بھارتی بزدلانہ کارروائی کا منہ توڑ جواب
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
بھارتی فضائیہ نے اپنی حدود سے پاکستان کے 6 مختلف مقامات پر حملے کیے جس میں 26شہری شہید اور 46 زخمی ہوئے۔ بھارت نے پاکستان میں مساجد کو نشانہ بنایا۔ بھارتی حملے کے جواب میں پاک فضائیہ نے بھارت کے 5 طیارے اور ڈرون مارگرائے، جن میں 3 رافیل طیارے، ایک مگ 29 اور ایک سخوئی طیارہ شامل تھا۔
بھارت کے بزدلانہ حملے پر اسلام آباد میں تعینات بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا گیا، جب کہ قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق بھارت کے ہر حملے کے جواب کا وقت، جگہ اور طریقہ خود منتخب کریں گے، مسلح افواج کو مکمل جوابی کارروائی کا اختیار دے دیا گیا۔
بھارتی جنگی جنون نے نہ صرف خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ حالیہ بھارتی جارحیت، جس میں پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فضائی حملے کیے گئے، ایک سنگین اشتعال انگیزی ہے۔
اس حملے کے جواب میں پاکستان کی فضائیہ نے بے مثال پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے تین رافیل طیارے مار گرائے، جو نہ صرف پاکستان کی عسکری تیاری کا ثبوت ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے لیے ایک انتباہ بھی ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن بھارت کے حق میں ہرگز یکطرفہ نہیں ہے۔ایسی صورت حال میں جب دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہوں، ایک چنگاری کروڑوں انسانوں کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔ ایک ایسی جنگ جس کے انجام کا تصور بھی دل دہلا دیتا ہے، کوئی معمولی خطرہ نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے سنگین چیلنج ہے۔
پاکستان کی جانب سے متعدد بار امن کی پیشکش کی گئی، مذاکرات کی دعوت دی گئی اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی، لیکن بھارت کی حکمران جماعت کی شدت پسندانہ سوچ نے خطے کو ایک بار پھر کشیدگی کی راہ پر دھکیل دیا ہے۔جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں صرف تباہی، بربادی اور انسانی المیے چھوڑ جاتی ہیں۔ یورپ کی دو عالمی جنگوں، مشرق وسطیٰ کے تنازعات اور افغانستان و عراق کی جنگوں نے ہمیں یہی سبق دیا ہے کہ بندوقوں کی گھن گرج کبھی انسانیت کی فلاح کی نوید نہیں لاتی۔ افسوس کہ بھارت نے ان تمام اسباق کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک خطرناک راہ اختیار کی ہے، جہاں ایک قدم کی لغزش خطے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
پاکستان، جو گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑ رہا ہے، نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ اس جنگ میں ہزاروں فوجی، پولیس اہلکار اور عام شہری شہید ہوئے۔ ملک کی معیشت، تعلیمی ادارے، اور معاشرتی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، لیکن اس کے باوجود پاکستان نے حوصلہ نہیں ہارا، اور دنیا کے لیے ایک مثال قائم کی کہ کس طرح ایک قوم دہشت گردی کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو سکتی ہے۔ اب جب کہ پاکستان ایک اور محاذ پر دفاع کے لیے آمادہ ہے، دنیا کو اس کا ساتھ دینا چاہیے، نہ کہ خاموش تماشائی بن کر محض بیانات تک محدود رہنا چاہیے۔
اس نازک وقت میں پاکستانی قوم کو یکجہتی، صبر اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ صرف حکومت نہیں، بلکہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ ملکی سلامتی، خود مختاری، اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے اپنی ذمے داریاں ادا کرے۔ میڈیا کا کردار کلیدی ہوگا، جو نہ صرف حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرے بلکہ افواہوں، بے بنیاد دعوؤں اور جذباتی نعروں سے اجتناب کرے۔ اہل قلم، اساتذہ، دانشور اور دینی رہنما قوم کو متحد رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی وابستگیوں، مسلکی اختلافات اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ایک قوم کی حیثیت سے کھڑے ہوں۔
بین الاقوامی برادری پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو اس خطرناک روش سے روکے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کو فوری مداخلت کرنی چاہیے تاکہ دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ امن کی بحالی صرف جنوبی ایشیا کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہے، کیونکہ کسی بھی ایٹمی تصادم کے اثرات سرحدوں سے ماورا ہوں گے۔ دنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف دو ممالک کا تنازعہ نہیں، بلکہ ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ عصرِ حاضر کی دنیا میں جب ترقی، روابط، تجارت، تعلیم، صحت اور سائنس کا دور دورہ ہے، افسوس کہ جنوبی ایشیا میں جنگ کے سائے ایک بار پھر منڈلا رہے ہیں۔
بھارت میں شدت پسند عناصر کی حوصلہ افزائی، اقلیتوں پر مظالم اور داخلی خلفشار نے ایک ایسے ماحول کو جنم دیا ہے جس میں جنگ کا نعرہ حکمرانوں کے لیے محض ایک سیاسی ہتھیار بن گیا ہے۔ داخلی ناکامیوں کو چھپانے، عوامی حمایت سمیٹنے اور الیکشن جیتنے کے لیے پاکستان دشمنی کو استعمال کرنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ سیاسی دیوالیہ پن کی علامت بھی ہے۔ عالمی ضمیر کو بیدار ہونا ہوگا اور بھارت کی اس روش کی مذمت کرنی ہوگی۔ بھارت کی جانب سے پانی کے وسائل کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالا جانا اور ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کو نشانہ بنانا عالمی سطح پر ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔
