مشرقی پاکستان کی ان کہی داستان
اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT
وہ ہی لوگ تاریخ رقم کرتے ہیں جو داستانوں اورکہانیوں کا اہم کردار ہوتے ہیں، وہ حالات و واقعات کے چشم دید گواہ ہونے کے ساتھ اہم شخصیات اور ان کے ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں۔ صبح و شام ان کے دل و دماغ پر فلم چل رہی ہوتی ہے، جو ماضی کی یادوں کو ستاروں اور چنگاریوں کی طرح روشن کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔
قلمکار کا قلم اس ہی وقت جنبش میں آتا ہے جب وہ گزرے ہوئے تلخ حالات و واقعات کو قرطاس کی زینت بنا کر گویا دل و دماغ سے ایک بوجھ اتار دیتا ہے۔
میری خوش بختی ہے ایک کتاب قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کی طرف سے تحفۂ درویش کی صورت میں موصول ہوئی ہے، یہ کتاب تاریخ کی ہے اور وہ بھی مشرقی پاکستان کی تاریخ، اپنے وطن سے اور بچھڑے ہوئے خطے سے نہ کہ پیار ہوتا ہے بلکہ جدائی کا دکھ تڑپا کر رکھ دیتا ہے، یہ وہی ملک ہے جس کے لیے قائد اعظم ان کے ہم عصروں اور ہمارے پرکھوں نے عظیم قربانیاں دی تھیں، ناعاقبت اندیشوں نے اس کی قدر نہیں کی۔
مشرقی پاکستان کی ان کہی داستان ’’ پندرہ گورنر، پندرہ کہانیاں‘‘ کے مصنف میجر (ریٹائرڈ) ایس جی جیلانی ہیں۔ علامہ عبدالستار عاصم اس کتاب سے قبل بھی کئی کتابیں احقرکے مطالعے کے لیے ترسیل کر چکے ہیں جو ہماری معلومات میں اضافے کا سبب بنیں۔
مذکورہ کتاب جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ مشرقی پاکستان کے پندرہ گورنروں کی کارکردگی کا کچا چٹھا کھولتی ہے جہاں بشری کمزوریوں، خامیوں اور ذاتی مفاد پرستی کی جنگ کو طشت ازبام نہایت ایمان داری کے ساتھ کیا گیا ہے، وہاں ان شخصیات کی خوبیوں پر بھی مصنف کی گہری نگاہ ہے جو اپنے وطن سے مخلص تھے۔
’’ پیش لفظ‘‘ محمد عظیم خان لیفٹیننٹ جنرل (ر) نے خلوص و سچائی کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ دیباچہ نگار نے ڈھاکہ کے گورنر ہاؤس کے شب و روز جوکہ ساڑھے اٹھارہ سال پر محیط ہیں، ان ماہ و سال کا مصنف کے حوالے سے تجربات کی روشنی میں مشرقی پاکستان اور وہاں کے مکینوں کے طرز زندگی اور رہن سہن کے بارے میں لفظوں کے ذریعے تصویرکشی کی ہے۔ سیاسی ابتری اور معاشی و معاشرتی یادوں کا نوحہ بھی کتاب میں درج ہے۔
مصنف نے تمہید کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے، اپنی تحریر کے ذریعے لوگوں کے منافقانہ رویوں اور راست باز حضرات کی توصیف کرنے میں کسر نہیں چھوڑی ہے۔ انھوں نے اپنے قارئین کو بتایا ہے کہ وہ گورنر کے اے ڈی سی کے عہدے تک کس طرح پہنچے۔
میجر (ر) ایس جی جیلانی کو سرحد کے گورنر خواجہ شہاب الدین اور چیف سیکریٹری معیزالدین نے اچھے تعلقات کی بنا پر اہم عہدوں کی پیشکش کی تھی۔ ان میں سے ایک مشرقی پاکستان کے گورنر کا اے ڈی سی بننے کی بھی آفر تھی، چنانچہ انھوں نے گورنر ہاؤس جانے کا فیصلہ کرلیا۔
میجر صاحب نے اپنی پہلی کہانی چوہدری خلیق الزماں سے شروع کی ہے۔ چوہدری خلیق الزماں کی قائدانہ صلاحیتوں اور حکمت عملی کے ساتھ ساتھ دلچسپ اور اہم واقعات کا ذکر نہایت شائستگی اور شگفتگی کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔
مصنف کی تحریروں میں جا بجا مزاح کی قوس و قزح اور طنز کی آمیزش سلیقے کے ساتھ نظر آتی ہے واقعات کو ضابطہ تحریر میں لاتے ہوئے ان کی بذلہ سنجی کے نت نئے رنگ نمایاں ہو جاتے ہیں، وہ سچ بات کہتے ہوئے کہیں نہیں چوکتے ہیں۔
ان کے مضمون سے چیدہ چیدہ باتیں، ان کا تعلق لکھنو سے تھا، وہ مسلم لیگی رہنما تھے، جب وہ مشرقی بنگال کے گورنر بنے۔ اس دن کی تاریخ اور سن تاریخ کے اوراق پر مہر کی طرح ثبت ہو گیا ہے 3 اپریل 1953 ان کی زندگی کا اہم دن تھا، گورنر بننے کے بعد روایات کے خلاف اور اپنی تفریح طبع کے تحت وہ کام کیے جو ان کی آمد سے قبل ان کا کرنا تو دور کی بات ہے سوچنا بھی ممکن نہیں تھا۔
مثال کے طور پر باضابطہ لباس سے نجات حاصل کرنے کے لیے مصنف کو بھی آمادہ کیا اطراف میں خدمت انجام دینے والے حیران و پریشان تھے۔ مصنف نے گورنروں کی کہانیاں لکھتے وقت ان کے نام کے ساتھ ان کے کرداروں کی خوبیوں اور خامیوں کو بھی عنوان کے ساتھ درج کر دیا ہے۔
