ایف بی آر کا ڈاکٹرز، بیوٹی پارلرز اور دیگر شعبوں کا آڈٹ کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ایف بی آر نے مختلف شعبوں کے پروفیشنلز کا آڈٹ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے آڈٹ کے لیے 600 نجی آڈیٹرز کی خدمات حاصل کر لی ہیں جبکہ آئندہ چند دنوں میں مزید 200 آڈیٹرز بھی ہائر کیے جائیں گے۔ مجموعی طور پر ایف بی آر 2 ہزار نجی آڈیٹرز کو آڈٹ کے عمل میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو ٹیکس دہندگان کی معلومات مکمل طور پر خفیہ رکھنے کے پابند ہوں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھاری فیس لینے والے ڈاکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بڑے ڈاکٹرز کو نوٹسز جاری کیے جا رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں 250 مہنگے ڈاکٹرز کے آڈٹ ہوں گے، جن میں کراچی اور لاہور کے 100، 100 جبکہ اسلام آباد کے 50 ڈاکٹرز شامل ہوں گے۔
ایف بی آر کے مطابق بڑے شہروں میں مہنگے بیوٹی پارلرز اور مہنگی کاسمیٹکس فروخت کرنے والوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ پینٹ اور سیمنٹ سیکٹر میں ٹیکس چوری کی روک تھام کے لیے بھی نجی کمپنیوں کا آڈٹ کیا جائے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایف بی ا ر کے لیے
پڑھیں:
عدالت عظمیٰ کے ججز کی طے شدہ آسامیاں کم کرنے کا فیصلہ کر لیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251126-01-10
لاہور(آن لائن) وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ کے ججز کی طے شدہ آسامیاں کم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ذرائع کے مطابق عدالت عظمیٰ کے ججز کی تعداد 34 سے کم کر کے 19 کئے جانے کا امکان ہے، عدالت عظمیٰ نمبر آف ججز ایکٹ 1997 میں ترمیم کی جائے گی یا پھر صدارتی آرڈیننس کے تحت بھی اسے کم کیا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے ممبر جوڈیشل کمیشن احسن بھون کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے ججز کی طے شدہ آسامیوں کم کرنے کا اقدام قابل تحسین ہے، حکومت کو ججز کی تعداد سے متعلق فوری اقدامات فوری کرنا چاہیے جس سے حکومت پر مالی بوجھ میں بھی کمی ہوگی۔ عدالت عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد میں اضافہ پر حکومت نے عدالت عظمیٰ میں ججز کی آسامیوں کی تعداد بڑھا کر 34 کر دی تھی جس میں سے آئینی بنچ بنا کر آئینی کیسز علیحدہ کر دیے گئے۔اب 27 ویں آئینی ترمیم کے تحت پہلی وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے جو فی الحال 7ججز پر مشتمل ہے جس کے بعد سپریم کورٹ میں زیر التوا 56ہزار مقدمات میں سے 22 ہزار مقدمات آئینی عدالت کو منتقل کردیے گئے۔ عدالت عظمیٰ میں اس وقت 34 ہزار کے قریب مقدمات زیر التواء ہیں اس لیے اب عدالت عظمیٰ اتنی بڑی تعداد میں ججز کی ضرورت نہیں رہی۔