پاکستان کا پانی کا نظام، خاص طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت، بھارت کے ساتھ مختلف دریاؤں پر مشترکہ حقوق رکھتا ہے۔ بھارت کی جانب سے ان دریاؤں کے پانی کے بہاؤ میں کمی لانا یا ان کی سمت میں تبدیلی لانا پاکستان کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس بھی ان مسائل سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں صرف معاشی اور قدرتی وسائل کی کمیابی کے لیے نہیں، بلکہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد اور طاقت کا توازن بھی ہوسکتا ہے۔ اس کا براہ راست اثر نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات پر پڑتا ہے بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔یہ آبی جارحیت پاکستان کی معیشت، خاص طور پر زراعت اور توانائی کے شعبے کو متاثر کر رہی ہے۔
پاکستان کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس توانائی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے ان پراجیکٹس کو نشانہ بنانا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جو نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی کو روک رہا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو بھی بڑھا رہا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت، افغان امن عمل میں کلیدی کردار اور ایران و سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان ایک ذمے دار ریاست کے طور پر امن کے قیام کے لیے پرعزم ہے۔ مگر امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔
پاکستان کی افواج، انٹیلی جنس ادارے اور قوم ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج جب دشمن نے سرحد پر دستک دی ہے، تو پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہے۔اس وقت حکومت کو چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے، قومی اتفاق رائے پیدا کرے اور جنگی حالات میں عوامی جذبات کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی وضع کرے۔ معاشی استحکام، سفارتی محاذ پر متحرک حکمت عملی اور اندرونی استحکام ہی وہ عوامل ہیں جو پاکستان کو اس مشکل وقت میں سرخرو کر سکتے ہیں۔
عوام کو بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر ذمے داری کا مظاہرہ، افواج پاکستان کا حوصلہ بڑھانا اور افواہوں سے گریز کرنا آج ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ نوجوان نسل کو بھی چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں، سوشل پلیٹ فارمز اور دیگر ذرائع سے دنیا کو پاکستان کا موقف مؤثر انداز میں پہنچائے۔ یہی وقت ہے جب ہم نے دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے، مگر اپنی خود مختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ صرف فوجی محاذ پر نہیں لڑی جاتی، بلکہ معیشت، میڈیا، سفارت کاری اور عوامی حوصلے کا میدان بھی اہم ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانا، غیر ملکی سرمایہ کاری کو تحفظ دینا، اور دوست ممالک سے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
ہمیں چین، ترکی، سعودی عرب، ایران، روس، اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے روابط کو مزید فعال بنانا ہوگا تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کا مؤقف مضبوطی سے پیش کیا جا سکے۔اس ساری صورتحال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم امن کو اولین ترجیح دیں، مگر دفاع پر بھی کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ یہی وہ توازن ہے جو ایک ذمے دار قوم کو اپنانا چاہیے۔ بھارت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اس کی موجودہ روش نہ صرف خود اس کے لیے تباہی کا پیغام ہے بلکہ پورے خطے کو ایک غیر یقینی مستقبل کی جانب دھکیل سکتی ہے، اگر بھارت واقعی ایک بڑی جمہوریت ہے، تو اسے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ امن، مکالمے، اور بقائے باہمی میں یقین رکھتا ہے۔
آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ وقت امتحان کا ہے، پوری قوم کا۔ ہمیں ایک ہو کر دشمن کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے، جسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ ہمیں دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ ہم امن کے داعی ہیں، مگر اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ہمیں اقوام عالم کو جگانا ہے، تاکہ ایک نئی جنگ کی ہولناکی سے پہلے دنیا ہوش کے ناخن لے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہ پاکستان ایک پاکستان کا پاکستان کی پاکستان کے کی جانب سے بھارت کے بھارت کی چاہیے کہ کے لیے ا سکتی ہے ہے بلکہ دنیا کو کے ساتھ دیا ہے کو بھی
پڑھیں:
بھارتی بزدلانہ کارروائی: تعلیمی اداروں میں تعطیلات سے متعلق وزیر اطلاعات پنجاب کا بیان سامنے آگیا
وزیر اطلاعات پنجاب عظمی زاہد بخاری نے تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کی توسیع کے حوالے سے سوشل میڈیا پر زیرگردش نوٹی فکیشن کو جعلی قرار دے دیا۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسکولز کی چھٹیوں میں اضافے کا فی الحال فیصلہ نہیں ہوا، چھٹیوں میں اضافے کا زیر گردش نوٹی فکیشن جعلی ہے۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب میں اسکولز کی چھٹیوں میں اضافے کا فیصلہ صورتحال کے مطابق کیا جائے گا۔