پاکستان چین اور امریکہ کے درمیان تعمیری کردار ادا کرنے کو تیار ہے: رضوان سعید شیخ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
امریکہ میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان ماضی کی طرح چین اور امریکہ کے درمیان تعمیری کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔معروف امریکی تھنک ٹینک نیو امریکا، اریزونا سٹیٹ یونیورسٹی اور سکیورٹی اینڈ ڈیفنس پلس کے اشتراک سے کیا گیاسفیر پاکستان نے پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل ، موحولیاتی تبدیلی کے مشترکہ چیلنج، معرکہ حق، مسئلہ کشمیر، پاک چین دوستی ، دہشت گردوں کی جانب سے افغان سرزمین کا استعمال، دہشت گردی کی عفریت کے خاتمے کے لئے پاکستان کی کوششوں اور یوکرائن سمیت عالمی معاملات پر اظہار خیال کیا۔سمٹ سے سفیر پاکستان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے، ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لئے وجودی خطرہ ہے ،ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں قدرتی آفات سے پاکستان کی ترقی متاثر ہوئی ہے، ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ عوام کو معاشی تحفظ کی فراہمی کے لئے کوشش جاری ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔انہوںنے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف فرنٹ لائن ریاست کا کردار ادا کر رہا ہے، حالیہ سیلابوں سے متاثرہ عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لئے اپنے وسائل برے کار لا رہے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ بھارت نے اپنی انتظامی ناکامیوں اور سیاسی مجبوریوں کے پیش نظر پہلگام واقعہ کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہا، دنیا دو جوہری ریاستوں کے درمیان تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی، پاک بھارت جنگ بندی میں امریکی صدر کے کردار کے تعمیری کردار کے معترف ہیں، صدر ٹرمپ پاک دنیا کے دیگر حصوں میں امن قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔سفیرپاکستان نے کہاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل خطے میں مستقل امن کا ضامن ہوگا ، پاکستان اور امریکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کے دو بڑے ملک ہیں، آبادی کے لحاظ سے دو بڑے ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات ناگزیر ہیں، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تاریخی تناظر میں خوش آئند ترین سطح پر ہیں، دونوں ملکوں نے مل کر مختلف چیلنجز کا مقابلہ کیا ہے، سی پیک کو خطے کی معاشی ترقی کے تناظر میں دیکھا جائے، پاکستان ماضی کی طرح چین اور امریکہ کے درمیان تعمیری کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے، افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے،اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اسے حل کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان امن کا خواہاں ہے تاہم اپنی عوام کی سلامتی کو دہشت گردوں کے رحم کرم پر نہیں چھوڑ سکتا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو بین الاقوامی بارڈر کے طور پر لیا جانا تاریخی حقیقت ہے، یوکرائن میں امن کے حوالے سے جاری کوششوں کے حوالے سے پرامید ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ماحولیاتی تبدیلی اور امریکہ کے کے درمیان نے کہا کے لئے
پڑھیں:
لبنان میں امریکہ کی ناکامی
اسلام ٹائمز: مصنف نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک سال کی تباہ کن اور یکطرفہ جنگ بندی کے بعد، لبنان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی وسیع حکمت عملی ایک اہم موڑ پر ہے۔ اگر وہ ایک "مفاہمت کار" اور "امن ساز" ہے، تو اسے مشرق وسطیٰ میں معاہدوں اور امن میں خلل ڈالنے والے اسرائیل کو روکنا چاہیئے اور تل ابیب پر واشنگٹن کے وسیع اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے، اس جونیئر پارٹنر کو لگام ڈالنا چاہیئے، تاکہ اس کے پڑوسیوں پر مسلط عدم استحکام اور افراتفری کو ختم کیا جا سکے تحریر: حسن عباسی نسب
