شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہے
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہے WhatsAppFacebookTwitter 0 12 October, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
انسانی جان سے قیمتی چیز کوئی نہیں۔ ہر شخص اپنی زندگی سے محبت کرتا ہے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ایمان، یقین اور مقصد کے باعث اللہ کی رضا اور وطن کے دفاع میں اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم شہید کہتے ہیں، اور ان کی قربانی اس دنیا میں سب سے بلند درجہ رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کو زندہ قرار دیا ہے، اور آخرت میں ان کا مقام کسی طرح معمولی یا نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
شہید کے گھرانے کا معاشرے میں ایک منفرد اور باوقار مقام ہوتا ہے۔ ماں، باپ، بیوی، بہن بھائی اور بچے جب اپنے پیاروں کے جسدِ خاکی کو وصول کرتے ہیں تو وہ رنج کے ساتھ ساتھ فخر کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا پیارا اپنی جان وطن کے لیے قربان کر کے ایک عظیم امانت ادا کر گیا ہے۔
شہید اپنے رب سے کیے گئے وعدے کو پورا کرتا ہے اور زندہ لوگوں پر ایک اخلاقی فریضہ چھوڑ جاتا ہے — کہ وہ اس قربانی کا احترام صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر کریں۔ اگر ہم اس ذمہ داری کو ادا نہ کر سکے تو ہم اس خون کے مجرم ہوں گے جو ہماری سرزمین میں بہایا گیا۔
حالیہ واقعات اس حقیقت کی یاد دہانی ہیں کہ ہماری بہادر افواج دشمن کو ایک دن میں شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں، مگر جب دشمن چھپ کر وار کرتا ہے، رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح حملہ کرتا ہے، تو پھر یہ صرف افواج کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کے سدباب کے لیے شہری، انتظامی اور اخلاقی سطح پر اقدامات کرے — انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے۔ اگر یہ وطن ہمارا ہے تو ہم سب، اپنی مسلح افواج کے ساتھ، اس کے محافظ اور نگہبان ہیں۔ وہ ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کرتے ہیں، لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں۔
میدانِ جنگ میں ناکامی کے بعد بھارت نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اپنے سہولت کاروں کے ذریعے کھلی دہشت گردی کا سہارا لیا ہے، جس کے ناقابلِ تردید شواہد دنیا کے سامنے پیش کیے جا چکے ہیں۔ صرف خیبر پختونخوا میں 2024 کے دوران 799 دہشت گرد مارے گئے — یعنی اوسطاً ہر 2.
2025 میں اب تک ہماری افواج نے 10,115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے ہیں، جن میں تقریباً 40 فیصد خیبر پختونخوا میں ہوئے۔ ان کارروائیوں میں 917 دہشت گرد انجام کو پہنچے — اوسطاً ہر 3.5 دن میں ایک — جبکہ 516 پاکستانی شہید ہوئے جن میں 311 فوجی، 173 پولیس اہلکار اور 32 عام شہری شامل تھے۔ ان ہر اعداد کے پیچھے ایک کہانی ہے — بہادری، قربانی، اور ایک ایسے عزم کی جو دہشت کے مقابلے میں کبھی جھکنے کو تیار نہیں۔
دہشت گردی ہمارے وطن کا ایک ایسا چیلنج ہے جس کی وجوہات واضح اور اصلاح طلب ہیں۔ سب سے بڑی خرابی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ناکامی ہے۔ جب ریاستی اقدامات ادھورے رہ جائیں تو شرپسند عناصر کے لیے جگہ پیدا ہو جاتی ہے۔
ثبوت اس بات کے موجود ہیں کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ہم نے متعدد مرتبہ افغانستان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ پاکستان کا مؤقف صاف ہے — ہم ایک برادر اسلامی ملک کے طور پر افغانستان میں امن، استحکام اور باہمی احترام چاہتے ہیں۔ مگر اگر افغانستان میں غیر ریاستی عناصر سرگرم رہیں گے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ یہ عناصر کسی مذہب، نسل یا روایت سے تعلق نہیں رکھتے — ان کا مقصد صرف خون ریزی اور انتشار پھیلانا ہے۔
افغانستان میں امریکی ساختہ ہتھیاروں کی موجودگی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ ہے۔ یہ اسلحہ کسی بھی وقت کہیں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے عوام کی سلامتی کسی دوسرے ملک کی خاطر قربان نہیں کی جا سکتی۔ قومی خودمختاری اور شہریوں کا تحفظ ہمارے لیے ناقابلِ سمجھوتہ ہیں۔ پاکستانی قوم ایک فولادی دیوار کی طرح اپنے دشمنوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف متحد ہے اور ان شائاللہ متحد رہے گی۔ ہمارے شہداء کی قربانیاں کبھی ضائع نہیں ہوں گی۔ پوری قوم ان کے خون کو سلام پیش کرتی ہے اور ان کی بہادری کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔
