۔
e) طُفیلیوں اور انفیکشن سے تحفظ
بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ دھاریاں جلد پر انفیکشن یا کیڑے کے انڈوں کے چپکنے سے بھی بچاؤ دیتی ہیں۔
3. موجودہ سائنسی نتیجہ
مختلف تجرباتی شواہد کے مطابق زیبرا کی دھاریاں کئی وجوہات کے امتزاج سے بنی ہیں، لیکن سب سے مضبوط ثبوت "کیڑوں سے بچاؤ" کے حق میں ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتا ہے
پڑھیں:
’’ ٹوہ مت لگاؤ‘‘
کبھی کبھار جب اتنا وقت اور فراغت ملتی ہے کہ کچھ تفریح کر لی جائے تواس وقت میں ٹیلی وژن پر کوئی ڈرامہ دیکھنا شروع کر دیتی ہوں۔ ڈرامہ لگا ہوتا ہے اور میں چلتے پھرتے اسے عموما سنتی اور کبھی کبھار دیکھ بھی لیتی ہوں۔
یہ ڈرامے صرف وہ ہوتے ہیں جو مکمل ہو چکے ہوتے ہیں، میں یہ ڈرامے یو ٹیوب پر دیکھتی ہوں تا کہ انتظار نہ کر نا پڑے۔ میں ڈرامہ ہمیشہ اپنی کسی دوست یا کزن کی تجویز پر دیکھتی ہوں ، جنھوں نے وہ ڈرامہ پہلے دیکھ رکھا ہو اور وہ کہیں کہ ڈرامہ بہت اچھا ہے۔
اکثر ڈراموں میں ایسے سین ایسے ہوتے ہیں جن میں عورتیں دوسری عورتوں کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بن رہی ہوتی ہیں، مرد سوچتے ہیں کہ کسی کو مالی نقصان کس طرح پہنچایا جائے، گھر کا قبضہ کس طرح چھڑوایا جائے، وغیرہ وغیرہ ۔
ایک ڈرامے میں دیکھایا گیا ، بہت بڑا ایک گھر ہے جس میں دو ایسے خاندان رہتے ہیں جو ایک دوسرے کے جی جان سے اور سچے دشمن ہیں ،ڈرامہ کوئی بھی ہو… دس بارہ قسطوں کے بعد اس میں یکسانیت آجاتی ہے ۔ ڈراموں میں بھی بہت سی کمزوریاں ہوتی ہیں لیکن میں ڈراموں کے غیراخلاقی پہلو پر بات کرنا چاہتی ہوں۔
قارئین یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں ایسے ڈرامے نہ دیکھا کروں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میرے نہ دیکھنے سے کیا فرق پڑے گا۔ درجنوں چینلز کے سیکڑوں ڈرامے باقاعدگی سے دیکھے جاتے ہیں۔
لکھاری حضرات غیر اخلاقی پن کو یہ کہہ کر جسٹی فائی کرتے ہیں کہ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ دکھانا ضروری ہے، جو برائیاں ہیں، ان کا دکھایا جانا لازم ہے، اس سے لوگ سیکھتے اور محتاط ہوجاتے ہیں۔
اکثر ڈراموں میں ہر کردار، ہر وقت دوسروں کی ٹوہ لگانے کی کوشش میں رہتا ہے ۔ ہماری فطرت ہے کہ جب کوئی دو لوگ ہمارے قریب بیٹھ کر آپس میں کوئی بات کررہے ہوں تو ہم ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں اور ان کی پوری بات سنتے اور اس کے بعد وہیں بس نہیں، ہم دس جگہ اسے نشر بھی کرتے ہیں۔
حالانکہ یہ بہت بڑا گنا ہ ہے، ہماری اس بات سے کوئی غرض نہیں، ہمارے لیے اسے کسی اور کو بتانا بھی ضروری نہیں مگر ہماری فطرت ہے کہ ہم ایسا کرتے ہیں۔
اخلاقیات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی بات آپ کے ساتھ نہیںکی جا رہی ہے اور اس سے آپ کاکوئی تعلق بھی بلا واسطہ یا بالواسطہ نہیں ہے، ہو بھی تو بھی نہیں… آپ اس بات پر اپنی توجہ مرکوز نہ کریں ۔
اگر واقعی وہ بات آپ کے کان میں پڑ گئی یا کسی نے آپ کو بتائی یہ سوچ کر کہ وہ ایک دلچسپ بات بلکہ gossip ہے تو آپ کو وہ بات وہیں روک دینی چاہیے۔ نیکی کا عمل کرنا یا برائی کو ہونے سے روکنا بھی نیکی ہے۔
کسی کی عمر کتنی ہے، شادی کیوں نہیں ہوئی، بچے کتنے ہیں، نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں، ہیں تو کم یا زیادہ کیوں ہیں، فلاں کچھ چھپا رہا ہے، فلاں اندر ہی اندر اپنے بچوں کے رشتے طے کررہا ہے، کون کہاں ملازمت کر رہا ہے، کسی کے گھر جو مہمان آئے ہیں وہ کون ہیں۔
گاڑی کہاں سے لی، پیسے کہاں سے آئے، بڑی گاڑی کیوں لی یا چھوٹی کیوں، گھر کہاں بنا رہے ہیں، کسی کی بیٹی کہاں ملازمت کرتی ہے، اسے کون ڈراپ کر کے گیا، فلاں کی منگنی کیوں ٹوٹی، طلاق کیوں ہوئی… ایسی ہی ہزاروں نہیں ، لاکھوں باتیں ہیں جن کی ہمیں دوسروں کے بارے میں فکر رہتی ہے ۔ سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کریں تا کہ ایک مثبت معاشرہ پروا چڑھے اور ہم اپنی اگلی نسلوں کو بہتراخلاقیات کا تحفہ دے کر جائیں۔