راولپنڈی اور پشاور میں ڈینگی بے قابو: بخار کے کیسز میں خطرناک اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی، پشاور: ملک کے دو بڑے شہروں راولپنڈی اور پشاور میں ڈینگی وائرس کے حملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں، جس نے شہری انتظامیہ اور صحت کے اداروں کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
مون سون کے بعد مچھروں کی افزائش کے لیے سازگار ماحول نے وائرس کے پھیلاؤ کو مزید بڑھا دیا ہے، جس سے شہریوں میں خوف و تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق راولپنڈی میں اب تک 15 ہزار 139 افراد کے ڈینگی ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں، جن میں سے 1163 مریضوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی راولپنڈی کے مطابق صرف گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 21 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، تاہم خوش قسمتی سے اب تک کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی۔
شہر کے مختلف اسپتالوں میں 42 مریض زیر علاج ہیں جب کہ انتظامیہ نے لاروا کی موجودگی کے انسداد کے لیے گھروں کی بڑے پیمانے پر جانچ کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 59 لاکھ 9 ہزار 755 گھروں کی چیکنگ مکمل کی جا چکی ہے جن میں سے 1 لاکھ 85 ہزار سے زائد گھروں میں ڈینگی لاروا پایا گیا۔
دوسری جانب پشاور میں صورتحال بھی تشویشناک بنتی جا رہی ہے۔ شہر میں ڈینگی کے ایکٹو کیسز کی تعداد 268 تک پہنچ چکی ہے، جب کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 38 نئے مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں اب تک 3830 ڈینگی کیسز سامنے آ چکے ہیں اور صوبے میں اس مہلک وائرس سے دو ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق پشاور کے اسپتالوں میں 54 مریض زیر علاج ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پشاور میں درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہے، جو ڈینگی مچھر کی افزائش کے لیے انتہائی موزوں درجہ حرارت سمجھا جاتا ہے، تاہم پہاڑی اور سرد اضلاع میں جہاں موسم خشک اور ٹھنڈا ہو چکا ہے، وہاں کیسز میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
حکومتی اداروں نے لاروا کش اسپرے، آگاہی مہمات اور گھروں میں احتیاطی اقدامات کو مزید تیز کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ پانی جمع ہونے والے مقامات کو ختم کریں، مچھروں سے بچاؤ کے اسپرے کا استعمال کریں اور مکمل آستین والے کپڑے پہنیں۔
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو نومبر کے آغاز تک کیسز میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ موجودہ درجہ حرارت ڈینگی کے لیے موزوں ماحول فراہم کر رہا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پشاور میں میں ڈینگی کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
ایک کروڑ گھروں تک تیز رفتار انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے کا ہدف
کراچی:پاکستان ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے جدید طرز حکمرانی کی جانب پیشرفت کا منفردموقع دیکھ رہاہے، تاہم اس ڈیجیٹل سفرکی کامیابی کاانحصار اس بات پر ہے کہ آیا ملک رابطے کی گہری کمی، بنیادی ڈھانچے کے بلنداخراجات اور فائبر ٹو دی ہوم (FTTH) کی سست رفتار توسیع جیسے دیرینہ مسائل پر قابو پا سکتا ہے یا نہیں۔
حکومت نے نیشنل فائبرائزیشن پلان کے تحت 2029 تک 10 ملین گھروں تک تیزرفتار براڈبینڈ فراہم کرنے کاہدف مقرر کیا ہے،جس کے ذریعے ہر صارف کو 100 Mbps کی فکسڈ انٹرنیٹ سروس مہیا کی جائیگی اور پاکستان کو اوکلا کی عالمی اسپیڈرینکنگ میں ٹاپ 50 ممالک میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
وزارتِ آئی ٹی و ٹیلی کمیونی کیشن (MoITT) یہ منصوبہ ورلڈبینک کے اشتراک سے ڈیجیٹل اکانومی انہانسمنٹ پراجیکٹ (DEEP) کے تحت چلا رہی ہے، جس کامقصد سرکاری اداروں کی ڈیجیٹل سروس ڈیلیوری کی صلاحیت بڑھاناہے۔
وزارت سرمایہ کاری کے فروغ کیلیے ایک کنسلٹنسی فرم کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش میں ہے، تاکہ موجودہ پالیسی دائرہ کار میں رہتے ہوئے مزیدسرمایہ کاری لائی جاسکے۔
منصوبے میں ایڈمنسٹریٹو انسینٹو پرائسنگ (AIP) کے مؤثر استعمال کاجائزہ بھی شامل ہوگا، تاکہ اس کاکردار اسپیکٹرم کے بہتر استعمال، بیک ہال اورمڈل مائل فائبرکی توسیع، 4G کی ڈیفکیشن اور 5G کی تیاری میں واضح کیاجاسکے۔
اس کے ذریعے اسپیکٹرم کے ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی اورفائبر انفراسٹرکچر میں طویل المدتی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائیگی۔
فائبر آپٹک انفراسٹرکچرکے ماہر طحہٰ اویس نے کہاکہ شہروں میں تیزرفتار انٹرنیٹ کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے، پاکستان انٹرنیٹ اسپیڈ کے لحاظ سے دنیامیں نچلے درجے پر ہے، ملک میں اس وقت 2 لاکھ 11 ہزارکلومیٹرسے زائد فائبرموجود ہے،تاہم اس میں نمایاں بہتری کی ضرورت ہے، تاکہ کاروبار اور حکومتی خدمات کو ڈیجیٹل پلٹ فارم پر منتقل کیاجاسکے۔
آئی ٹی ایکسپورٹر ڈاکٹر نعمان اے سعید نے کہا کہ فائبر ٹو دی ہوم پاکستان کے ڈیجیٹل مستقبل کیلیے بنیادی شرط ہے، ’’اگر پاکستان نے AI، کلاؤڈ اور ڈیٹا سینٹرز پر مبنی مستقبل بنانا ہے تو گہری فائبرائزیشن ناگزیر ہے۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ملک کیلیے سب سے بڑے چیلنجز میں بکھراہوا انفراسٹرکچر، بلند سرمایہ کاری لاگت، محدود FTTH اپنانا، اسپیکٹرم کا غیر مؤثر استعمال، ڈیپ سی فائبر کی ضرورت اور سائبر سکیورٹی کے سنگین خدشات شامل ہیں۔
آئی ٹی ایکسپورٹر سعد شاہ نے کہا کہ تیزرفتار اور قابلِ اعتماد انٹرنیٹ ملکی ڈیجیٹلائزیشن بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی آؤٹ سورسنگ کمپنیوں کی ساکھ بھی بہتر بناسکتا ہے۔