ٹرمپ نے کینیڈا سے تجارتی مذاکرات منسوخ کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کی حکومت کی جانب سے سابق صدر ریگن کی اینٹی ٹیرف تقریر پر مبنی اشتہار نشر کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تمام تجارتی مذاکرات ختم کر دیے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ٹیرف امریکا کی معیشت اور سلامتی کے لیے ضروری ہیں، جبکہ اونٹاریو حکومت کا کہنا ہے کہ اشتہار کا مقصد باہمی تعاون کی ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے بائنینس کے بانی چانگ پینگ ژاؤ کو معاف کردیا
ادھر ریگن فاؤنڈیشن نے بغیر اجازت تقریر استعمال کرنے پر قانونی کارروائی پر غور شروع کر دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سابق صدر ریگن کینیڈا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سابق صدر ریگن کینیڈا
پڑھیں:
ٹرمپ کی نئی سیکیورٹی پالیسی نے یورپ میں ہلچل مچا دی
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی میں یورپ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ براعظم یورپ سخت قوانین، سنسرشپ، کمزور خود اعتمادی اور بڑھتی ہوئی مہاجر آبادی کے باعث ’’تہذیبی مٹاؤ‘‘ کے خطرے سے دوچار ہے۔
یہ نئی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹیجی اچانک جاری کی گئی، جس میں یورپی ممالک پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ امریکی سخاوت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داری لینے میں ناکام رہے ہیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ’’یورپ اگلے 20 برس میں شناخت سے محروم ہو سکتا ہے‘‘۔ رپورٹ میں یورپی اداروں پر بھی تنقید کی گئی ہے، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ قومی خودمختاری اور سیاسی آزادی کو کمزور کر رہے ہیں۔
اسٹریٹیجی میں یورپ کی امیگریشن پالیسیوں، آزادیٔ اظہار پر پابندیوں اور کم ہوتی پیدائش کی شرح کو بھی براعظم کے بڑے مسائل قرار دیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق یورپی عوام امن چاہتے ہیں، مگر حکومتیں ’’جمہوری عمل کو سبوتاژ‘‘ کر رہی ہیں۔
یورپی ممالک نے امریکی پالیسی کو فوری طور پر مسترد کر دیا۔ جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپ کو ’’باہری مشوروں کی ضرورت نہیں‘‘، جبکہ فرانس نے اسے ’’ناقابلِ قبول اور خطرناک‘‘ قرار دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نئی امریکی حکمتِ عملی سابقہ پالیسیوں سے بالکل مختلف ہے اور واضح طور پر یورپ کے پورے نظام اور سمت کو چیلنج کرتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا پہلی بار کھل کر ’’یورپی سیاسی ڈھانچے اور ادارہ جاتی سمت‘‘ کے خلاف مؤقف اپنا رہا ہے۔