Express News:
2025-11-06@04:39:23 GMT

بھارتی بزدلانہ کارروائی کا منہ توڑ جواب

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

بھارتی فضائیہ نے اپنی حدود سے پاکستان کے 6 مختلف مقامات پر حملے کیے جس میں 26شہری شہید اور 46 زخمی ہوئے۔ بھارت نے پاکستان میں مساجد کو نشانہ بنایا۔ بھارتی حملے کے جواب میں پاک فضائیہ نے بھارت کے 5 طیارے اور ڈرون مارگرائے، جن میں 3 رافیل طیارے، ایک مگ 29 اور ایک سخوئی طیارہ شامل تھا۔

بھارت کے بزدلانہ حملے پر اسلام آباد میں تعینات بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا گیا، جب کہ قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق بھارت کے ہر حملے کے جواب کا وقت، جگہ اور طریقہ خود منتخب کریں گے، مسلح افواج کو مکمل جوابی کارروائی کا اختیار دے دیا گیا۔

 بھارتی جنگی جنون نے نہ صرف خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ حالیہ بھارتی جارحیت، جس میں پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فضائی حملے کیے گئے، ایک سنگین اشتعال انگیزی ہے۔

اس حملے کے جواب میں پاکستان کی فضائیہ نے بے مثال پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے تین رافیل طیارے مار گرائے، جو نہ صرف پاکستان کی عسکری تیاری کا ثبوت ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے لیے ایک انتباہ بھی ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن بھارت کے حق میں ہرگز یکطرفہ نہیں ہے۔ایسی صورت حال میں جب دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہوں، ایک چنگاری کروڑوں انسانوں کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔ ایک ایسی جنگ جس کے انجام کا تصور بھی دل دہلا دیتا ہے، کوئی معمولی خطرہ نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے سنگین چیلنج ہے۔

پاکستان کی جانب سے متعدد بار امن کی پیشکش کی گئی، مذاکرات کی دعوت دی گئی اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی، لیکن بھارت کی حکمران جماعت کی شدت پسندانہ سوچ نے خطے کو ایک بار پھر کشیدگی کی راہ پر دھکیل دیا ہے۔جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں صرف تباہی، بربادی اور انسانی المیے چھوڑ جاتی ہیں۔ یورپ کی دو عالمی جنگوں، مشرق وسطیٰ کے تنازعات اور افغانستان و عراق کی جنگوں نے ہمیں یہی سبق دیا ہے کہ بندوقوں کی گھن گرج کبھی انسانیت کی فلاح کی نوید نہیں لاتی۔ افسوس کہ بھارت نے ان تمام اسباق کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک خطرناک راہ اختیار کی ہے، جہاں ایک قدم کی لغزش خطے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

پاکستان، جو گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑ رہا ہے، نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ اس جنگ میں ہزاروں فوجی، پولیس اہلکار اور عام شہری شہید ہوئے۔ ملک کی معیشت، تعلیمی ادارے، اور معاشرتی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، لیکن اس کے باوجود پاکستان نے حوصلہ نہیں ہارا، اور دنیا کے لیے ایک مثال قائم کی کہ کس طرح ایک قوم دہشت گردی کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو سکتی ہے۔ اب جب کہ پاکستان ایک اور محاذ پر دفاع کے لیے آمادہ ہے، دنیا کو اس کا ساتھ دینا چاہیے، نہ کہ خاموش تماشائی بن کر محض بیانات تک محدود رہنا چاہیے۔

اس نازک وقت میں پاکستانی قوم کو یکجہتی، صبر اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ صرف حکومت نہیں، بلکہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ ملکی سلامتی، خود مختاری، اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے اپنی ذمے داریاں ادا کرے۔ میڈیا کا کردار کلیدی ہوگا، جو نہ صرف حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرے بلکہ افواہوں، بے بنیاد دعوؤں اور جذباتی نعروں سے اجتناب کرے۔ اہل قلم، اساتذہ، دانشور اور دینی رہنما قوم کو متحد رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی وابستگیوں، مسلکی اختلافات اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ایک قوم کی حیثیت سے کھڑے ہوں۔

