اسرائیل فلسطینیوں کی ’لائیو اسٹریمڈ نسل کشی‘ کر رہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 اپریل 2025ء) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے ''مخصوص ارادے سے کام کیا ہے اور اس طرح نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘
اسرائیل نے غزہ میں جاری اپنے ملٹری آپریشن میں ایمنسٹی، انسانی حقوق کے دیگر گروپوں اور کچھ ریاستوں کی جانب سے 'نسل کشی‘ کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل اگنس کالامار نے رپورٹ کے تعارف میں کہا، ''سات اکتوبر 2023ء سے، جب حماس نے اسرائیلی شہریوں اور دیگر کے خلاف ہولناک جرائم کا ارتکاب کیا اور 250 سے زائد یرغمالیوں کو اغوا کیا، دنیا کو براہ راست نشر ہونے والی نسل کشی کا ناظر بنا دیا گیا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
اقوام متحدہ کے ماہرین کا اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف سنگین جرائم کا الزام
پوپ فرانسس کا ’نسل کشی‘ کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ
ان کا مزید کہنا تھا، ''ریاستوں نے اس کا نظارہ ایسے کیا، جیسے وہ بے اختیار ہوں۔
اسرائیل نے ہزارہا فلسطینیوں کو قتل کیا، کثیر نسلی خاندانوں کا صفایا کر دیا، گھروں، معاش، ہسپتالوں اور اسکولوں کو تباہ کر دیا۔‘‘غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے آج منگل 29 اپریل کی صبح کہا کہ جنوبی غزہ کے علاقے الاقلیم کے قریب بے گھر افراد کے خیموں پر اسرائیلی فضائی حملے میں چار افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہوگئے۔
اس سے قبل ایجنسی نے خبردار کیا تھا کہ ایندھن کی کمی کے سبب لاکھوں شہریوں اور پناہ گاہوں میں موجود بے گھر افراد کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے بیشتر فلسطینی ''اسرائیلی مہم کی وجہ سے بے گھر ہیں اور یہ بھوکے، جان لیوا بیماریوں کے خطرے سے دوچار اور طبی دیکھ بھال، بجلی یا صاف پانی تک رسائی سے قاصر ہیں۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 2024 کے دوران اس نے ''اسرائیل کی جانب سے متعدد جنگی جرائم کو دستاویزی شکل دی، جن میں شہریوں، شہری سہولتوں پر براہ راست حملے اور اندھا دھند اور غیر متناسب حملے شامل ہیں۔
‘‘بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات نے 1.
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں جاری اسرائیلی اقدامات کے خلاف جب مظاہرین مغربی دارالحکومتوں میں سڑکوں پر نکل آئے تو ''دنیا کی حکومتیں انفرادی اور مشترکہ طور پر مظالم کو ختم کرنے کے لیے بامعنی اقدامات کرنے میں بار بار ناکام رہیں اور جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں بھی سست روی کا مظاہرہ کیا۔
‘‘دریں اثنا ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ فلسطینی علاقے مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور اس الزام کو دہرایا کہ اسرائیل 'اپارتھائیڈ‘ یعنی 'نسلی امتیاز کا نظام‘ استعمال کر رہا ہے۔
ایمنسی کے مطابق، ''مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کا نسلی امتیاز کا نظام تیزی سے پرتشدد ہوتا جا رہا ہے، جس میں اسرائیلی آباد کاروں کی جانب سے فلسطینی شہریوں کی غیر قانونی ہلاکتوں اور ریاستی حمایت یافتہ حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
‘‘ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے کی ڈائریکٹر حبہ مورائف نے، غزہ میں فلسطینیوں کو گزشتہ ایک سال کے دوران روزانہ کی بنیاد پر جس قسم کے مصائب برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اس کو روکنے میں مکمل طور پر نا اہل ہے یا سیاسی عزم کا فقدان ہے۔
فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد 52 ہزار سے زائدغزہ کی جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023ء کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی جانب سے اسرائیل کے اندر کیے جانے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا۔
اسرائیل کی سرکاری معلومات کی بنیاد پر اے ایف پی کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں 1,218 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔فلسطینی عسکریت پسندوں نے 251 افراد کو اغوا بھی کیا، جن میں سے 58 اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس حملے کے بعد اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی میں حماس کے خلاف جاری جنگ میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق کم از کم 52,243 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
ادارت: امتیاز احمد، مقبول ملک
