ٹیکس کا سارا بوجھ عوام پر، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے تو کام چلیں گے، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے معزز جج جسٹس محمد علی مظہر نے سپر ٹیکس سے متعلق اہم ترین کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ٹیکس کا سارا بوجھ آخرکار صارف اور عوام پر آتا ہے، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے تو کام چلیں گے۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
نجی کمپنیوں کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا انکم ٹیکس قانون کی شقیں آئین کے مطابق ہیں۔ عدالت انکم ٹیکس قانون کو آئین کے تناظر میں دیکھے۔
یہ بھی پڑھیے ایف بی آر کا بغیر مہلت ریکوری نوٹس غیر قانونی قرار، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ جاری
ایف بی آر کی وکیل عاصمہ حامد نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں ایف بی آر کے لیے سب سے بڑی مشکل مخلتف ہائیکورٹس کے مخلتف فیصلے ہیں۔ ایک ہی معاملے پر ہائیکورٹس کے مختلف فیصلے موجود ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں ہائیکورٹس کیخلاف اپیلیں ہی سن رہے ہیں اور ہائیکورٹس کے فیصلوں کو مدنظر رکھ کر ہی اپنا فیصلہ دیں گے۔
ایف بی آر کی وکیل نے مزید کہا کہ سندھ ہائیکورٹ نے فیصلہ سابقہ 2 فیصلوں کی بنیاد پر دیا۔سندھ ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے کوئی ڈیٹا نہیں مانگا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان نے ٹیکس پیئر میں تفریق کیوں رکھی؟ ٹیکس لگانے کا واحد مقصد تو حکومتی آمدن کو بڑھانا ہوتا ہے، ایسے اقدامات سے ٹیکس پیئر کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ٹیکس کا سارا بوجھ آخرکار صارف اور عوام پر آتا ہے، سیمنٹ کی بوری ہو یا ایک ایل این جی کا بوجھ عام آدمی پر ہی آتا ہے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے تو کام چلیں گے۔
ایف بی آر کی وکیل نے کہا کہ حکومت نے سپر ٹیکس صرف خاص حد تک آمدن والے پر لگایا، انکم ٹیکس اور سپر ٹیکس کی تعریف میں فرق ہے، سپر ٹیکس 300 ملین کی آمدن سے زائد پر لگایا جاتا ہے۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مقدمہ صرف اتنا ہے کہ ٹیکس پیئر میں تفریق کیوں کی گئی؟ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نہ فیصلوں میں وجوہات ہیں نہ ٹیکس میں تفریق کی وجوہات بتائی گئی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بجٹ تقریر کے علاوہ کوئی اور دستاویز کیس میں ضروری نہیں۔ سوال یہ ہے کہ دیگر ٹیکسز کو برقرار رکھتے ہوئے یہ ٹیکس لگایا گیا؟
یہ بھی پڑھیے ایف بی آر کی ٹیکس دہندگان کیخلاف ایف آئی آرز، گرفتاریاں اور ٹرائلز غیر قانونی قرار، سپریم کورٹ کا بڑا، تفصیلی فیصلہ جاری
وکیل ایف بی آر نے موقف اختیار کیا کہ سپر ٹیکس ایک خاص آمدن سے اوپر والے 15 سیکٹرز پر لگایا گیا،
کسی کمپنی کے وکیل نے ٹیکس ادائیگی کی استطاعت نہ ہونے کا موقف نہیں اپنایا۔
وکلا کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایف بی آر سپریم کورٹ آف پاکستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایف بی ا ر سپریم کورٹ ا ف پاکستان جسٹس محمد علی مظہر نے سپریم کورٹ نے کہا کہ ایف بی آر سپر ٹیکس کے لیے
پڑھیں:
پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگیا، حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈال دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: حکومت نے ایک بار پھر عوام کو مہنگائی کا جھٹکا دیتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے، جس کا اطلاق آج یکم نومبر 2025ء سے ہوگیا۔
خزانہ ڈویژن سے جاری ہونے والے باضابطہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل دونوں کی قیمتوں میں اضافہ اوگرا اور متعلقہ وزارتوں کی سفارشات کے بعد منظور کیا گیا ہے۔ نئی قیمتیں اگلے پندرہ دن کے لیے نافذ العمل رہیں گی۔
اعلامیے کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 2 روپے 43 پیسے اضافہ کر دیا گیا ہے، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 265 روپے 45 پیسے فی لیٹر مقرر ہو گئی ہے۔ اس سے قبل پیٹرول 263 روپے دو پیسے فی لیٹر فروخت کیا جا رہا تھا۔
اسی طرح ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں بھی 3 روپے 2 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کر کے نئی قیمت 278 روپے 44 پیسے مقرر کر دی گئی ہے، جب کہ گزشتہ 15 روز کے لیے یہی قیمت 275 روپے 42 پیسے فی لیٹر تھی۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عام شہری پہلے ہی اشیائے خوردونوش، بجلی اور گیس کی بلند قیمتوں سے پریشان ہیں۔
ماہرینِ معیشت کے مطابق عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں معمولی اتار چڑھاؤ کے باوجود مقامی سطح پر بار بار اضافہ حکومت کی مالیاتی پالیسیوں اور ٹیکس بوجھ کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ قیمتوں کے تعین کے عمل میں شفافیت لائے اور عوامی مفاد کو مقدم رکھے۔
عوامی حلقوں میں اس فیصلے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے، خاص طور پر ٹرانسپورٹ اور زرعی شعبے سے وابستہ افراد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے کرایوں، مال برداری کے نرخوں اور اجناس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں میں کمی کرے تاکہ عام آدمی کو ریلیف دیا جا سکے۔