بین الاقوامی برادری پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو اس خطرناک روش سے روکے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کو فوری مداخلت کرنی چاہیے تاکہ دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ امن کی بحالی صرف جنوبی ایشیا کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہے، کیونکہ کسی بھی ایٹمی تصادم کے اثرات سرحدوں سے ماورا ہوں گے۔ دنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف دو ممالک کا تنازعہ نہیں، بلکہ ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ عصرِ حاضر کی دنیا میں جب ترقی، روابط، تجارت، تعلیم، صحت اور سائنس کا دور دورہ ہے، افسوس کہ جنوبی ایشیا میں جنگ کے سائے ایک بار پھر منڈلا رہے ہیں۔

بھارت میں شدت پسند عناصر کی حوصلہ افزائی، اقلیتوں پر مظالم اور داخلی خلفشار نے ایک ایسے ماحول کو جنم دیا ہے جس میں جنگ کا نعرہ حکمرانوں کے لیے محض ایک سیاسی ہتھیار بن گیا ہے۔ داخلی ناکامیوں کو چھپانے، عوامی حمایت سمیٹنے اور الیکشن جیتنے کے لیے پاکستان دشمنی کو استعمال کرنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ سیاسی دیوالیہ پن کی علامت بھی ہے۔ عالمی ضمیر کو بیدار ہونا ہوگا اور بھارت کی اس روش کی مذمت کرنی ہوگی۔ بھارت کی جانب سے پانی کے وسائل کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالا جانا اور ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کو نشانہ بنانا عالمی سطح پر ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔

پاکستان کا پانی کا نظام، خاص طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت، بھارت کے ساتھ مختلف دریاؤں پر مشترکہ حقوق رکھتا ہے۔ بھارت کی جانب سے ان دریاؤں کے پانی کے بہاؤ میں کمی لانا یا ان کی سمت میں تبدیلی لانا پاکستان کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس بھی ان مسائل سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں صرف معاشی اور قدرتی وسائل کی کمیابی کے لیے نہیں، بلکہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد اور طاقت کا توازن بھی ہوسکتا ہے۔ اس کا براہ راست اثر نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات پر پڑتا ہے بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔یہ آبی جارحیت پاکستان کی معیشت، خاص طور پر زراعت اور توانائی کے شعبے کو متاثر کر رہی ہے۔

پاکستان کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس توانائی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے ان پراجیکٹس کو نشانہ بنانا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جو نہ صرف پاکستان کی اقتصادی ترقی کو روک رہا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو بھی بڑھا رہا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت، افغان امن عمل میں کلیدی کردار اور ایران و سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان ایک ذمے دار ریاست کے طور پر امن کے قیام کے لیے پرعزم ہے۔ مگر امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

پاکستان کی افواج، انٹیلی جنس ادارے اور قوم ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج جب دشمن نے سرحد پر دستک دی ہے، تو پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہے۔اس وقت حکومت کو چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے، قومی اتفاق رائے پیدا کرے اور جنگی حالات میں عوامی جذبات کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی وضع کرے۔ معاشی استحکام، سفارتی محاذ پر متحرک حکمت عملی اور اندرونی استحکام ہی وہ عوامل ہیں جو پاکستان کو اس مشکل وقت میں سرخرو کر سکتے ہیں۔

عوام کو بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر ذمے داری کا مظاہرہ، افواج پاکستان کا حوصلہ بڑھانا اور افواہوں سے گریز کرنا آج ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ نوجوان نسل کو بھی چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں، سوشل پلیٹ فارمز اور دیگر ذرائع سے دنیا کو پاکستان کا موقف مؤثر انداز میں پہنچائے۔ یہی وقت ہے جب ہم نے دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے، مگر اپنی خود مختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ صرف فوجی محاذ پر نہیں لڑی جاتی، بلکہ معیشت، میڈیا، سفارت کاری اور عوامی حوصلے کا میدان بھی اہم ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانا، غیر ملکی سرمایہ کاری کو تحفظ دینا، اور دوست ممالک سے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

