Express News:
2025-12-10@11:22:26 GMT

سیاسی دباؤ یا دکھاوا

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

پیپلز پارٹی نے حکومت کو ایک ماہ کا نوٹس دے دیا ہے کہ وہ اس عرصے میں پی پی کے تحفظات دورکریں، ورنہ سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوگا اور اس سلسلے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ بلاول ہاؤس کراچی میں منعقدہ اس اجلاس میں صدر مملکت آصف زرداری بھی شریک تھے جنھوں نے پنجاب حکومت کے رویے پر پی پی رہنماؤں کے گلے شکوے بھی سنے اور اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے جائیں گے۔

اجلاس کے بعد یہ بھی معلوم ہوا کہ صدر زرداری پنجاب میں پی پی اور (ن) لیگ اختلافات کا معاملہ متعلقہ حلقوں کے ساتھ اٹھائیں گے اور وہ میاں نواز شریف کے ساتھ بھی اس سلسلے میں بات کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ پی پی کی سینٹرل کمیٹی کے اجلاس سے قبل بلاول بھٹو کی قیادت میں پی پی کے وفد نے وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی ملاقات کی تھی اور پنجاب حکومت کے بیانات اور رویے پر پی پی کے تحفظات کا اظہار کیا تھا جس پر وزیر اعظم نے پی پی وفد کو شکایات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس پر پیپلز پارٹی مطمئن نہیں تھی جس کے بعد یہ مسئلہ سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں زیر غور آیا اور حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دی گئی۔

 اطلاع کے مطابق اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی دو آراء تھیں کہ اگر حکومت پی پی کے تحفظات دور نہیں کرتی تو اپوزیشن میں بیٹھا جائے۔ ایک رائے حکومت میں شامل ہو کر وزارتیں لینے کی بھی تھی مگر اجلاس کے بعد بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہو رہی۔ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے سلسلے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پی پی کو وفاقی حکومت سے اتنی شکایات نہیں جتنی پنجاب حکومت کے ساتھ ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے مطابق پی پی اور (ن) لیگ کے درمیان اختلافات پیدا ہونے میں ایک دوسرے پر تنقید کا بڑا کردار ہے ۔

دونوں جانب سے متنازع بیانات سے معاملات کو مزید خراب کیا گیا کہ بعد میں وزیر اعظم کو مداخلت کرنا پڑی اور ان کی ہدایت پر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کا وفد صدر زرداری سے ملنے نواب شاہ گیا تھا جس میں دونوں پارٹیوں کے مابین بیان بازی پر بات ہوئی اور دونوں طرف سے آیندہ متنازع بیانات نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے بعد پی پی رہنماؤں اور سندھ و پنجاب کے وزیروں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات رک گئے تھے۔

وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں ڈیڑھ سال سے اقتدار میں ہیں۔ اس عرصے میں ملک کے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش ضرور ہوئی مگر مہنگائی قابو میں نہیں آ رہی اور عوام کو ریلیف دینے کے وعدے بہت ہوئے جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور پنجاب کی ترقی کا خیال رہتا ہے۔ انھوں نے عوام کی ترقی کے لیے بہت سے منصوبے پیش کیے ہیں۔

اسلام آباد میں تعمیری و ترقیاتی منصوبے وزیر داخلہ کے سپرد ہیں جو اسلام آباد کی انتظامیہ اور سی ڈی اے سے بھی کام لے رہے ہیں اور ملک بھر میں ترقیاتی کام اب وزرائے اعلیٰ کا اختیار ہے جن سے وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ اپنے صوبے کی تعمیر و ترقی کی ذمے داری بخوبی نبھا رہی ہیں اور ترقیاتی منصوبوں پر بھرپور توجہ دے رہی ہیں ، اسی لیے ترقی صرف پنجاب میں اور عوام کی حالت دوسرے صوبوں سے بہتر نظر آتی ہے جو ان کا فرض بھی ہے۔

پیپلز پارٹی کو وفاق سے شکایت ہے کہ اس نے حالیہ سیلاب میں بیرونی امداد کیوں طلب نہیں کی جب کہ وفاقی حکومت کی ترجیح ملک کے لیے قرضوں کا حصول رہا ہے۔ ن لیگ اپنے طویل دور اقتدار میں عوامی ترقیاتی منصوبے خوب پیش کرتی رہی ہے۔ مگر وہ اپنی کچن کابینہ، مخصوص وزیروں اور بیورو کریسی کے کہنے پر چلنے کی پالیسی اپنائے رہے ہیں جس کی وجہ سے کچھ ارکان اسمبلی ان سے خفا بھی رہے ہیں کیونکہ انھیں پوچھا تک نہیں جاتا۔ یہی حال پی پی اور پی ٹی آئی حکومتوں میں تھا جہاں صرف ان کے سربراہوں کی من مانی تھی۔

پیپلز پارٹی حالیہ سیلاب متاثرین کی فوری امداد پنجاب میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کرانا چاہتی تھی جس سے پنجاب حکومت متفق نہیں تھی جو اب بھی سروے کرا رہی ہے اور متاثرین کو فوری طور پر امداد نہ مل سکی جو پیپلز پارٹی چاہتی تھی۔

