ہندوستان کی پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں پاکستان کے خلاف سازش کھل کر سامنے آ گئی۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ پہلگام فالس فلیگ حملے کے پیچھے چھپے بھارتی محرکات اور بھارت کی آبی جارحیت کھل کر سامنے آگئی۔

ذرائع کے مطابق ہندوستان کسی بھی طرح قانونی طور پر سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ ختم نہیں کر سکتا، ہندوستان نے اپنا غیر ذمہ دارانہ اور مذموم چہرہ دنیا کو دکھا دیا، ہندوستان نے پہلگام فالس فلیگ کے 24 گھنٹے کے اندر اندر سندھ طاس معاہدے کو غیرقانونی طور پر یک طرفہ معطل کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے: بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل اور پاکستان کے ساتھ سرحد بند کردی

ذرائع نے کہا ہے کہ یہ مذموم حرکت 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، سندھ طاس معاہدے کے شق نمبر12۔ (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ بھارت نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے یہ انتہائی اقدام اٹھایا، سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian ،  lower riparianکے پانی کو نہیں روک سکتا، پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔

ذرائع نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے، معاہدے کی رو سے بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل نہیں کرسکتا، انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پہلگام حملہ: وزیراعظم مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے نئی دہلی پہنچ گئے

ذرائع کے مطابق انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے ناقابل عمل  اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

pahalgam انڈیا بھارت پہلگام حملہ دریا سندھ طاس معاہدہ مودی سرکار.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انڈیا بھارت پہلگام حملہ دریا سندھ طاس معاہدہ مودی سرکار سندھ طاس معاہدے سندھ طاس معاہدہ

پڑھیں:

حیدرآباد،سندھ آبادگار احتجاج کا اعلان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ آبادگار اتحاد کے صدر نواب زبیر احمد تالپور نے گنے کی کرشنگ شروع نہ ہونے کے خلاف 24 نومبر کو حیدرآباد میں احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نومبر اختتام کے قریب ہے لیکن اب تک گنے کی پسائی شروع نہیں کی گئی ہے اور جو شوگر ملیں اکتوبر میں چلنی چاہئیں تھیں وہ نومبر کا نصف گزر جانے کے باوجود بھی نہیں چلائی گئیں۔ نواب زبیر احمد تالپور نے اپنے جاری بیان میں مزید بتایا کہ پنجاب میں کچھ ملوں نے کرشنگ شروع کردی ہے، مگر سندھ میں مکمل خاموشی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب چینی 120 روپے فی کلو تھی اس وقت گنا 400 سے 500 روپے فی من خریدا گیا تھااور آج جبکہ چینی کی قیمت 230 روپے سے تجاوز کرچکی ہے، تب بھی گنے کا نرخ 400 روپے رکھا گیا ہے جوکہ آبادگاروں کے معاشی قتلِ عام کے مترادف ہے۔نواب زبیر احمد تالپور نے کہا کہ جب گنا مارکیٹ میں نہیں آئے گا تو گندم کی کاشت کیسے ہوگی؟ پہلے گندم، کپاس اور دھان کے نرخوں میں زیادتی کی گئی اور اب گنے کے نرخ بھی مناسب مقرر نہیں کیے جارہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں ہمیشہ گنے کی پسائی دیگر صوبوں کے مقابلے میں پہلے شروع ہوتی ہے کیونکہ سندھ میں گنے کی فصل پہلے تیار ہوتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ سندھ آبادگار اتحاد نے اس سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کردی ہے۔انہوںنے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر 24 نومبر تک شوگر ملوں میں گنے کی کرشنگ شروع نہیں کی گئی تو پھر 24 نومبر کو دوپہر 12 بجے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔

اسٹاف رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • امریکی رپورٹ میں پاکستان کو برتر قرار دینے پر انڈین نیشنل کانگریس برہم
  • بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا کوئی معاہدہ نہیں دیکھا، رہنما ن لیگ سلیم کھوسہ
  • جموں، ”کشمیر ٹائمز“ کے دفتر پر ایس آئی اے کا چھاپہ
  • کوئٹہ شہر میں بحالی کے چند گھنٹوں بعد انٹرنیٹ سروس پھر معطل
  • پیپلز پارٹی حکومت کا ماسٹر پلان کراچی کی تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں‘ منعم ظفر خان
  • حیدرآباد،سندھ آبادگار احتجاج کا اعلان
  • خواتین پر تشدد کا کوئی دفاع نہیں کرسکتا، رانا ثناء
  • یوکرین فرانس سے 100 رافیل طیارے خریدے گا، اہم دفاعی معاہدہ طے پا گیا
  • یوکرین کا فرانس سے 100 رافیل طیارے خریدنے کا معاہدہ طے پاگیا
  • سندھ کی تقسیم کا معاملہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا، ایم کیو ایم کیا چاہتی ہے؟