Express News:
2025-11-27@23:08:37 GMT

مشرقی پاکستان کی ان کہی داستان

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

وہ ہی لوگ تاریخ رقم کرتے ہیں جو داستانوں اورکہانیوں کا اہم کردار ہوتے ہیں، وہ حالات و واقعات کے چشم دید گواہ ہونے کے ساتھ اہم شخصیات اور ان کے ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں۔ صبح و شام ان کے دل و دماغ پر فلم چل رہی ہوتی ہے، جو ماضی کی یادوں کو ستاروں اور چنگاریوں کی طرح روشن کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔

قلمکار کا قلم اس ہی وقت جنبش میں آتا ہے جب وہ گزرے ہوئے تلخ حالات و واقعات کو قرطاس کی زینت بنا کر گویا دل و دماغ سے ایک بوجھ اتار دیتا ہے۔

میری خوش بختی ہے ایک کتاب قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کی طرف سے تحفۂ درویش کی صورت میں موصول ہوئی ہے، یہ کتاب تاریخ کی ہے اور وہ بھی مشرقی پاکستان کی تاریخ، اپنے وطن سے اور بچھڑے ہوئے خطے سے نہ کہ پیار ہوتا ہے بلکہ جدائی کا دکھ تڑپا کر رکھ دیتا ہے، یہ وہی ملک ہے جس کے لیے قائد اعظم ان کے ہم عصروں اور ہمارے پرکھوں نے عظیم قربانیاں دی تھیں، ناعاقبت اندیشوں نے اس کی قدر نہیں کی۔

مشرقی پاکستان کی ان کہی داستان ’’ پندرہ گورنر، پندرہ کہانیاں‘‘ کے مصنف میجر (ریٹائرڈ) ایس جی جیلانی ہیں۔ علامہ عبدالستار عاصم اس کتاب سے قبل بھی کئی کتابیں احقرکے مطالعے کے لیے ترسیل کر چکے ہیں جو ہماری معلومات میں اضافے کا سبب بنیں۔

مذکورہ کتاب جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ مشرقی پاکستان کے پندرہ گورنروں کی کارکردگی کا کچا چٹھا کھولتی ہے جہاں بشری کمزوریوں، خامیوں اور ذاتی مفاد پرستی کی جنگ کو طشت ازبام نہایت ایمان داری کے ساتھ کیا گیا ہے، وہاں ان شخصیات کی خوبیوں پر بھی مصنف کی گہری نگاہ ہے جو اپنے وطن سے مخلص تھے۔

’’ پیش لفظ‘‘ محمد عظیم خان لیفٹیننٹ جنرل (ر) نے خلوص و سچائی کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ دیباچہ نگار نے ڈھاکہ کے گورنر ہاؤس کے شب و روز جوکہ ساڑھے اٹھارہ سال پر محیط ہیں، ان ماہ و سال کا مصنف کے حوالے سے تجربات کی روشنی میں مشرقی پاکستان اور وہاں کے مکینوں کے طرز زندگی اور رہن سہن کے بارے میں لفظوں کے ذریعے تصویرکشی کی ہے۔ سیاسی ابتری اور معاشی و معاشرتی یادوں کا نوحہ بھی کتاب میں درج ہے۔

مصنف نے تمہید کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے، اپنی تحریر کے ذریعے لوگوں کے منافقانہ رویوں اور راست باز حضرات کی توصیف کرنے میں کسر نہیں چھوڑی ہے۔ انھوں نے اپنے قارئین کو بتایا ہے کہ وہ گورنر کے اے ڈی سی کے عہدے تک کس طرح پہنچے۔

میجر (ر) ایس جی جیلانی کو سرحد کے گورنر خواجہ شہاب الدین اور چیف سیکریٹری معیزالدین نے اچھے تعلقات کی بنا پر اہم عہدوں کی پیشکش کی تھی۔ ان میں سے ایک مشرقی پاکستان کے گورنر کا اے ڈی سی بننے کی بھی آفر تھی، چنانچہ انھوں نے گورنر ہاؤس جانے کا فیصلہ کرلیا۔

میجر صاحب نے اپنی پہلی کہانی چوہدری خلیق الزماں سے شروع کی ہے۔ چوہدری خلیق الزماں کی قائدانہ صلاحیتوں اور حکمت عملی کے ساتھ ساتھ دلچسپ اور اہم واقعات کا ذکر نہایت شائستگی اور شگفتگی کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔

