کیا عمر رسیدہ افراد میں سماعت کی کمی ڈیمینشیا کا باعث بن سکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
ایک تفصیلی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ عمررسیدہ افراد میں سماعت کی کمی اور ڈیمنشیا کے درمیان ایک مضبوط تعلق پایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تنہائی، پریشانی اور افسردگی کس بڑی بیماری میں مبتلا کرتی ہیں؟
غیر ملکی میڈیا کے مطابق جانز ہاپکنز یونیورسٹی، نیو یارک یونیورسٹی اور دیگر جگہوں کے محققین کا کہنا ہے کہ نئی ریسرچ نے عمر رسیدہ افراد میں سماعت کی کمی اور ڈیمینشیا کے بیچ تعلق کو مزید تقویت بخشی ہے۔
نئی تحقیق میں 3000 لوگوں کے میڈیکل ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی قیادت میں یہ تاریخی کوشش بنیادی طور پر ایتھروسکلروسیس اور دل کی بیماری کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے کئ گئی ہے۔ سنہ 1987 سے 2014 تک اس نے 4 امریکی کمیونٹیز میں رہنے والے 35 سے 84 سال کی عمر کے 400،000 بالغوں کی صحت کے نتائج کا پتا لگایا۔
75 سال کی اوسط عمر کے 2,946 شرکا کے ریکارڈز کا مطالعہ کرکے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ اس آبادی میں ڈیمینشیا کے 3 نئے کیسز میں سے ایک کو طبی لحاظ سے اہم سماعت کی کمی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔
بالٹی مور کے جانس ہاپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے سرکردہ مصنفین میں سے ایک ڈاکٹریٹ طالب علم جیسن آر اسمتھ کا کہنا ہے کہ اس تجزیے نے کئی سطحوں پر نئی انکشافات کیے ہیں۔
مزید پڑھیں: آٹزم پیدا ہونے کی وجہ اور اس کا جینیاتی راز کیا ہے؟
جیسن آر اسمتھ نے کہا کہ اگرچہ سماعت کی کمی اور ڈیمینشیا کے درمیان تعلق مضبوط ہو رہا ہے لیکن یہ ایک معمہ ہے کہ وہ کیوں جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
چند ممکنہ وضاحتیں پیش کرتے ہوئے اسمتھ نے کہا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ سماعت کی کمی سماجی تنہائی کو بڑھاتی ہو اور علمی طور پر افزودگی کی سرگرمیوں کو کم کرتی ہو۔
انہوں نے کہا کہ سماعت کا نقصان دماغ پر تناؤ کو بھی بڑھا سکتا ہے اور روزمرہ زندگی کے کاموں کو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سننے میں مسلسل دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈیمینشیا سماعت کی کمی عمر رسیدہ افراد.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈیمینشیا سماعت کی کمی عمر رسیدہ افراد سماعت کی کمی
پڑھیں:
پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدے پر بڑی پیش رفت
اسلام آباد/واشنگٹن: پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کے حالیہ دور میں ایک اہم مفاہمتی معاہدہ طے پا گیا ہے، جو برآمدی شعبے کے مستقبل کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔
9 جولائی کی ڈیڈ لائن سے قبل یہ کامیابی پاکستانی مصنوعات، بالخصوص ٹیکسٹائل اور زرعی اشیا پر دوبارہ بھاری ٹیرف عائد ہونے کے خطرے کو مؤثر طور پر ٹال سکتی ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سیکرٹری تجارت جاوید پال کی قیادت میں پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں 4 روزہ مذاکرات کامیابی سے مکمل کیے، اور اب وہ وطن واپسی کی تیاری میں مصروف ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان فریم ورک پر اصولی اتفاق ہو چکا ہے، تاہم باضابطہ اعلان اُس وقت کیا جائے گا جب امریکا اپنے دیگر تجارتی شراکت داروں کے ساتھ جاری مذاکرات کو حتمی شکل دے گا۔
پاکستانی وفد کا بنیادی ہدف ایک طویل مدتی دو طرفہ ٹیرف معاہدہ تھا، جس کے تحت رواں سال کے آغاز میں عارضی طور پر معطل کردہ 29 فیصد ٹیرف مستقل طور پر ختم کر دیا جائے۔ حکام کے مطابق اگر یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوتے تو 9 جولائی کے بعد یہ رعایت واپس لی جا سکتی تھی، جس سے پاکستانی برآمدات کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔
ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذاکرات نہ صرف کامیاب رہے بلکہ فریقین نے ایک وسیع اقتصادی تعاون کے فریم ورک پر بھی اتفاق کر لیا ہے۔
معاہدے کے تحت نہ صرف امریکی خام تیل کی پاکستان درآمد میں اضافہ ممکن ہو گا بلکہ کان کنی، توانائی اور انفرااسٹرکچر جیسے شعبوں میں امریکی سرمایہ کاری کے دروازے بھی کھلیں گے۔
یہ اہم معاہدہ امریکی ایکسپورٹ-امپورٹ بینک کے ذریعے دو طرفہ معاشی شراکت داری کو مزید وسعت دینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اگرچہ امریکا کے وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے قبل ازیں عندیہ دیا تھا کہ مثبت پیش رفت کی صورت میں ڈیڈ لائن میں نرمی کی گنجائش موجود ہو سکتی ہے، تاہم پاکستانی حکام نے اس عمل کو جلد مکمل کرنے پر زور دیا تاکہ سرمایہ کاروں اور برآمد کنندگان میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ کیا جا سکے۔
ماہرین اور حکام پُرامید ہیں کہ اس مفاہمتی پیش رفت سے پاکستان کی امریکی منڈی تک رسائی بدستور قائم رہے گی اور ان دوطرفہ اقتصادی تعلقات میں وہ توازن دوبارہ بحال ہو سکے گا۔