کریمنل جسٹس سسٹم ختم ہوچکا، سنی سنائی باتوں پر فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے، جج سپریم کورٹ کے ریمارکس
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
جسٹس اطہر من اللہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ یہ کلاسک کیس ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ کریمنل جسٹس سسٹم ختم ہو چکا ہے، کیا قتل کے کیس میں ایسی تفتیش کی جاتی ہے، سنی سنائی باتوں پر فیصلہ کیسے فیصلہ ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سندھ ہائیکورٹ کے جج کے بیٹے کے قتل کیخلاف ملزم سکندر لاشاری اور اور شریک ملزم عرفان کی اپیلوں پر سماعت مکمل ہوگئی۔
جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، سپریم کورٹ کچھ دیر بعد کیس کا فیصلہ سنائے گی۔
دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے مؤکل ملزم خود ماتحت عدلیہ کا جج تھا، میرے موکل کو قتل میں اعانت کے الزام پر سزائے موت سنائی گئی۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ملزم کا ویڈیو بیان موجود ہے، جسٹس شہزاد ملک نے ریمارکس دیے کہ ویڈیو کو عدالت میں پیش کرنے کے جوڈیشل اصول ہیں، ویڈیو کو پیش کرنے سے متعلق کچھ قانون تقاضے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ ملزم نے قتل میں استعمال 5 پستول بر آمد کروائے، جسٹس شہزاد ملک نے ریمارکس دیے کہ ملزم کرائے کے قاتلوں سے قتل کروا کر پستول اپنے پاس کیوں رکھے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ کلاسک کیس ہے جس سے پتا چلتا ہے کریمنل جسٹس سسٹم ختم ہو چکا ہے، کیا قتل کے کیس میں ایسی تفتیش کی جاتی ہے، سنی سنائی باتوں پر فیصلہ کیسے فیصلہ ہو سکتا ہے۔
مقتول حنین طارق کا غیرت کے نام پر 2014 میں قتل ہوا، ملزم سکندر لاشاری کو قتل میں اعانت پر سزائے موت سنائی گئی، شریک ملزم عرفان کو قتل کی سازش میں ملوث ہونے پر 25 سال کی سزا ہوئی۔
مقتول حنین طارق کے والد خالد شاہانی سندھ ہائیکورٹ کے جج ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جسٹس طارق محمود جہانگیری کا جوڈیشل ورک سے روکنے کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے جوڈیشل ورک سے روکنے کا آرڈر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اطلاعات کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے انہیں جوڈیشل ورک سے روکنے کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان کے ڈویژن بنچ کا آرڈر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس حوالے سے تحریری عدالتی فیصلہ جاری ہونے پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی۔ قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے کیس سماعت کی، اس موقع پر وکلاء کی کثیر تعداد کمرہ عدالت پہنچی، ڈسٹرکٹ بار اور ہائیکورٹ بار کی کابینہ بھی کمرہ عدالت میں موجود رہی، شیر افضل مروت بھی کمرہ عدالت پہنچے، تاہم جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست گزار میاں داؤد آج پیش بھی نہیں ہوئے اور التواء کی استدعا کی گئی لیکن پھر بھی جج کو کام سے روک دیا گیا۔(جاری ہے)
دوران سماعت وکیل راجہ علیم عباسی نے دلائل دیئے کہ ’ہماری صرف گزارش ہے کہ یہ خطرناک ٹرینڈ ہے اگر یہ ٹرینڈ بنے گا تو خطرناک ٹرینڈ ہے، سپریم کورٹ کے دو فیصلے موجود ہیں، اس درخواست پر اعتراض برقرار رہنے چاہئیں‘، عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟‘، وکیل اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ ’ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، بار ایسوسی ایشنز سٹیک ہولڈرز ہیں‘۔ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیئے کہ ’حق سماعت کسی کا بھی رائٹ ہے ہم نے آفس اعتراضات کو دیکھنا ہے، عدالت کے سامنے ایک اہم سوال ہے جس کو دیکھنا ہے، اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہو تو کیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟‘، بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک عدالت نے کیس ملتوی کردیا، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف عدالتی معاون مقرر کردیا۔