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی فلسطینیوں کو کی جانب سے کے مطابق کے خلاف میں کہا غزہ کی گیا ہے بے گھر
پڑھیں:
فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
اسرائیلی جنگی جنون ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے، اسرائیلی فوج غزہ پٹی کے سب سے گنجان آباد شہر غزہ سٹی میں داخل ہوگئی ہے، 40 فیصد شہریوں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا گیا، رات بھر تباہی، بمباری اور گولہ باری میں مزید 90 فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت شدت اختیار کر گئی ہے۔ قابض اسرائیل کی جانب سے امریکا کی کھلی حمایت کے ساتھ غزہ میں جو جنگی جنون مسلط کیا گیا ہے، وہ اب محض ایک علاقائی تنازعہ نہیں رہا، بلکہ مکمل طور پر ایک منظم نسل کشی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
یہ نسل کشی صرف توپ و تفنگ، میزائل اور بمباری تک محدود نہیں، بلکہ اس کا دائرہ روزمرہ زندگی کی ہر بنیاد کو ختم کرنے تک پھیل چکا ہے۔ شہری آبادی، اسپتال، اسکول، پناہ گاہیں، پانی کے ذخائر، بجلی کی لائنیں، خوراک کے مراکز اور مواصلاتی نظام سب کچھ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔
بین الاقوامی برادری بارہا اپیلیں کر چکی ہے، عالمی عدالت انصاف واضح احکامات جاری کر چکی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہی ہیں، لیکن سب کچھ ایک ایسی دیوار سے ٹکرا رہا ہے جو طاقت، ہٹ دھرمی اور مفادات سے بنی ہوئی ہے۔
غزہ جو پہلے ہی دنیا کا سب سے بڑا کھلا قید خانہ تصور کیا جاتا تھا، اب ایک کھلا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، جنھیں زبردستی جنوبی علاقوں میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں پہلے سے وسائل کی شدید قلت ہے۔ اسرائیلی فوجی آپریشن اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اب غزہ شہر جیسے مرکزی علاقے بھی مکمل طور پر کھنڈر بن چکے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل فلسطینی قوم کو اجتماعی سزا دینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ، اس مقصد کے حصول کے لیے ریاستی طاقت کو نہایت منظم طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ دنیا کو ان جرائم کا علم نہیں۔
اقوام متحدہ کے مختلف ادارے، خود بین الاقوامی میڈیا، غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیمیں اور حال ہی میں اقوام متحدہ کے آزاد تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ نے واضح طور پر ان اقدامات کو نسل کشی قرار دیا ہے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام شواہد کے باوجود اسرائیل کو روکنے والا کون ہے؟ کیا عالمی قانون صرف کمزور ممالک پر لاگو ہوتا ہے؟ کیا انسانی حقوق صرف یورپ یا امریکا کے شہریوں کے لیے مخصوص ہیں؟
امریکا، جو اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے، نہ صرف فوجی اور مالی معاونت فراہم کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی تمام قراردادوں کو ویٹو بھی کرتا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ اور دیگر معتبر اداروں کی رپورٹس کے مطابق امریکا کی یہ شراکت محض حمایت تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ ممکنہ طور پر اسرائیل کے جنگی جرائم میں معاونت کے زمرے میں آتی ہے۔
امریکا کا دہرا معیار عالمی انصاف کے لیے ایک امتحان بن چکا ہے، اگر روس کی جانب سے یوکرین میں کی گئی فوجی کارروائی کو عالمی قانون کی خلاف ورزی کہا جا سکتا ہے، تو اسرائیل کے اقدامات کو اس سے بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ دوعملی عالمی امن کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
جرمنی، فرانس، برطانیہ جیسے ممالک نے ایک جانب یوکرین کے لیے ہمدردی کے سمندر بہائے، مگر فلسطین کی بربادی پر ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ یہی دہرا معیار دنیا کو یہ سبق دے رہا ہے کہ انسانی اقدار بھی مفادات کے تابع ہو چکی ہیں۔
غزہ کے بچوں کی زندگیاں، ان کے مستقبل، ان کے خواب اور ان کی امیدیں عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ادھر مسلم دنیا کی حالت یہ ہے کہ محض مذمتی بیانات اور دعاؤں تک محدود ہو گئی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم ہو یا عرب لیگ، ان کے اجلاسوں سے نہ مظلوم کی مدد ہوئی ہے اور نہ ہی ظالم کی جارحیت میں کوئی کمی آئی ہے۔
فلسطینی عوام کی مزاحمت کو اکثر عالمی میڈیا ’’ دہشت گردی‘‘ کے زمرے میں رکھ کر پیش کرتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی مقبوضہ قوم کو مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ فلسطینی اپنی بقا کے لیے لڑ رہے ہیں، وہ دہشت گرد نہیں بلکہ حریت پسند ہیں۔ ان کی جدوجہد کو تسلیم کیے بغیر نہ کوئی مذاکرات کامیاب ہوں گے، نہ کوئی قیام امن ممکن ہوگا۔
