Express News:
2025-10-23@00:37:22 GMT

سیاسی دباؤ یا دکھاوا

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

پیپلز پارٹی نے حکومت کو ایک ماہ کا نوٹس دے دیا ہے کہ وہ اس عرصے میں پی پی کے تحفظات دورکریں، ورنہ سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوگا اور اس سلسلے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ بلاول ہاؤس کراچی میں منعقدہ اس اجلاس میں صدر مملکت آصف زرداری بھی شریک تھے جنھوں نے پنجاب حکومت کے رویے پر پی پی رہنماؤں کے گلے شکوے بھی سنے اور اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔

اجلاس کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ صدر زرداری پنجاب میں پی پی اور (ن) لیگ اختلافات کا معاملہ متعلقہ حلقوں کے ساتھ اٹھائیں گے اور وہ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی اس سلسلے میں بات کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ پی پی کی سینٹرل کمیٹی کے اجلاس سے قبل بلاول بھٹو کی قیادت میں پی پی کے وفد نے وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی ملاقات کی تھی اور پنجاب حکومت کے بیانات اور رویے پر پی پی کے تحفظات کا اظہار کیا تھا جس پر وزیر اعظم نے پی پی وفد کو شکایات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس پر پیپلز پارٹی مطمئن نہیں تھی جس کے بعد یہ مسئلہ سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں زیر غور آیا اور حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دی گئی۔

 اطلاع کے مطابق اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی دو آراء تھیں کہ اگر حکومت پی پی کے تحفظات دور نہیں کرتی تو اپوزیشن میں بیٹھا جائے۔ ایک رائے حکومت میں شامل ہو کر وزارتیں لینے کی بھی تھی مگر اجلاس کے بعد بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہو رہی۔ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے سلسلے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پی پی کو وفاقی حکومت سے اتنی شکایات نہیں جتنی پنجاب حکومت کے ساتھ ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے مطابق پی پی اور (ن) لیگ کے درمیان اختلافات پیدا ہونے میں ایک دوسرے پر تنقید کا بڑا کردار ہے ۔

دونوں جانب سے متنازع بیانات سے معاملات کو مزید خراب کیا گیا کہ بعد میں وزیر اعظم کو مداخلت کرنا پڑی اور ان کی ہدایت پر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کا وفد صدر زرداری سے ملنے نواب شاہ گیا تھا جس میں دونوں پارٹیوں کے مابین بیان بازی پر بات ہوئی اور دونوں طرف سے آیندہ متنازع بیانات نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے بعد پی پی رہنماؤں اور سندھ و پنجاب کے وزیروں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات رک گئے تھے۔

وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں ڈیڑھ سال سے اقتدار میں ہیں۔ اس عرصے میں ملک کے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش ضرور ہوئی مگر مہنگائی قابو میں نہیں آ رہی اور عوام کو ریلیف دینے کے وعدے بہت ہوئے جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور پنجاب کی ترقی کا خیال رہتا ہے۔ انھوں نے عوام کی ترقی کے لیے بہت سے منصوبے پیش کیے ہیں۔

اسلام آباد میں تعمیری و ترقیاتی منصوبے وزیر داخلہ کے سپرد ہیں جو اسلام آباد کی انتظامیہ اور سی ڈی اے سے بھی کام لے رہے ہیں اور ملک بھر میں ترقیاتی کام اب وزرائے اعلیٰ کا اختیار ہے جن سے وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ اپنے صوبے کی تعمیر و ترقی کی ذمے داری بخوبی نبھا رہی ہیں اور ترقیاتی منصوبوں پر بھرپور توجہ دے رہی ہیں ، اسی لیے ترقی صرف پنجاب میں اور عوام کی حالت دوسرے صوبوں سے بہتر نظر آتی ہے جو ان کا فرض بھی ہے۔