اس موقع پر پوری قوم کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے محافظوں کے خون کو اداروں کی ناکامیوں کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو جرم کے اس نیٹ ورک کو ختم کرنا ہوگا۔ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار — چاہے وہ کوئی بھی ہوں یا کسی بھی عہدے پر فائز ہوں — کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے۔
مکالمہ بلاشبہ مسائل کے حل کا بہترین طریقہ ہے، مگر جب دشمن اور اس کے حامی امن کو ٹھکراتے ہیں تو پھر ان کی زبان میں جواب دینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف نے ہمیں یہی سکھایا کہ اگر امن کی پیشکش رد کر دی جائے تو جنگ ہی راستہ بچتا ہے، اور جو حق اور عدل کے لیے لڑتے ہیں، اللہ ہمیشہ انہیں کامیابی عطا کرتا ہے۔
یہی دہشت گرد سب سے مقدس قبائلی روایات کی بھی پامالی کرتے ہیں۔ وہ بچوں اور عورتوں کو ڈھال بناتے ہیں اور معصوموں کو ظلم کا ہتھیار بنا دیتے ہیں۔ ان کا یہ طرزِ عمل ان کی اخلاقی پستی اور انسانیت سے لاتعلقی کا ثبوت ہے۔ اس برائی کو ختم کرنے کے لیے سیاسی، سماجی اور عسکری ہر سطح پر جائز اقدامات کرنا ناگزیر ہے۔
شہداء کی قربانیوں کا حق تب ادا ہوگا جب پوری قوم سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر متحد ہو، اپنے اداروں کو مضبوط کرے، اپنے منصوبوں کو مکمل کرے، اور اجتماعی ذمہ داری کو قبول کرے۔ شہادت مردہ کو عظمت بخشتی ہے اور زندہ کو فرض یاد دلاتی ہے۔ آئیں ہم اس پکار کا جواب ہمت، دانائی اور عزمِ مصمم کے ساتھ دیں، تاکہ ہمارے شہداء کی قربانیاں ایک محفوظ، منصف اور آزاد پاکستان کی بنیاد بن سکیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک طیفی بٹ کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے ننھی آوازیں، بڑے سوال: بچیوں کا دن، سماج کا امتحان موبائل ۔ علم کا دوست اور جدید دنیا یومِ یکجہتی و قربانی: 8 اکتوبر 2005 – ایک عظیم آزمائش اور عظیم اتحاد کی داستان اب ہم عزت کے قابل ٹھہرے نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیںCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
ہمارے پاس آخری راستہ بھی ہے، اس پر غور کیا جا رہا ہے: سہیل آفریدی
وزیرِاعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی—فائل فوٹووزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس آخری راستہ بھی ہے، اس پر غور کیا جا رہا ہے۔
راولپنڈی میں گورکھپور ناکے پر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام قانونی اور جمہوری راستے اپنائے ہیں، میں دھرنے میں آنا چاہتا تھا مگر بانیٔ پی ٹی آئی کی بہنوں نے منع کیا۔
سہیل آفریدی نے صحافیوں سے سوال کیا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ اس حکومت کے پاس کوئی اختیار ہے؟ بانیٔ پی ٹی آئی کی ہدایت پر حکومت سے مذاکرات ہوئے لیکن ان کے پاس کوئی اختیار نہیں۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے قریب وزیرِ اعلیٰ کے پی سہیل آفریدی کا گورکھپور ناکے پر موجود ایس ایچ او سے مکالمہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 8 فروری کو جو ہوا، 23 نومبر کو بھی وہی ہوا، یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کا جمہوریت سے بھروسہ اٹھ جائے، حالیہ ضمنی الیکشن میں 95 فیصد لوگ ووٹ دینے نہیں نکلے، پنجاب کے عوام نے ووٹ نہ دے کر بانیٔ پی ٹی آئی سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پر ہمارے خدشات بڑھ رہے ہیں، میں نے کسی سے بات کرنے کی بات نہیں کی، کیونکہ ان کے پاس مینڈیٹ ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت کے خلاف چارج شیٹ پیش کی ہے، صحافیوں کو چاہیے کہ 5300 ارب کی کرپشن پر بات کریں، یہ پیسہ عام آدمی کے ٹیکس کا پیسہ ہے، بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے، نوجوان پاکستان چھوڑ کر جارہے ہیں۔
وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ سوال اُن سے بھی ہو گا جنہوں نے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا، این ایف سی میں اپنے صوبے کا مقدمہ لڑنے کے لیے شرکت کروں گا، حکومت نے 4 مرتبہ این ایف سی اجلاس ملتوی کیا ہے۔