مصنف کی تحریروں میں جا بجا مزاح کی قوس و قزح اور طنز کی آمیزش سلیقے کے ساتھ نظر آتی ہے واقعات کو ضابطہ تحریر میں لاتے ہوئے ان کی بذلہ سنجی کے نت نئے رنگ نمایاں ہو جاتے ہیں، وہ سچ بات کہتے ہوئے کہیں نہیں چوکتے ہیں۔

ان کے مضمون سے چیدہ چیدہ باتیں، ان کا تعلق لکھنو سے تھا، وہ مسلم لیگی رہنما تھے، جب وہ مشرقی بنگال کے گورنر بنے۔ اس دن کی تاریخ اور سن تاریخ کے اوراق پر مہر کی طرح ثبت ہو گیا ہے 3 اپریل 1953 ان کی زندگی کا اہم دن تھا، گورنر بننے کے بعد روایات کے خلاف اور اپنی تفریح طبع کے تحت وہ کام کیے جو ان کی آمد سے قبل ان کا کرنا تو دور کی بات ہے سوچنا بھی ممکن نہیں تھا۔

مثال کے طور پر باضابطہ لباس سے نجات حاصل کرنے کے لیے مصنف کو بھی آمادہ کیا اطراف میں خدمت انجام دینے والے حیران و پریشان تھے۔ مصنف نے گورنروں کی کہانیاں لکھتے وقت ان کے نام کے ساتھ ان کے کرداروں کی خوبیوں اور خامیوں کو بھی عنوان کے ساتھ درج کر دیا ہے۔

جیسے میجر جنرل سکندر مرزا متکبر اور سخت مزاج، جسٹس امیرالدین (پانچویں کہانی) گورنمنٹ ہاؤس کا گلیمر، (دسویں کہانی) غلام فاروق ’’سخت کوش مگر سیاسی داؤ پیچ سے آشنا (پندرہویں کہانی) لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان ’’شورش اضطراب کا زمانہ۔‘‘

میجر جنرل سکندر مرزا نے 30 مئی 1954 کو مشرقی پاکستان کے گورنر کا حلف اٹھایا، یہ دوسرے گورنر کے طور پر سامنے آئے۔ گورنر صاحب نے اپنے فرائض منصبی کے دوران اپنی فراست اور موقع پرستی کے باعث بہت سے مسائل اور آنے والے مشکل حالات پر قابو پالیا اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئے۔

مصنف نے گورنر صاحب کے اپنے اس مقولے کو بھی اپنی کہانی کا حصہ بنایا ہے، ٹیبل ٹاک کے دوران انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’’جب شورش بپا کرنے والی سیاست سے پالا پڑے، وہاں نرمی سے کام نہیں لینا چاہیے وہاں بے حسی اور بے رحمی کارگر ثابت ہوتی ہے تو ان کے نزدیک گولی مار دینے کی دھمکی، گولی مارنے سے زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔‘‘

سرخ پوشوں کا جلسہ اور مرزا کی چال نے سرخ پوش منتظمین اور مقررین کو دست آور کھانا کھلا دیا۔ اس طرح جلسے کی کامیابی ناکامی میں بدل گئی، اسی طرح آڈیٹروں کی جماعت جوکہ حساب کتاب کرنے آئی تھی ان کی چھٹی بھی اس طرح کروا دی کہ انھیں بھاگتے بنی چونکہ ریسٹ ہاؤس کی چھت اور روشن دانوں پر رات بھر گولیاں برستی رہیں، اس طرح سانپ بھی مارا گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ ان کی فہم و فراست اور دور اندیشی کا ذکر بھی ان کے کردار کے حوالے سے ملتا ہے۔

جسٹس محمد شہاب الدین مشرقی پاکستان کے چوتھے گورنر بنے۔ یہ کہانی دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات کا احاطہ کرتی ہے اور محمد شہاب الدین اور ان کی اہلیہ کی مہمان نوازی اور آپس میں ایک دوسرے سے بے مثال محبت کی داستان کو مصنف نے نہ کہ اجاگرکیا ہے بلکہ اپنی پیش گوئی اور منہ سے نکلنے والی بدفال کو بھی سچائی کے ساتھ تحریر کے سپرد کر دیا ہے۔

