شوبز انڈسٹری میں بند دروازوں کے پیچھے کیا ہوتا ہے؟ نادیہ حسین کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
پاکستانی ماڈل و اداکارہ نادیہ حسین نے شوبز انڈسٹری کے تاریک و مکروہ چہرے سے نقاب اتار کر کئی تلخ باتیں کی ہیں، جو وائرل ہورہی ہیں۔
نادیہ حسین ایک اداکارہ، ماڈل، بزنس وومن اور کانٹینٹ کریئٹر ہیں۔ وہ کئی شعبوں میں کام کررہی ہیں اور دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے فیشن انڈسٹری کا حصہ ہیں۔
گزشتہ دنوں نادیہ ایک پروگرام میں بطور مہمان شریک ہوئیں جہاں انھوں نے شوبز انڈسٹری کے تاریک پہلوؤں اور ناجائز تعلقات پر کھل کر بات کی۔
بقول نادیہ حسین انہوں نے سب کچھ دیکھا ہے اور وہ جانتی ہیں کہ بند دروازوں کے پیچھے کیا ہوتا ہے۔
نادیہ حسین نے اس بات کا انکشاف کیا کہ کس طرح بااثر لوگ عموماً مرد کام حاصل کرنے کے خواہشمند نوجوان لڑکے لڑکیوں سے ناجائز مطالبات کرتے ہیں۔
اداکارہ نے بتایا کہ انڈسٹری میں پہلے ہی اپنی پہچان حاصل کرنے کے باوجود انھیں بھی کئی مواقع پر اس طرح کے حالات کا سامنا ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بار انہیں ایک پروگرام کی میزبانی کی پیشکش کی گئی اور ان سے ایک ’’خصوصی ڈنر‘‘ کی بھی توقع کی جارہی تھی۔ انہوں نے واضح طور پر اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور کام پر نہیں گئیں۔
نادیہ نے کہا کہ وہ ہمیشہ اپنی حدود کے بارے میں بہت واضح رہی ہیں۔ لیکن شوبز میں کام حاصل کرنے کے خواہشمند لڑکے اور لڑکیاں بااثر افراد کی ناجائز خواہشات بھی پوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ ایسی خواتین کو جانتی ہیں جنہوں نے ایسے کام کیے ہیں۔ وہ ان سے کچھ نہیں کہتیں کیونکہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے اور ان لوگوں کے اعمال کا اُن کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نادیہ کا کہنا تھا کہ شادی شدہ لوگ بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور شادی شدہ لوگوں پر دوسروں کو اتنی آسانی سے شک بھی نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے یہ باتیں صرف شوبز میں ہی نہیں بلکہ تمام انڈسٹریز میں ہورہی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نادیہ حسین انہوں نے
پڑھیں:
مودی کی ناکام پالیسیوں نے بھارتی معیشت کو ڈبو دیا؛ آٹو انڈسٹری بحران کا شکار
بھارت میں مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کے نتیجے میں ملکی معیشت ڈوبنے کے دہانے پر آ چکی ہے جب کہ دیگر صنعتوں کی طرح آٹو انڈسٹری بھی بحران کا شکار ہے۔
مودی کی ناقص پالیسیوں سے بھارت کی گرتی معیشت کے سبب نئی گاڑیوں کی فروخت میں بڑی کمی ریکارڈ ہوئی ہے اور بھارت میں نئی گاڑیوں کی فروخت میں شدید کمی نے تیزی سے ترقی کرتی بھارتی معیشت کے دعووں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔
بھارت میں کار ڈیلرشپس پر ہزاروں کروڑ مالیت کی گاڑیاں کھڑی ہیں جو کئی مہینوں سے خریداروں کی منتظر ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ صورت حال نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ بھارت کی موجودہ معاشی حکمت عملی پر بھی سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔
کار ساز کمپنیاں مسلسل گاڑیاں مارکیٹ میں دھکیل رہی ہیں حالانکہ عوامی خریداری کا رجحان گزشتہ ایک سال سے بہت کم ہے۔ ڈیلرز پر ورکنگ کیپٹل کا دباؤ بڑھ چکا ہے اور کئی کاروباروں کے لیے روزمرہ کی مالی ذمہ داریاں پوری کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق فیکٹریوں سے گاڑیاں نکل تو رہی ہیں لیکن شو رومز میں ہی کھڑی رہ جاتی ہیں جو بھارت کی اصل معاشی صورت حال کو بے نقاب کرتی ہیں۔
دوسری جانب مودی سرکار کے ترقی کے دعوے زمینی حقائق سے مختلف ہیں۔ بھارتی صحافی شیو ارور خبردار کر چکے ہیں کہ یہ غلط اور خطرناک ہو رہا ہے،ریکارڈ ₹52,000 کروڑ کی ان وکرو گاڑیوں کا انبار ملک کی سست معیشت کا آئینہ دار ہے۔ اس بحران نے بھارتی مڈل کلاس کی مشکلات کو بھی عیاں کر دیا ہے۔
مہنگائی، بلند سود کی شرح اور روزگار کے غیر یقینی حالات کے سبب مڈل کلاس بڑی خریداریوں سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں اور گاڑیوں پر بھاری جی ایس ٹی نے عام بھارتی کی قوتِ خرید کو مفلوج کر دیا ہے۔
اُدھر نئی نسل کا رجحان اب گاڑی خریدنے کے بجائے رائڈ شیئرنگ سروسز کی طرف بڑھ چکا ہے، جو بدلتی سماجی و معاشی سوچ کی علامت ہے۔ مودی حکومت کی ’’میڈ ان انڈیا‘‘ پالیسی شدید مشکلات کا شکار ہے اور پیداواری سطح پر ترقی کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا، وہ مارکیٹ میں کھپت نہ ہونے کے سبب کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے۔
بھارت کے بڑے شہروں میں ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل نے بھی گاڑی خریدنے کے رحجان کو کم کر دیا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقلی کے عبوری مرحلے نے صارفین کو مزید الجھن میں ڈال دیا ہے۔ بھارتی کار انڈسٹری کا بحران صرف ڈیلرز یا کمپنیوں تک محدود نہیں بلکہ لاکھوں مزدوروں، سپلائی چین ورکروں اور چھوٹے کاروباریوں بھی متاثر ہو رہے ہیں ۔ یہ ساری صورتحال بھارت کے لیے ایک بڑے معاشی اور پالیسی بحران کا پیش خیمہ ہے۔