پی پی تو پنجاب حکومت میں بھی شامل ہونا چاہتی ہے اور بعض علاقوں میں اپنے لوگوں کی مرضی کے کاموں کی خواہاں ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب حکومت کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے مگر ن لیگ پی پی کی خواہش پوری ہونے نہیں دے رہی، اسی لیے پی پی نے وفاقی حکومت کو ایک ماہ کا نوٹس دیا ہے۔ پی پی کو شکایات پنجاب حکومت سے ہیں اور نوٹس وفاقی حکومت کو دیا ہے تاکہ وزیر اعظم کے ذریعے پنجاب حکومت پر دباؤ ڈلوائے کیا پنجاب حکومت دباؤ میں آ جائے گی، اس لیے اب صدر مملکت معاملہ متعلقہ حلقوں کے ساتھ اٹھائیں گے اور وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ پی پی کا کامیاب دباؤ ہوگا یا سیاسی دکھاوا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی پنجاب حکومت وفاقی حکومت اور پنجاب اجلاس میں رہنماو ں مسلم لیگ حکومت کو حکومت کے پی پی کے کے ساتھ کے بعد میں پی

پڑھیں:

پی ٹی آئی: ’مایوس کن بیانات کے باوجود بات چیت کے لیے تیار

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پاکستان آرمی کے ترجمان کی حالیہ سیاسی نوعیت کی پریس کانفرنس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسے نامناسب اور افسوسناک قرار دیا، جس سے سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
نجی میڈیا کے مطابق خیبر پختونخوا ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے عبوری چیئرمین گوہر علی خان نے کہا کہ یہ ’جمہوریت کے لیے افسوسناک‘ ہے کہ ایک سینئر افسر کسی بڑی سیاسی جماعت، اس کی قیادت اور کے پی کے وزیراعلیٰ کے خلاف اس طرح کی زبان استعمال کرے۔
گوہر علی خان نے زور دیا کہ ضد اور انا کو ایک طرف رکھ کر مثبت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، اور ابھی بھی حالات بہتر بنانے کا موقع موجود ہے۔ انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اجازت بغیر کسی پابندی کے دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان کی ذاتی ملاقاتوں کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔
انہوں نے تنبیہ کی کہ موجودہ رویہ جاری رہا تو نقصان ملک کے ہر فرد کو پہنچ سکتا ہے، نہ کہ صرف کسی ایک گروہ کو۔ گوہر علی خان نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کسی تصادم پر مبنی پریس کانفرنس نہیں کرے گی، لیکن عوام کو حقائق بتانا ضروری ہیں، کیونکہ پارٹی کے خلاف الزامات لگائے گئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس کے لیڈر عمران خان کو قوم کا 70 فیصد اعتماد حاصل ہے۔ گوہر علی خان نے حالیہ سیاسی حالات، خواتین اور بچوں پر ہونے والے تشدد، مخصوص نشستوں کی چھینی جانے اور پارٹی پر ہونے والی دیگر ناانصافیوں کا بھی ذکر کیا، اور کہا کہ یہ سب الگ داستان رکھتے ہیں۔
پی ٹی آئی کا موقف ہمیشہ جمہوریت، امن اور قانون کی حکمرانی کے حق میں رہا ہے، اور عمران خان ہمیشہ کہتے رہے کہ پاکستان اور اس کی فوج عوام کی ملکیت ہیں۔
سیکریٹری جنرل کا موقف
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عمران خان قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں، بلکہ انہوں نے قوم کو متحد رکھا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پارٹی یا عوام کے حق میں اقدامات نہ کیے گئے اور فوج کو سیاست میں گھسیٹا گیا تو ملک کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس ’افسوسناک‘ تھی اور پارٹی اس کا جواب سیاسی انداز میں نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں جمہوریت کو طاقت کے زور پر کمزور کیا گیا، اور آج ملک میں بڑے قومی مکالمے کی ضرورت ہے، ورنہ تاریخ دوبارہ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے۔
بات چیت کے لیے تیار
پی ٹی آئی واضح کرتی ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن کے پی کے عوام اور ان کے وزیراعلیٰ کے وقار کا مذاق نہیں اڑایا جانا چاہیے۔ پارٹی نے کہا کہ موجودہ سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال میں سب کو عوام کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے اور بیانیوں کی لڑائی میں ملک یا صوبے کا مستقبل خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے سیکیورٹی اور سرحدی کشیدگی کی اہم صورتحال کی بجائے ایک طویل سیاسی رنگ کی پریس کانفرنس کی، جس سے سیاسی ماحول مزید آلودہ ہوا اور ادارے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ پارٹی ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے والی سب سے بڑی قوت ہے اور وہ جمہوریت، قانون اور امن کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔

متعلقہ مضامین

  •  خورشید شاہ نے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی پیشکش کی تھی، مصدق ملک کا دعویٰ
  • الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے بذریعہ خورشید شاہ و ندیم چن پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی آفر کی تھی: مصدق ملک
  • پیپلز پارٹی نے خورشید شاہ اور ندیم افضل چن کے ذریعے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی پیشکش کی، مصدق ملک
  • معیشت کو ڈنڈے سے نہیں چلایا جا سکتا، ضلعی اکانومی ناگزیر ہے، بلاول
  • سندھ حکومت نے تمام کاموں کی ای ٹینڈرنگ کا فیصلہ کیا ہے، شرجیل میمن
  • شازیہ مری کا پی ٹی آئی کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ
  • پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری سید حسن مرتضیٰ کے والد انتقال کر گئے
  • چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری آج لاہور پہنچیں گے
  • حادثات و گٹروں کے سانحات پر سیاست
  • پی ٹی آئی: ’مایوس کن بیانات کے باوجود بات چیت کے لیے تیار