میجر صاحب ان کی خصوصاً جسٹس صاحب کی محبت کو دیکھ کر اکثر سوچا کرتے تھے کہ اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کو اگر خدانخواستہ موت آجائے تو دوسرا زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکے گا۔ میجر صاحب کی پیش گوئی حقیقت میں بہت جلد بدل گئی۔ جسٹس شہاب الدین 13 اپریل 1971 کو لاہور میں اپنی رہائش گاہ ایلمن روڈ پر انتقال کر گئے اور چند گھنٹے بعد ان کی اہلیہ بھی سوئے عدم روانہ ہوئیں۔ یہ تھی محبت کی انتہا۔

بارہویں کہانی مرزا نورالہدیٰ ’’ تین دن کا گورنر‘‘ چودھویں اور پندرہویں کہانیاں، یہ کہانیاں زوال کی طرف بڑھتے بڑھتے بہت سے چہروں کو بے نقاب کرگئیں، گھٹیا سیاست اور خود غرضی نے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ اس کتاب کی آخری سطور جسے لکھتے ہوئے مصنف کی آنکھیں ضرور نم ہوئی ہوں گی۔

’’ اور پھر ہرکوئی جانتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا، مغربی پاکستان نے اپنے سات کروڑ مسلمان بھائیوں کو کھو دیا اور اہل مشرقی پاکستان تین لاکھ دس ہزار مربع میل کے علاقے سے محروم ہوگئے جو کوہ ہمالیہ سے بحیرہ عرب تک پھیلتا چلا گیا۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مشرقی پاکستان کے شہاب الدین کے گورنر کے ساتھ ہوتی ہے کو بھی

پڑھیں:

پاکستان کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کی ضرورت ہے: گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی

گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی—فائل فوٹو

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی فیڈرل کانسٹیبلری ہیڈکوارٹرز پہنچے، جہاں انہوں نے یادگارِ شہداء پر حاضری دی۔

اس موقع پر فیڈرل کانسٹیبلری کے دستے نے گورنر کے پی کو سلامی دی۔

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں کل ناخوش گوار واقعہ پیش آیا، جس کے شہداء کو سلام پیش کرتا ہوں۔

ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک افغانستان ہے: فیصل کریم کنڈی

گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک افغانستان ہے، افغانستان کے باعث یہاں امن و امان کی صورتحال متاثر ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام فورسز پر فخر کرتے ہیں، بار بار افغانستان کو بتایا گیا کہ ان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کی جا رہی ہے۔

گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پاکستان کے پاس جواب دینے کا حق موجود ہے، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کی ضرورت ہے، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ہوں گے تو امن قائم ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کی عبوری حکومت اس ایجنڈے پر نہیں ہے کہ ملک کی خدمت کر سکے، روز کی بنیاد پر ہماری فورسز فتنہ خوارج کو ختم کر رہی ہے۔

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ہم نے سالوں افغانوں کو اپنے ساتھ رکھا، اب فیصلہ کرنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ کیا کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سال نو پر بل گیٹس نے زندگی بدل دینے والی کن 5 کتب کو پڑھنے کا مشورہ دیدیا
  • جرات کے پیکر اوروفا کے مجاہد کیپٹن ارشاد کی جراتمندانہ داستان
  • عالمی مسابقت کی ملک میں بنیادی معاشی حیثیت ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
  • حکومت کو تاجروں کے ساتھ بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، گورنر پنجاب
  • ترقی کی چابی صرف ن لیگ کے پاس ہے ،سازشیں کرنے والے تاریخ کی کتاب میں بند ہو گئے، مریم نواز
  • نومبر 1971ء کا معرکہ ہلی سیکٹر ؛ بھارتی سرپرستی میں مکتی باہنی کے خونریز مظالم  کی ایک اور داستان
  • کراچی : عمان کے قومی دن کے موقع پر گورنر اور وزیراعلیٰ سندھ قونصل جنرل کے ساتھ کیک کاٹ کررہے ہیں
  • پاکستان کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کی ضرورت ہے: گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی
  • 1971، بھارتی بربریت اور مکتی باہنی کے مظالم، میجر انیس احمد خان شہید کی بہادری کی داستان
  • کتاب ہدایت