لاہور میں تصوف کا نیا مرکز — روحانیت، سکون اور علم کا سنگم
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
لاہور:
منہاج یونیورسٹی لاہور میں قائم ہونے والا پاکستان کا پہلا تصوف سینٹر روحانیت، سکونِ قلب اور بین المذاہب ہم آہنگی کا ایک نیا باب کھول رہا ہے۔
تین سال کی محنت سے تعمیر ہونے والا یہ مرکز صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی تجربہ گاہ ہے جہاں جدید دنیا کے ذہنی دباؤ اور مادی دوڑ سے تھکے ہوئے انسان کو باطنی سکون اور خود شناسی کی راہ دکھائی جاتی ہے۔
یہ سینٹر کسی ایک سلسلۂ تصوف سے وابستہ نہیں بلکہ قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی، شاذلی، رفائی اور دیگر سلاسل کی مشترکہ تعلیمات پر قائم ہے۔ اس کی عمارت پاکستان، ایران اور ترکی کے اسلامی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے،گنبد، محرابیں، نیلی ٹائلوں کے نقوش اور خطاطی کے جھروکے گویا روحانیت کی تصویری زبان بن گئے ہوں۔
سینٹر میں داخل ہوتے ہی ایک خاص فضا محسوس ہوتی ہے۔ مراقبہ ہال میں روشنی مدھم ہے، بانسری کے سر ہوا میں تیر رہے ہیں اور عود کی خوشبو فضا کو مہکا رہی ہے۔ یہاں چند لمحے بیٹھنے والا شخص چاہے طالب علم ہو یا زائر، کسی اندرونی خاموشی سے ہم کلام ہونے لگتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جسے ڈاکٹر خرم شہزاد ’’باطنی یکسوئی‘‘ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر خرم شہزاد، جو تصوف سینٹر کے ڈائریکٹر اور منہاج یونیورسٹی کے رجسٹرار ہیں، کہتے ہیں کہ آج کا انسان معاشی، سماجی اور سیاسی دباؤ کے باعث ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ مغرب نے اس کیفیت سے نجات کے لیے میڈیٹیشن اور مائنڈ فل نیس جیسے تصورات متعارف کرائے، لیکن اسلام نے صدیوں پہلے مراقبہ، محاسبۂ نفس اور ذکرِ الٰہی کے ذریعے یہی راستہ دکھایا۔
ان کے مطابق، تصوف سینٹر کا مقصد انسان کو حقیقی تصوف سے متعارف کرانا اور روحانیت کو محض رسوم کے بجائے ایک علم اور طرزِ حیات کے طور پر اپنانا ہے۔
ڈاکٹر خرم شہزاد کے مطابق، اس ادارے کا ایک بڑا مقصد معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور شدت پسندی کو کم کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں، جب انسان اپنے باطن میں سکون پاتا ہے تو اس کے رویوں میں اعتدال پیدا ہوتا ہے۔ ذکر اور مراقبہ انسان کو دوسروں کے لیے نرم دل اور خود اپنے لیے پُرامن بنا دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آج اگرکہیں پیری، مریدی کے نام پر کوئی ایسے افعال سرانجام دیتا ہے جو قرآن و سنت اور صوفیا کی تعلیمات کے منافی ہیں تو ایسے لوگ پیر نہیں ہو سکتے۔
تصوف سینٹر میں مختلف کورسز مرتب کیے گئے ہیں جن میں بیک وقت سو افراد تک رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ ہر کورس کی باقاعدہ فیس مقرر ہے اور خواتین کے لیے علیحدہ اوقات رکھے گئے ہیں تاکہ وہ بھی روحانی تعلیم و تربیت میں بھرپور حصہ لے سکیں۔
مرکز کے کوآرڈینیٹر علی سعد قادری کے مطابق یہاں طلبہ کو اس فضا میں پڑھایا جاتا ہے جو ابتدائی ادوار کے صوفیائے کرام کے خانقاہی ماحول سے متاثر ہے۔ ہر سلسلے کے طلبہ تمام سلاسل کا نصاب پڑھتے ہیں تاکہ امت کو ایک جامع تصورِ تصوف دیا جا سکے، جب کہ تحقیق اپنے مخصوص سلسلے پر کرتے ہیں۔
سینٹر کی لائبریری بھی اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ یہاں نہ صرف مسلم صوفیاء کی کتب رکھی گئی ہیں بلکہ دیگر مذاہب جیسے مسیحیت، ہندومت اور سکھ مت کی روحانیت پر لکھی گئی نادر کتابیں بھی دستیاب ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے روحانی نظریات کو سمجھ سکیں اور فکری احترام کی فضا قائم ہو۔
