کراچی میں کسی بھی مقام پر دھرنا یا احتجاج نہیں ہورہا، حکام کا بیان
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی پولیس نے شہر میں احتجاج کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں۔
پولیس کے مطابق شہر بھر میں کسی مقام پر اس وقت کوئی احتجاج یا دھرنا نہیں ہورہا، صورتحال مکمل طور پر معمول کے مطابق ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بعض عناصر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے افواہیں پھیلا رہے ہیں، جن کے باعث چند علاقوں میں شہریوں نے خوف کے تحت خود دکانیں بند کیں۔ تاہم شہر میں امن و امان کی صورتحال قابو میں ہے اور پولیس کی بھاری نفری مختلف مقامات پر تعینات ہے۔
حکام کے مطابق شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے، اس لیے کسی بھی قسم کے احتجاج یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔
پولیس نے بتایا کہ نیو کراچی کے علاقے سندھی ہوٹل کے قریب احتجاج کی ایک مختصر کوشش کی گئی تھی تاہم مظاہرین کو منتشر کردیا گیا۔ واقعے میں ملوث 10 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ نیو کراچی میں اب مکمل طور پر امن بحال ہوچکا ہے، سڑکیں ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہیں اور شہر بھر میں معمولات زندگی بحال ہیں۔ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ صرف مصدقہ اطلاعات پر یقین کریں اور افواہوں سے گریز کریں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
صورتحال تو ایسی ہی ہے کہ تالے لگا دیں، آج عدالتیں مضبوط ہوتیں تو یہ سب نہ ہورہا ہوتا، جج ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاہور اور بہاولپور سے کم سن بچیوں اور والدہ کے اغوا، سابق سی ای او پی آئی اے مشرف رسول کے شہری وقاص احمد، سہیل علیم کے ساتھ لین دین کے تنازع سے متعلق مقدمے کی سماعت ہوئی۔
وقاص احمد اور سہیل علیم کیخلاف درج مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈی آئی جی انوسٹی گیشن اسلام آباد کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ڈی آئی جی انوسٹی گیشن آکر بتائیں کیا لاہور پولیس کا بیان قلمبند کیا گیا، ڈی آئی جی بتائیں جنہوں نے خاتون کے گھر لاہور چھاپہ مارا، کیا ان کا بیان قلمبند کیا گیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کیا ان کے پاس سرچ وارنٹ موجود تھے ، جنھوں نے خاتون اور بچیوں کو گھر سے اٹھایا، وکیل لطیف کھوسہ نے مشرف رسول کی چیف جسٹس پاکستان کے ساتھ ایک میٹنگ میں موجودگی کی تصویر عدالت کو دکھا دی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ بیس نومبر کی تصویر ہے جس میں مشرف رسول جوڈیشل ریفارمز کی میٹنگ میں موجود ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا مشرف رسول کے وکیل سے مکالمہ ہوا، وکیل شہریار طارق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس عدالت کا اکتوبر کا ایک آرڈر معطل کر رکھا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس کے بعد جو آرڈر ہوا تھا وہ معطل نہیں ہوا، آپ اس عدالت کو کام سے روک نہیں سکتے، ہم جو آرڈر کرینگے آپ اسے آئینی عدالت میں لے جائیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم ایک واقعے کی سچائی میں جانا چاہتے ہیں جس میں ایک خاتون اور اسکی بچیوں کی تذلیل ہوئی ہے، اگر بغیر سرچ وارنٹ کے کسی کو اٹھایا تو وہ اغوا سمجھا جائے گا، پولیس کچھ کر نہیں سکتی ، ایف آئی اے انوسٹی گیشن کرنا نہیں چاہتی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ مشرف رسول نے ساڑھے سولہ کروڑ کا گھر اسلام آباد میں بنایا، جو لین دین کا تنازع تھا دوسری طرف نیوی ہے، اب نیوی سے لین دین کریں تو ان کے پر جلتے ہیں۔
