کراسنگ نہ کھولی گئی تو غزہ کے شدید بیمار اور زخمیوں کی بحالی میں دس سال لگ سکتے ہیں، ڈبلیو ایچ او
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے پیٹر پائپر نے غزہ کی پٹی کے تمام راستے کھولنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ مناسب طبی سامان کی فراہمی، امدادی سرگرمیوں میں توسیع اور 4000 بچوں سمیت تقریباً 15,000 مریضوں کو غزہ سے باہر لے جایا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے پیٹر پائپر نے غزہ کی پٹی کے تمام راستے کھولنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ مناسب طبی سامان کی فراہمی، امدادی سرگرمیوں میں توسیع اور 4000 بچوں سمیت تقریباً 15,000 مریضوں کو غزہ سے باہر لے جایا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام کراسنگ کو کھولنا شرم الشیخ میں طے پانے والے امن معاہدے کا حصہ ہے اور اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ضرورت کے مطابق تیزی سے انخلاء کے عمل کو بڑھایا نہیں گیا تو بیماروں اور شدید بیماروں کی صحت یابی میں دس سال لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بہت سے لوگوں کی حالت ابتر ہو چکی ہے اور بہت سے بچے، عورتیں اور مرد غیر ضروری طور پر مر جائیں گے۔ اس وجہ سے، "ہم انخلاء کے دائرہ کار کو بڑھانے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت دباؤ ڈال رہے ہیں کہ مغربی کنارے اور یروشلم کی راہداری سمیت تمام طبی راہداریوں کو کھول دیا جائے۔"
مقبوضہ علاقوں میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے نے انکشاف کیا ہے کہ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے غزہ میں 88 فلسطینی شہید اور 325 زخمی ہوئے ہیں۔ اکتوبر 2023ء سے اب تک ہلاکتوں کی کل تعداد 68,234 اور زخمیوں کی تعداد 170,373 ہو گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کا صحت کا نظام اس وقت جزوی صلاحیت کے ساتھ کام کر رہا ہے، 36 میں سے صرف 14 ہسپتال، 181 میں سے 64 بنیادی نگہداشت کے مراکز، اور 350 میں سے 109 طبی مراکز محدود فعالیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ 2.
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
غزہ سے 15 ہزار فلسطینیوں کو فوری علاج کیلیے بیرون ملک بھیجنے کی ضرورت ہے؛عالمی ادارۂ صحت
اقوام متحدہ کے طبی ادارے عالمی ادارۂ صحت نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کم از کم 15 ہزار مریض بیرون ملک علاج کے لیے اسرائیل کی اجازت کے منتظر ہیں۔
عالمی خبر رساں ادرے کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے بتایا کہ غزہ میں 15 ہزار افراد شدید زخم، کینسر، دل کی بیماری یا دیگر طویل مدتی امراض میں مبتلا ہیں اور ان کا علاج صرف بیرون ملک ممکن ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبریئس نے کہا کہ غزہ کی طبی سہولیات جنگ کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔ اس لیے ان مریضوں کا علاج ملک میں ممکن نہیں ہے۔
خیال رہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے پہلے مرحلے میں چند روز قبل ہی 41 مریضوں اور 145 معاونین کو غزہ سے نکالا گیا تاہم اب بھی سیکڑوں مریض اسرائیل سے اجازت ملنے کے انتطار میں ہیں۔
جس کی سب اہم بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے رفح راہداری کو بند کیا ہوا ہے جہاں سے مریض بآسانی مصر یا اردن اور پھر وہاں سے مغربی ممالک علاج کے لیے جا سکتے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت نے تمام ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس عمل کی راہ ہموار کریں اور تمام ممکنہ راستے کھولیں تاکہ مریضوں کو جلد علاج کی سہولت مل سکے۔
یاد رہے کہ غزہ پر اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی بمباری میں صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ تمام اسپتال ملبے کا ڈھیر بن گئے جب کہ دوائیں اور طبی عملہ ناپید ہے۔
ایسے میں دائمی اور جان لیوا بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی بڑی تعداد علاج سے محروم ہیں اسی طرح جنگ میں شدید زخمی مریض بھی طبی امداد کے منتظر ہیں۔
اگر فوری طور پر ان افراد کو غزہ سے بیرون ملک علاج کے لیے منتقل نہ کیا گیا تو ان کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔
اسرائیلی بمباری میں پہلے ہی 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جب کہ دو لاکھ سے زائد زخمی ہیں جن میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