تصوف سینٹر کا نصاب عرب و عجم اور برصغیر کے صوفیاء کی تصانیف پر مشتمل ہے۔ یہاں رومی کی مثنوی سے لے کر داتا گنج بخشؒ کی کشف المحجوب تک اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مواعظ سے امام غزالیؒ کی احیاء العلوم تک، تصوف کے تمام اہم گوشے شامل ہیں۔
ڈاکٹر خرم شہزاد علامہ اقبال کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اِس دور میں خانقاہوں سے نکل کر رسمِ شبیری ادا کرنا دراصل اپنی فیلڈ میں بہترین کارکردگی دکھا کر قوم کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔ تصوف کا مطلب گوشہ نشینی نہیں بلکہ خدمتِ خلق ہے۔‘‘
یوں منہاج یونیورسٹی کا تصوف سینٹر محض ایک عمارت نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے، ایک ایسی جگہ جہاں روحانیت اور عقل، علم اور احساس، فن اور ایمان ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ جہاں بانسری کی دُھن، عود کی مہک، اور دل کی دھڑکنیں ایک ہی پیغام دیتی ہیں: انسان اپنے باطن کو پہچان لے تو کائنات اُس پر روشن ہو جاتی ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان ڈاکٹر خرم شہزاد تصوف سینٹر نہیں بلکہ کہتے ہیں ہیں بلکہ کے لیے
پڑھیں:
ہزارہ ڈویژن پاکستان کے قدرتی وسائل کا مرکز ہے‘ممتاز حسین
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (پ ر)فرینڈ آف ہزارہ پاکستان سنگی گروپ کے سرپرستِ اعلیٰ گوہر گروپ آف کمپنیزحنیف گوہر خان سواتی کی جانب سے فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) کی جانب سے مانسہرہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر سید ممتاز حسین شاہ کے اعزاز میں ایک شاندار کاانعقاد کیاگیا۔تقریب میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے بھرپور شرکت کی جن میں FPCCI کے سابق صدر زبیر طفیل، سینئر نائب صدر شیخ خالد تواب، ایس مظہر علی ناصر، نے اپنے اپنے خطاب میں مانسہرہ چیمبر کو FPCCI ,کا باقاعدہ رکن بنے پر مبارکباد دی اور منرل کے کاروبار کو ملک بھر اور عالمی سطح پر متعارف کرانے میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔صدر مانسہرہ چیمبر آف کامرس سید ممتاز حسین شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہزارہ ڈویژن پاکستان کے قدرتی وسائل کا مرکز ہے، جہاں قیمتی معدنیات، ماربل، گرینائٹ، لائم اسٹون، اور قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔انہوں نے اعلان کیا کہ مانسہرہ چیمبر آف کامرس بہت جلد عالمی سطح کی معدنیات کی نمائش (Minerals Expo) منعقد کرے گا، جس میں دنیا بھر کے سرمایہ کاروں، جیولوجیکل ماہرین اور تجارتی اداروں کو مدعو کیا جائے گا۔ اس نمائش کا مقصد مقامی صنعت کو عالمی منڈی کے ساتھ جوڑنا اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔پروگرام کے میزبان حنیف گوہر خان سواتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان فطری وسائل، افرادی قوت اور زرعی استعداد کے لحاظ سے دنیا کے بہترین ممالک میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ ڈویڑن کے وسائل اور محنتی افراد پاکستان کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ہم FPCCI کے پلیٹ فارم سے انکے ساتھ ہر ممکن تعاون جاری رکھیں گے۔سجاد سنگی سواتی روخ رواں اور بانی فرینڈز آف ہزارہ سنگی نے اپنے خطاب میں FPCCI کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان بھر اور ہزارہ کے کاروباری طبقے کے درمیان بہتر رابطے اور مشترکہ منصوبے ملکی معیشت کو نئی سمت دے سکتے ہیں۔