مشرف رسول کے وکیل شہریار طارق نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا اور مؤقف اپنایا کہ ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن اب وفاقی آئینی عدالت میں بھی درخواست دی یے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مطلب یہ معاملہ آئینی عدالت، سپریم کورٹ، پولیس، ایف آئی اے اور مجسٹریٹ کے پاس التوا میں ہے، وکیل شہریار طارق نے مؤقف اپنایا کہ جی بالکل ایسا ہی آئینی عدالت میں ابھی کیس مقرر نہیں ہوا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ معاملہ اتنی جگہ التوا میں ہے اور کوئی انوسٹی گیشن نہیں ہورہی تو پھر انجوائے کریں، آپ کہنا چاہتے ہیں پہلے ہم 27 ویں آئینی ترمیم پر بحث کرینگے پھر دائرہ اختیار فائنل ہوگا۔
وکیل نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، ہم نے اسی عدالت کا بس ایک آرڈر چیلنج کیا ہے، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر اس صورتحال میں ہائی کورٹ جو آئینی عدالت ہی ہے اگر ہاتھ باندھے تو معذرت ہی ہے، پھر تو معزرت کے ساتھ ہائی کورٹ کو تالے لگا دیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ صورتحال تو ویسے اس وقت ایسی ہی ہے، اگر عدالتیں مضبوط ہوتیں تو آج یہ سب کچھ نہ ہو رہا ہوتا، لاہور سے خاتون اور اسکی تین سالہ بچیوں کو اغواہ کیا گیا اور یہاں پولیس مقابلہ کیا گیا، معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی کو بھیجا تھا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ عورت اور بچیوں کے اغوا پر قانون کی بے بسی پر شرم آتی ہے، ہم سب دیکھ رہے ہیں اور کچھ ہر نہیں سکتے، تین سال کی بچی کو چھ دن ماں سے دور رکھا گیا یہ انتہائی شرمناک حرکت تھی، اس لیے عدالت نے یہ کیس دیکھا
معاملہ لاہور آئی جی اور وزیر اعلی کو بھیجا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ساری عدالتیں اگر کچھ نہیں کر سکتیں تو پھر ہم کس لیے یہاں بیٹھے ہیں، اس کیس میں چوری کا مقدمہ خارج نہیں ہوسکتا ، ٹوٹل پانچ ایف آئی آرز ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اب سات ایف آئی آر ہوگئی ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اچھا اب سات ہوگئی ہیں ، آگے دس ہو جائیں گی، جس پولیس پر الزام ہے اسی سے آپ نے تفتیش کروانی یے، جو ایس پی یہاں آئے تھے ان کو کیس کا ایک لفظ پتا نہیں تھا۔
لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ کسی قابل اعتماد ایجنسی یا ادارے سے معاملہ انوسٹی گیٹ کروالیں ،جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ وہ ایجنسی کون سی ہے جو غیر جانبدار ہے جس پر ہم اعتماد کرسکیں آپ بتا دیں۔
لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے یہ بس یہ مشکل کام ہے، ہم نے دیکھ لیا اپنی زندگی میں جو دیکھنا تھا، مستقل کے بچوں کا کیا ہوگا، عدالت نے ڈی آئی جی کو طلب کرتے ہوئے سماعت نو دسمبر تک ملتوی کردی۔
دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں اہم قانون سازی کا تذکرہ ہوا، پولیس تفتیش اور اخراج مقدمہ کے کیس میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل آئینی عدالت دائر کرنے پر اہم مکالمہ ہوا۔
دوران سماعت وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ اس ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل آئینی عدالت میں دائر کی ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اچھا آپ ہمارے فیصلے کے خلاف آئینی عدالت چلے گئے، تو کیا اب سپریم کورٹ کا جو آرڈر ہے وہ برقرار رہے گا یا خارج سمجھا جائے گا۔
وکیل شہریار طارق نے مؤقف اپنایا کہ نہیں سپریم کورٹ کا آرڈر برقرار رہے گا، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آج کل پتہ نہیں چلتا روز نیا قانون بن جاتا ہے ، آج بھی قومی اسمبلی کا اجلاس ہے جس میں اہم قوانین پاس ہونے جا رہے ہیں، اس دوران بھی آپ جیسے ججز موجود ہیں تو ہمیں جوڈیشری پر اعتماد ہے، آپ جیسے لوگ ابھی بھی ہیں ہم آپ کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