ہمیں چین، ترکی، سعودی عرب، ایران، روس، اور دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے روابط کو مزید فعال بنانا ہوگا تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کا مؤقف مضبوطی سے پیش کیا جا سکے۔اس ساری صورتحال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم امن کو اولین ترجیح دیں، مگر دفاع پر بھی کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ یہی وہ توازن ہے جو ایک ذمے دار قوم کو اپنانا چاہیے۔ بھارت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اس کی موجودہ روش نہ صرف خود اس کے لیے تباہی کا پیغام ہے بلکہ پورے خطے کو ایک غیر یقینی مستقبل کی جانب دھکیل سکتی ہے، اگر بھارت واقعی ایک بڑی جمہوریت ہے، تو اسے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ امن، مکالمے، اور بقائے باہمی میں یقین رکھتا ہے۔

آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ وقت امتحان کا ہے، پوری قوم کا۔ ہمیں ایک ہو کر دشمن کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے، جسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ ہمیں دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ ہم امن کے داعی ہیں، مگر اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ہمیں اقوام عالم کو جگانا ہے، تاکہ ایک نئی جنگ کی ہولناکی سے پہلے دنیا ہوش کے ناخن لے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہ پاکستان ایک پاکستان کا پاکستان کی پاکستان کے کی جانب سے بھارت کے بھارت کی چاہیے کہ کے لیے ا سکتی ہے ہے بلکہ دنیا کو کے ساتھ دیا ہے کو بھی

پڑھیں:

پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

جس لمحے کسی قوم کا پرچم خلا کی وسعتوں میں لہرانے لگے ، اس لمحے تاریخ ایک نئے باب کا آغاز لکھتی ہے ۔ پاکستان کے لیے وہ لمحہ تب آیا جب اسپارکو نے چین کے خلائی مرکز سے پہلا ”ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ” HS-1خلا میں روانہ کیا۔ یہ صرف ایک تکنیکی پیشرفت نہیں بلکہ خود اعتمادی، سائنسی بیداری اور قومی وقار کا اظہار ہے ۔ صدیوں سے زمینی حدود میں الجھا ہوا انسان جب اپنے علم اور تخلیقی قوت سے فلک کی سرحدوں تک جا پہنچتا ہے تو اس کی قومیں بھی خوابوں کی نئی تعبیر لکھتی ہیں۔ ”ویژن 2047” کے تحت لانچ ہونے والا یہ سیٹلائٹ دراصل اس پیغام کا اعلان ہے کہ پاکستان اب زمین کا مشاہد بن کر نہیں، بلکہ خلا کا محقق بن کر اُبھرا ہے ۔جب کسی قوم کا خواب زمین کی سرحدوں سے نکل کر خلا کی وسعتوں میں جا پہنچے تو یہ صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ اس کے فکری ارتقاء اور ترقی یافتہ مستقبل کا اعلان بھی ہوتا ہے ۔ پاکستان کے لیے 19 اکتوبر 2025 کا دن اسی نوعیت کا تاریخی موڑ بن گیا، جب سپارکو نے چین کے تعاون سے اپنا پہلا ”ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ” HS-1خلا میں بھیجا۔ یہ مشن چین کے شمال مغربی علاقے ”جیوکوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر” سے کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا اور اسے پاکستان کے ”ویژن 2047” کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ یہ منصوبہ محض ایک سائنسی تجربہ نہیں بلکہ ایک ایسے خواب کی عملی تعبیر ہے جس کا آغاز 1961 میں اُس وقت ہوا تھا جب پاکستان نے خلائی تحقیق کے لیے سپارکو کی بنیاد رکھی تھی۔ہائپرا سپیکٹرل سیٹلائٹ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جو زمین کی سطح کی ہر پرت کا تجزیہ سینکڑوں اسپیکٹرل بینڈز میں کرتی ہے ۔ اس کے ذریعے کسی علاقے کی مٹی، فصل، پانی، معدنی وسائل اور ماحولیاتی تغیرات کا غیر معمولی درستی کے ساتھ مشاہدہ ممکن ہوتا ہے ۔ ”HS-1” سیٹلائٹ میں نصب سینسر زمین سے واپس آنے والی روشنی کے مختلف طول موج (wavelengths) کو اس باریکی سے ریکارڈ کرتے ہیں کہ انسانی آنکھ سے پوشیدہ فرق بھی نمایاں ہو جاتا ہے ۔ مثلاً کسی کھیت میں بیماری پھیلنے سے پہلے ہی فصل کے رنگ میں معمولی تبدیلی کا سراغ لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح پانی کے ذخائر میں آلودگی یا سمندری پودوں کی کیفیت کا مشاہدہ بھی اس ٹیکنالوجی سے ممکن ہے ۔ یہ صلاحیت پاکستان کے لیے زراعت، ماحولیاتی تحفظ، قدرتی وسائل کے درست استعمال، اور شہری منصوبہ بندی میں انقلاب برپا کر سکتی ہے ۔
اسپارکو کے مطابق ”HS-1”سیٹلائٹ پاکستان کے خلائی پروگرام میں وہ مرحلہ ہے جہاں سے مقامی ڈیٹا کی خود مختار فراہمی ممکن ہوگی۔ اب تک ملک کو زمین کے مشاہدے کے لیے غیر ملکی سیٹلائٹس پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ اس سے نہ صرف معلومات تک رسائی محدود تھی بلکہ سلامتی کے کئی پہلوؤں پر بھی اثرات مرتب ہوتے تھے ۔ اب یہ سیٹلائٹ پاکستان کو اپنے موسمیاتی پیٹرنز، زمینی ساخت اور زرعی پیداوار کے متعلق براہ راست ڈیٹا فراہم کرے گا۔ ماہرین کے مطابق اس سے موسمیاتی تبدیلیوں کی پیشگی آگاہی میں بھی مدد ملے گی، جو پاکستان جیسے ملک کے لیے نہایت اہم ہے جہاں 2022 کے تباہ کن سیلاب نے ماحولیاتی خطرات کی سنگینی کو واضح کیا۔
یہ لانچ چین اور پاکستان کے دیرینہ سائنسی تعاون کا عملی مظہر بھی ہے ۔ چین کی نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن (CNSA) کے اشتراک سے کی جانے والی یہ لانچ نہ صرف دوستی کی علامت ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں خلائی تحقیق کے نئے امکانات کو بھی روشن کرتی ہے ۔ چین نے اس سے قبل بھی پاکستان کے مواصلاتی سیٹلائٹ ”پاک سیٹ-1 آر” کو 2011 میں لانچ کرنے میں مدد دی تھی، مگر ”HS-1”پہلی مرتبہ ایسا منصوبہ ہے جو جدید ”ہائپر ا سپیکٹرل امیجنگ” ٹیکنالوجی سے لیس ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی دنیا میں صرف چند ممالک کے پاس موجود ہے جن میں امریکہ، چین، فرانس، بھارت اور جاپان شامل ہیں۔ پاکستان اب ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے ، جو اپنی زمین کا سائنسی و تکنیکی سطح پر تجزیہ خود کر سکتے ہیں۔
