سپریم کورٹ بار انتخابات، عاصمہ جہانگیر گروپ کے ہارون رشید کو ملک بھر میں برتری
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے پی) کے سال 2025–26 کے انتخابات کے غیر حتمی نتائج موصول ہونا شروع ہوگئے ہیں جن کے مطابق عاصمہ جہانگیر گروپ کے امیدوار ہارون رشید کو ملک کے بیشتر پولنگ اسٹیشنز پر برتری حاصل ہے، جبکہ اسلام آباد میں توفیق آصف آگے ہیں۔
غیر سرکاری نتائج کے مطابق مختلف شہروں سے موصولہ ووٹوں کی تفصیل درج ذیل ہے:
بنوں: ہارون رشید 25، توفیق آصف 5 — ہارون رشید آگے
ڈیرہ اسماعیل خان: ہارون رشید 23، توفیق آصف 17 — ہارون رشید آگے
سوات: ہارون رشید 27، توفیق آصف 23 — ہارون رشید آگے
پشاور: ہارون رشید 186، توفیق آصف 181 — ہارون رشید آگے
ایبٹ آباد: ہارون رشید 55، توفیق آصف 19 — ہارون رشید آگے
حیدرآباد: ہارون رشید 64، توفیق آصف 33 — ہارون رشید آگے
کراچی: ہارون رشید 196، توفیق آصف 184 — ہارون رشید آگے
سکھر: ہارون رشید 55، توفیق آصف 13 — ہارون رشید آگے
لاہور: ہارون رشید 628، توفیق آصف 427 — ہارون رشید آگے
ملتان: ہارون رشید 137، توفیق آصف 112 — ہارون رشید آگے
کوئٹہ: ہارون رشید 121، توفیق آصف 101 — ہارون رشید آگے
اسلام آباد: توفیق آصف 359، ہارون رشید 341 — توفیق آصف آگے
ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق ہارون رشید کو مجموعی طور پر واضح برتری حاصل ہے جبکہ توفیق آصف نے دارالحکومت اسلام آباد میں سبقت حاصل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات، امیدواروں کے لیے جاری ہدایات میں شامل نکات کونسے ہیں؟
انتخابات کے حتمی نتائج سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی الیکشن کمیٹی کی جانب سے ووٹوں کی باضابطہ گنتی مکمل ہونے کے بعد جاری کیے جائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سپریم کورٹ بار ایسوسی ای.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ بار ایسوسی ای سپریم کورٹ بار ایسوسی ہارون رشید آگے توفیق آصف
پڑھیں:
ماورائے عدالت قتل روکنے کیلئے پولیس کی موثر نگرانی ناگزیر : سپریم کورٹ
اسلام آباد(آئی این پی )سپریم کورٹ نے پولیس کی حراست میں موجود ملزمان پر تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف فیصلہ جاری کردیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تشدد، غیر انسانی و توہین آمیز سلوک اور ذاتی وقار کی پامالی کسی صورت جائز نہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے پولیس کی حراست میں موجود ملزمان پر تشدد اور ماورائے عدالت قتل کیخلاف 7 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ بعض اوقات پولیس کی جانب سے تشدد ماورائے عدالت قتل کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ وہ استثنی کے مفروضے کے تحت ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس عمل کو روکنے کیلئے پولیس فورس پر موثر اور خصوصی نگرانی ناگزیر ہے، زندگی کے حق کو سب سے اعلی انسانی حق قرار دیا گیا ہے، اور آئین ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ریاست ہر شہری کے حقِ زندگی کا تحفظ کرے، حراستی تشدد اور قتل کو روکے۔فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ غیر قانونی حراست، گرفتاری، تشدد، ماورائے عدالت قتل کیخلاف یہ آئینی ضمانتیں قانونی اصولوں کی اساس ہیں، غیر قانونی حراست اور تشدد کسی بھی صورت میں پسندیدہ ہیں نہ قابلِ جواز۔جسٹس جمال خان مندوخیل کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بنیادی حقوق کا اصول ایک محفوظ اور منصفانہ معاشرے کو یقینی بنانا ہے، پولیس فورس آئین میں درج بنیادی حقوق کے فریم ورک کو برقرار رکھنے کی پابند ہے، پولیس ہر شخص کی جان، آزادی اور وقار کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جب کوئی سرکاری اہلکار قانون پر عمل کیے بغیر کسی شخص کو نقصان پہنچاتا ہے، تو اس سے شفاف ٹرائل کے حق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے، پولیس کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو گرفتار کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن گرفتاری آئین و قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آئینی و قانونی تقاضوں کے برخلاف گرفتاری، غیر انسانی رویہ اپنانا، ظلم یا تشدد کرنا نہ صرف مجرمانہ فعل ہے، بلکہ یہ فعل مس کنڈکٹ میں بھی شمار ہوتا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ زریاب خان کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور تشدد کے ذریعے درخواست گزاران نے اپنے فرض کی خلاف ورزی کی، درخواست گزاران کا یہ عمل اختیارات کے غلط استعمال کے مترادف ہے، پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکالنے کی محکمانہ کارروائیاں ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہیں۔عدالت نے ملزمان کی سزائیں برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کردیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 10 کسی شخص کی گرفتاری اور حراست کے حوالے سے حفاظتی ضمانتیں فراہم کرتا ہے، کوئی بھی گرفتار شخص گرفتاری کی وجوہات بتائے بغیر حراست میں نہیں رکھا جا سکتا، گرفتار شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جانا ضروری ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق انسان کی عزتِ نفس اور گھر کی پرائیویسی کی پامالی نہیں ہوسکتی۔عدالت عظمی نے یہ فیصلہ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے 3 پولیس کانسٹیبلز کی اپیلوں پر جاری کیا، تینوں افراد پر زریاب خان نامی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھنے، اسے قتل کرنے کا الزام تھا۔نوکری سے برخاست کرنے کے محکمانہ کارروائی کے فیصلے کیخلاف پنجاب سروس ٹربیونل سے درخواست گزاروں نے رجوع کیا تھا، پنجاب سروس ٹربیونل نے انکی نوکری سے برخاست کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔نوکری سے برخاست کرنے کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے کیس سنا تھا۔