پیپلز پارٹی کو وفاق سے شکایت ہے کہ اس نے حالیہ سیلاب میں بیرونی امداد کیوں طلب نہیں کی جب کہ وفاقی حکومت کی ترجیح ملک کے لیے قرضوں کا حصول رہا ہے۔ ن لیگ اپنے طویل دور اقتدار میں عوامی ترقیاتی منصوبے خوب پیش کرتی رہی ہے۔ مگر وہ اپنی کچن کابینہ، مخصوص وزیروں اور بیورو کریسی کے کہنے پر چلنے کی پالیسی اپنائے رہے ہیں جس کی وجہ سے کچھ ارکان اسمبلی ان سے خفا بھی رہے ہیں کیونکہ انھیں پوچھا تک نہیں جاتا۔ یہی حال پی پی اور پی ٹی آئی حکومتوں میں تھا جہاں صرف ان کے سربراہوں کی من مانی تھی۔

پیپلز پارٹی حالیہ سیلاب متاثرین کی فوری امداد پنجاب میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کرانا چاہتی تھی جس سے پنجاب حکومت متفق نہیں تھی جو اب بھی سروے کرا رہی ہے اور متاثرین کو فوری طور پر امداد نہ مل سکی جو پیپلز پارٹی چاہتی تھی۔

پی پی تو پنجاب حکومت میں بھی شامل ہونا چاہتی ہے اور بعض علاقوں میں اپنے لوگوں کی مرضی کے کاموں کی خواہاں ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب حکومت کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے مگر ن لیگ پی پی کی خواہش پوری ہونے نہیں دے رہی، اسی لیے پی پی نے وفاقی حکومت کو ایک ماہ کا نوٹس دیا ہے۔ پی پی کو شکایات پنجاب حکومت سے ہیں اور نوٹس وفاقی حکومت کو دیا ہے تاکہ وزیر اعظم کے ذریعے پنجاب حکومت پر دباؤ ڈلوائے کیا پنجاب حکومت دباؤ میں آ جائے گی، اس لیے اب صدر مملکت معاملہ متعلقہ حلقوں کے ساتھ اٹھائیں گے اور وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ پی پی کا کامیاب دباؤ ہوگا یا سیاسی دکھاوا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی پنجاب حکومت وفاقی حکومت اور پنجاب اجلاس میں رہنماو ں مسلم لیگ حکومت کو حکومت کے پی پی کے کے ساتھ کے بعد میں پی

پڑھیں:

کیا حسن مرتضیٰ پی پی قیادت کیخلاف سازش کر رہے ہیں؟ عظمیٰ بخاری

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے استفسار کیا ہے کہ کیا حسن مرتضیٰ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف سازش کر رہے ہیں؟

لاہور سے جاری بیان میں عظمیٰ بخاری نے حسن مرتضیٰ کے بیان پر ردعمل دیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی حسن مرتضیٰ کے بیان کو خود دیکھے گی یا ہم جواب دیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا حسن مرتضیٰ اپنی قیادت کےخلاف سازش کررہے ہیں؟ پیپلز پارٹی کی قیادت کو ان کے بیان کا نوٹس لینا چاہیے۔

وزیر اطلاعات پنجاب نے مزید کہا کہ معافی آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو مانگنی چاہیے، جن کے کنٹرول میں آپ جیسے ہارے ہوئے لوگ بھی نہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے پنجاب سے ہارے ہوئے کچھ لوگوں کو ان کی جماعت اقتدار میں بیٹھی اچھی نہیں لگ رہی۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی حسن مرتضیٰ کے بیان کو خود دیکھے گی یا ہم جواب دیں،عظمیٰ بخاری
  • حسن مرتضیٰ کے بیان پر آصف زردری اور بلاول بھٹو کو معافی معانگنی چاہیے، عظمی بخاری
  • عظمیٰ بخاری کا ردعمل: حسن مرتضیٰ کے بیان پر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو معافی مانگنی چاہیے
  • آزاد کشمیر سیاسی منظرنامہ بڑی تبدیلی کے دہانے پر، فریال تالپور کی اسلام آباد بیٹھک
  • پی پی انتقام نہیں لیتی، بہتری کی مہلت دیتی ہے، حسن مرتضیٰ
  • کیا حسن مرتضیٰ پی پی قیادت کیخلاف سازش کر رہے ہیں؟ عظمیٰ بخاری
  • کراچی سے بے زار کیوں؟
  • آزاد کشمیر حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟ بڑی خبر آ گئی
  • پیپلز پارٹی اراکین کا حکومتی اتحاد سے نکلنے کا مطالبہ، آصف زرداری کی درخواست پر حکومت کو ایک ماہ الٹی میٹم