نیشنل انٹرسٹ نے لکھا ہے کہ لبنان میں امریکی پالیسی نہ صرف غیر موثر ہے بلکہ انتہائی نقصان دہ بھی ہے، کیونکہ واشنگٹن، استحکام پر مبنی کسی بھی حل کی مخالفت کرکے درحقیقت موجودہ غیر مستحکم صورتحال کو برقرار رکھنے میں مدد کر رہا ہے۔ یہ صورتحال بالآخر امریکی حکمت عملی کو مکمل ناکامی کی طرف لے جائے گی۔ IRNA کے مطابق، National Interest نے لکھا ہے کہ اسرائیل اور لبنانی حزب اللہ کے درمیان "جنگ بندی" کے ایک سال بعد، صیہونی حکومت ایک بار پھر مکمل جھڑپوں کی بحالی کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ اس امریکی میڈیا سنٹر کے تجزیہ کار "الیگزینڈر لینگلوئس" کا خیال ہے کہ لبنان کی صورت حال ایک واضح مثال ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل اور واشنگٹن کی "طاقت کے ذریعے امن" کا نقطہ نظر قابل عمل نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ کے سیاسی ڈھانچے کے سنجیدہ جائزے کے بغیر بڑے اسٹریٹجک فوائد کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ درحقیقت، غیر مشروط طور پر تل ابیب کی حمایت کرتے ہوئے ایک ایسی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، جو نہ تو مسئلے کی جڑ کو حل کرسکے گا اور نہ ہی لبنان کو تشدد کے ایک نئے دور میں اترنے سے روک سکے گا۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان "جنگ بندی" کے آغاز کے ایک سال بعد، صورتحال ایسی ہے کہ اسرائیل کھلے عام مکمل جنگ دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن اپنے اسرائیلی ساتھی کو اپنے وعدوں پر عمل کرنے پر مجبور کرنے سے قاصر اور اس اقدام کو سنجیدگی سے انجام دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
نومبر 2024ء کے معاہدے کے مطابق دونوں فریقوں کو جنوبی لبنان سے دستبردار ہو کر باہمی حملے بند کرنا تھے، لیکن اسرائیل پانچ اہم سرحدی مقامات پر قبضہ برقرار رکھ کر نیز جنوبی لبنان اور حتیٰ کہ بیروت کے اطراف کے علاقوں پر روزانہ حملے جاری رکھ کر اس معاہدے کو غیر موثر بنا رہا ہے۔ اگرچہ لبنانی فوج نے بتدریج جنوب میں اپنی افواج کو تعینات کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن مسلسل اسرائیلی کارروائیوں اور حملوں نے نہ صرف اس عمل کو درہم برہم کیا ہے بلکہ لبنانی فوجیوں کی ایک قابل ذکر تعداد کی ہلاکت کا باعث بھی بنی ہے اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی امن فوج (UNIFIL) بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں رہی۔ ایسے حالات میں کشیدگی کو روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے بجائے امریکہ نے عملی طور پر اس کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کشیدہ پالیسی کو جاری رکھنے کے لیے ضروری موقع فراہم کیا ہے۔
نیشنل انٹریسٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لبنانی حکومت کے لیے امریکی پالیسی نے دوہرا مخمصہ پیدا کر دیا ہے۔ ایک طرف مغرب اور اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے ساتھ محاذ آرائی کو تیز کرنے کے لیے دباؤ اور دوسری طرف اندرونی دباؤ اور حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تخفیف اسلحہ کے معاملے پر مغرب کے ساتھ کسی بھی قریبی تعاون کی مخالفت ہے۔ امریکہ نے شام میں بھی اسی ناکام ماڈل کی پیروی کی ہے اور اسرائیل کی غاصبانہ پالیسی اور مسلسل حملوں کی حمایت کرکے حالات کو طویل مدتی تعطل کی طرف لے جایا گیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مل کر شام میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانے کی واشنگٹن کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ امریکہ اپنے علاقائی پارٹنر کے رویئے کو معتدل کرنے کے بجائے اپنی بالادستی کو مضبوط کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "نئے مشرق وسطیٰ" میں یہ منصوبہ ماضی کی تکرار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ قبضے اور فوجی تشدد کی بنیاد پر ایک غیر مستحکم صورتحال کو برقرار رکھنے سے مشرق وسطیٰ کا دیرینہ "امن" حاصل نہیں ہوگا۔ ماضی میں ایسے طریقوں کو دہرانا آج کی تباہیوں کا باعث بنا ہے۔ مصنف نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک سال کی تباہ کن اور یکطرفہ جنگ بندی کے بعد، لبنان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی وسیع حکمت عملی ایک اہم موڑ پر ہے۔ اگر وہ ایک "مفاہمت کار" اور "امن ساز" ہے، تو اسے مشرق وسطیٰ میں معاہدوں اور امن میں خلل ڈالنے والے اسرائیل کو روکنا چاہیئے اور تل ابیب پر واشنگٹن کے وسیع اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے، اس جونیئر پارٹنر کو لگام ڈالنا چاہیئے، تاکہ اس کے پڑوسیوں پر مسلط عدم استحکام اور افراتفری کو ختم کیا جا سکے۔