جیسے میجر جنرل سکندر مرزا متکبر اور سخت مزاج، جسٹس امیرالدین (پانچویں کہانی) گورنمنٹ ہاؤس کا گلیمر، (دسویں کہانی) غلام فاروق ’’سخت کوش مگر سیاسی داؤ پیچ سے آشنا (پندرہویں کہانی) لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان ’’شورش اضطراب کا زمانہ۔‘‘
میجر جنرل سکندر مرزا نے 30 مئی 1954 کو مشرقی پاکستان کے گورنر کا حلف اٹھایا، یہ دوسرے گورنر کے طور پر سامنے آئے۔ گورنر صاحب نے اپنے فرائض منصبی کے دوران اپنی فراست اور موقع پرستی کے باعث بہت سے مسائل اور آنے والے مشکل حالات پر قابو پالیا اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئے۔
مصنف نے گورنر صاحب کے اپنے اس مقولے کو بھی اپنی کہانی کا حصہ بنایا ہے، ٹیبل ٹاک کے دوران انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’’جب شورش بپا کرنے والی سیاست سے پالا پڑے، وہاں نرمی سے کام نہیں لینا چاہیے وہاں بے حسی اور بے رحمی کارگر ثابت ہوتی ہے تو ان کے نزدیک گولی مار دینے کی دھمکی، گولی مارنے سے زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔‘‘
سرخ پوشوں کا جلسہ اور مرزا کی چال نے سرخ پوش منتظمین اور مقررین کو دست آور کھانا کھلا دیا۔ اس طرح جلسے کی کامیابی ناکامی میں بدل گئی، اسی طرح آڈیٹروں کی جماعت جوکہ حساب کتاب کرنے آئی تھی ان کی چھٹی بھی اس طرح کروا دی کہ انھیں بھاگتے بنی چونکہ ریسٹ ہاؤس کی چھت اور روشن دانوں پر رات بھر گولیاں برستی رہیں، اس طرح سانپ بھی مارا گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ ان کی فہم و فراست اور دور اندیشی کا ذکر بھی ان کے کردار کے حوالے سے ملتا ہے۔
جسٹس محمد شہاب الدین مشرقی پاکستان کے چوتھے گورنر بنے۔ یہ کہانی دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات کا احاطہ کرتی ہے اور محمد شہاب الدین اور ان کی اہلیہ کی مہمان نوازی اور آپس میں ایک دوسرے سے بے مثال محبت کی داستان کو مصنف نے نہ کہ اجاگرکیا ہے بلکہ اپنی پیش گوئی اور منہ سے نکلنے والی بدفال کو بھی سچائی کے ساتھ تحریر کے سپرد کر دیا ہے۔
میجر صاحب ان کی خصوصاً جسٹس صاحب کی محبت کو دیکھ کر اکثر سوچا کرتے تھے کہ اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کو اگر خدانخواستہ موت آجائے تو دوسرا زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکے گا۔ میجر صاحب کی پیش گوئی حقیقت میں بہت جلد بدل گئی۔ جسٹس شہاب الدین 13 اپریل 1971 کو لاہور میں اپنی رہائش گاہ ایلمن روڈ پر انتقال کر گئے اور چند گھنٹے بعد ان کی اہلیہ بھی سوئے عدم روانہ ہوئیں۔ یہ تھی محبت کی انتہا۔
بارہویں کہانی مرزا نورالہدیٰ ’’ تین دن کا گورنر‘‘ چودھویں اور پندرہویں کہانیاں، یہ کہانیاں زوال کی طرف بڑھتے بڑھتے بہت سے چہروں کو بے نقاب کرگئیں، گھٹیا سیاست اور خود غرضی نے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ اس کتاب کی آخری سطور جسے لکھتے ہوئے مصنف کی آنکھیں ضرور نم ہوئی ہوں گی۔
’’ اور پھر ہرکوئی جانتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا، مغربی پاکستان نے اپنے سات کروڑ مسلمان بھائیوں کو کھو دیا اور اہل مشرقی پاکستان تین لاکھ دس ہزار مربع میل کے علاقے سے محروم ہوگئے جو کوہ ہمالیہ سے بحیرہ عرب تک پھیلتا چلا گیا۔‘‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مشرقی پاکستان کے شہاب الدین کے گورنر کے ساتھ ہوتی ہے کو بھی
پڑھیں:
پاکستان کی محتاط جوابی کارروائی افغانستان کے لئے سبق ہے: گورنر سندھ
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن) گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کہا ہے کہ پاکستان کی محتاط جوابی کارروائی افغانستان کے لئے سبق ہے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق اپنے بیان میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا کہنا تھا کہ افغانستان نہ بھولے پاک فوج نے بھارت کو ناکوں چنے چبوائے تھے، پاک فوج نے ایٹمی طاقت بھارت کو 6 گھنٹے میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی بلااشتعال کارروائی پر پاکستان نے ابھی چند اہداف نشانہ بنائے ہیں۔
گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ افغانستان کسی زعم میں ہے تو پاکستان یہی پہاڑ طالبان کے سر پر توڑ دے گا، برطانیہ، سوویت یونین اور امریکا کو ہرانے کی باتیں کرنے والے حقیقت سے لاعلم ہیں۔
پاکستان کا جواب افغانستان میں فتنہ الہند کے دہشتگردوں کو بے اثر کرنے کیلئے ہے،اسحاق ڈار
مزید :