یو ایس بی پورٹس کے مختلف رنگ اس کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہر یونیورسل بس سیریل (USB) میں ایک معیاری انٹرفیس ہوتا ہے، جو مختلف مقاصد جیسے ڈیٹا ٹرانسفر اور پاور سپلائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
1990 کی دہائی میں ماہرین نے USB ٹیکنالوجی ایجاد کی، جس کا پہلا ورژن 1995 میں USB 1.
وقت کے ساتھ USB ٹیکنالوجی میں بہتری آتی گئی، اور حالیہ برسوں میں زیادہ کارآمد اور ہمہ جہت USB Type-C کنیکٹرز مقبول ہو گئے ہیں۔ تاہم، پرانے Type-A کنیکٹرز اور پورٹس اب بھی کئی ڈیوائسز میں استعمال ہو رہے ہیں۔
Type-A کنیکٹرز میں ایک دھاتی کیسنگ ہوتی ہے، جو USB-C سے مشابہ نظر آتی ہے، لیکن اس کے اندر ایک مخصوص رنگ والا پلاسٹک بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ پلاسٹک صرف خوبصورتی کے لیے نہیں بلکہ تین اہم افعال انجام دیتا ہے: میٹل کنیکٹر کو سہارا دینا، درست کنیکشن میں مدد فراہم کرنا، اور اپنی رنگت کے ذریعے کنیکٹر کی صلاحیت ظاہر کرنا۔
اسی وجہ سے USB کنیکٹرز میں مختلف رنگوں جیسے سفید، سیاہ، نیلا، پیلا، نارنجی اور سرخ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر رنگ مختلف USB ورژن اور خصوصیات کی نشاندہی کرتا ہے۔
سفید رنگ USB 1.0 یا 1.1 کی نمائندگی کرتا ہے، جن کی رفتار 1.5 سے 12 Mbps تک ہوتی ہے۔ یہ ابتدائی اور نسبتاً سست ورژنز ہیں۔ سیاہ رنگ USB 2.0 کا اشارہ دیتا ہے، جو زیادہ سے زیادہ 480 Mbps کی رفتار اور بہتر چارجنگ فراہم کرتا ہے۔ نیلا رنگ USB 3.0 کو ظاہر کرتا ہے، جو 5 Gbps تک کی تیز رفتار ڈیٹا ٹرانسفر کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پیلا رنگ عام طور پر USB 2.0 یا 3.0 پورٹس میں پایا جاتا ہے، لیکن اس کا مطلب ہے کہ یہ پورٹ “Always On” ہوتی ہے — یعنی کمپیوٹر سلیپ موڈ میں ہو تب بھی ڈیوائسز چارج ہوتی رہتی ہیں۔ نارنجی رنگ بھی USB 3.0 سپورٹ کی علامت ہے، مگر اس کا استعمال محدود کمپنیوں تک ہے۔ اگر کنیکٹر کا پلاسٹک سرخ رنگ کا ہو تو یہ جدید USB ورژنز جیسے USB 3.1 یا USB 3.2 کی نشاندہی کرتا ہے، جو مزید تیز رفتار اور بہتر پاور ڈیلیوری کی خصوصیات رکھتے ہیں۔
یہ رنگ صارفین کو آسانی سے یہ پہچاننے میں مدد دیتے ہیں کہ کون سا USB پورٹ کس رفتار اور فنکشن کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کراچی کی بگڑتی صورتحال کی ذمہ داری پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر عائد ہوتی ہے، علامہ مبشر حسن
اپنے بیان میں رہنما ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ پیپلز پارٹی صوبائی سطح پر اور ایم کیو ایم شہری حکومتوں میں ہونے کے باوجود کارکردگی دکھانے میں مکمل ناکام رہیں، جس کا خمیازہ آج کراچی کے شہری بھگت رہے ہیں، شہر کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے شفاف حکمتِ عملی اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ مبشر حسن کا کہنا تھا کہ شہرِ قائد کی بگڑتی ہوئی صورتحال صفائی، ٹریفک کے مسائل، پانی کی کمی اور بدانتظامی کی ذمہ داری پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر عائد ہوتی ہے، دونوں جماعتوں نے دہائیوں تک اقتدار اور اختیارات رکھنے کے باوجود کراچی کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا اور یہ جماعتیں شہری مسائل کے حل میں یکسر ناکام ہیں اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ادا کر رہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر اس کے باوجود شہری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جس کے سبب عوام میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں ٹوٹی سڑکیں، کچرے کے ڈھیر، پانی و سیوریج کا شدید بحران، ٹرانسپورٹ کی تباہ حالی اور انتظامی ناکامی اس بات کا ثبوت ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں جماعتوں نے کراچی کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا مگر عوامی مسائل پر کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا، شہر کے گورنر و وزیراعلیٰ روبن ہُڈ بننے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب عوام کو جعلی میئر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جن کی کارکردگی علاقائی کونسلر کے برابر نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی صوبائی سطح پر اور ایم کیو ایم شہری حکومتوں میں ہونے کے باوجود کارکردگی دکھانے میں مکمل ناکام رہیں، جس کا خمیازہ آج کراچی کے شہری بھگت رہے ہیں، شہر کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے شفاف حکمتِ عملی اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، اگر یہی طرزِ حکمرانی جاری رہا تو شہر کے حالات مزید سنگین ہوجائیں گے۔