مغربی میڈیا اکثر اسرائیلی بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جب کہ فلسطینی عوام کی حالت زار کو یا تو نظر انداز کرتا ہے یا غیر واضح انداز میں پیش کرتا ہے۔ صحافیوں کی شہادتیں، میڈیا دفاتر پر بمباری، معلومات کی ترسیل پر قدغن، یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ سچ دنیا تک نہ پہنچ سکے۔
یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا اور غیر سرکاری صحافتی ذرایع ہی آجکل حقیقی تصاویر اور وڈیوز دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف نے جنوری میں واضح ہدایات دی تھیں کہ اسرائیل فوری طور پر ایسے تمام اقدامات بند کرے جن سے فلسطینی عوام کو نسل کشی کا خطرہ لاحق ہو اور یہ کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، مگر ان احکامات پر نہ کوئی عملدرآمد ہوا، نہ ہی عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر کوئی مؤثر دباؤ ڈالا گیا، اگر عدالتِ انصاف کے فیصلے بھی طاقتور ممالک کے مفادات کے تابع ہو جائیں تو پھر عالمی قانون اور انصاف کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے اور یہ ایک مثبت امر ہے، لیکن موجودہ حالات میں محض بیانات کافی نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ اقوام متحدہ میں ایک فعال اور قائدانہ کردار ادا کرے، اسلامی ممالک کو ایک لائحہ عمل پر متفق کرے، انسانی امداد فراہم کرے، اور عالمی عدالت میں اسرائیلی جرائم کے ثبوت پیش کرے۔ یہ صرف ایک سفارتی ضرورت نہیں بلکہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔
سات اکتوبر 2023سے قابض اسرائیل نے امریکا کی حمایت سے غزہ میں کھلی نسل کشی مسلط کر رکھی ہے جس میں قتل عام، قحط، تباہی اور جبری بے دخلی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ عالمی برادری کی اپیلوں اور عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔
یونیسف نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے لاکھوں بچے شدید صدموں کا شکار ہیں،غزہ میں بچوں کے درمیان ’دماغی جھلی کے خطرناک انفیکشن‘ کے بڑھتے ہوئے کیسز ایک نئی اور ہولناک انسانی تباہی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا سیکڑوں بچوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔
دراصل قابض اسرائیلی کی مسلط کردہ جنگ اور محاصرے کے نتیجے میں غزہ کی صحت کی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں۔ بچوں کے دودھ کی مسلسل قلت، شدید غذائی قلت اور قحط کے عالم میں بچوں کی کمزور ہوتی حالت نے صورتحال کو نہایت خوفناک بنا دیا ہے۔
بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی آبادی کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنا اور ان کی بنیادی زندگی کی سہولتوں کو نشانہ بنانا کھلی درندگی کا ثبوت ہے۔ یہ انسانی المیہ دنیا کی بدترین تباہ کاریوں میں شمار ہونے لگا ہے اور اب اس کے سب سے کمزور اور معصوم شکار، یعنی بچے موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کے ممالک لبنان، شام، یمن اور ایران پر بمباری کی ہے، اور امریکی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق اسرائیل نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں سب سے زیادہ بیس ہزار سے زائد حملے کیے۔
فلسطین کا مسئلہ محض ایک سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ انسانیت، انصاف اور ضمیر کا مسئلہ ہے۔ آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں لکھا جائے گا، اور کل ہماری نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ جب معصوم بچوں کو بموں سے اڑایا جا رہا تھا، جب مائیں اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائے رو رہی تھیں، جب انسانی زندگیاں ملبے کے نیچے دم توڑ رہی تھیں، تو تم کیا کر رہے تھے؟ کیا تم خاموش تماشائی بنے رہے؟ یا تم نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی؟
اگر اقوام عالم خاموش رہیں تو کل نہ صرف فلسطینی عوام مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے، بلکہ عالمی انصاف، انسانی ہمدردی اور اخلاقی سچائی کے تمام دعوے جھوٹ ثابت ہو جائیں گے۔ فلسطین کی پکار صرف ایک قوم کی نہیں، پوری انسانیت کی پکار ہے۔ اور جو اس پکار پر لبیک نہیں کہے گا، وہ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا، اقوام متحدہ، عالمی عدالت، انسانی حقوق کی تنظیمیں، آزاد میڈیا اور سب سے بڑھ کر عام عوام، سب کو متحد ہو کر اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