”ویژن 2047” کے تحت پاکستان نے جو حکمتِ عملی مرتب کی ہے ، اس کا مقصد ملک کو اگلی دو دہائیوں میں خود کفیل سائنسی طاقت میں تبدیل کرنا ہے ۔ اس ویژن کے اہم نکات میں قومی خلائی پالیسی، مصنوعی ذہانت، ری موٹ سینسنگ، موسمیاتی تحقیق، اور دفاعی ٹیکنالوجی کا امتزاج شامل ہے ۔ ”HS-1”ان تمام ستونوں کو مضبوط بنانے والا پہلا قدم ہے ۔ ماہرین کے مطابق یہ سیٹلائٹ 600 کلومیٹر کی بلندی پر مدار میں گردش کرے گا اور روزانہ پاکستان کے مختلف حصوں کی سینکڑوں تصاویر لے گا۔ اس کے ذریعے زمین کی سطح کے مختلف حصوں سے حاصل شدہ معلومات کو ایک ڈیجیٹل نقشے کی صورت میں ترتیب دیا جائے گا، جو پالیسی سازی اور سائنسی تحقیق میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔
زراعت پاکستان کی معیشت کا ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ اندازہ ہے کہ ملک کی کل آبادی کا 38٪ براہ راست اسی شعبے سے وابستہ ہے ۔ مگر بدلتے موسمی حالات، پانی کی قلت اور غیر مستحکم زرعی پالیسیوں نے کسانوں کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ ”HS-1” کی مدد سے فصلوں کی افزائش، آبپاشی کے نظام، اور زمین کی زرخیزی کے بارے میں حقیقی وقت ڈیٹا حاصل کیا جا سکے گا۔ اس ڈیٹا سے حکومت بہتر زرعی پالیسیاں بنا سکے گی، جبکہ کسانوں کو بروقت معلومات ملنے سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہو گا۔اسی طرح قدرتی آفات کی پیشگوئی میں بھی یہ سیٹلائٹ ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے ۔ ہائپر سپیکٹرل امیجنگ کی مدد سے زمین کی پرتوں میں ہونے والی معمولی تبدیلیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جس سے لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب یا خشک سالی جیسے خطرات کا قبل از وقت اندازہ لگایا جا سکے گا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں پہاڑی تودے گرنے اور دریاؤں کی سطح میں اچانک اضافے جیسے واقعات کی نگرانی ”HS-1”سے زیادہ مؤثر طریقے سے ممکن ہوگی۔
اس سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل ہونے والا ڈیٹا ماحولیاتی پالیسیوں میں بھی بنیادی کردار ادا کرے گا۔ صنعتی آلودگی، جنگلات کے خاتمے اور شہری پھیلاؤ کے اثرات کا درست اندازہ صرف خلائی تصویروں سے لگایا جا سکتا ہے ۔
پاکستان میں جنگلات کی تیزی سے ختم ہوتی ہوئی شرح ایک سنگین ماحولیاتی المیہ بنتی جا رہی ہے ۔ مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں کے مطابق ملک میں ہر سال تقریباً 27,000 ہیکٹر جنگلات صفحئہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، جو زمینی توازن، ماحولیاتی تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کے لیے شدید خطرہ ہے ۔ اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اُن ممالک میں شامل
ہے جہاں جنگلات کا رقبہ کل زمینی علاقے کے محض 5.1% کے قریب رہ گیا ہے ، جب کہ عالمی اوسط تقریباً 31٪ ہے ۔ یہ تشویشناک صورتِ حال نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے بلکہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ، بارشوں کے نظام میں بگاڑ، زمین کے کٹاؤ اور حیوانی و نباتاتی زندگی کے خاتمے جیسے مسائل کو بھی جنم دے رہی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ملک کے کئی علاقے تیزی سے بنجر ہو رہے ہیں اور مقامی آبادی کو پانی کی قلت، زرعی زرخیزی میں کمی اور موسمیاتی تغیرات کے منفی اثرات کا سامنا ہے ۔ جنگلات کی کٹائی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان میں انسانی لالچ، غیر قانونی لکڑی کا کاروبار، زمینوں کی رہائشی و صنعتی تبدیلی، اور آگ لگنے کے واقعات اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر فوری سطح پر قومی سطح پر جنگلات کے تحفظ، شجرکاری کے فروغ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے چند دہائیوں میں پاکستان کا ماحولیاتی نقشہ ناقابلِ واپسی نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے ۔
”HS-1”ان تبدیلیوں کی مسلسل نگرانی کر کے حکومت کو علاقوں کی نشاندہی میں مدد دے گا جہاں فوری اقدامات درکار ہوں۔یہ منصوبہ پاکستان کے نوجوان سائنس دانوں اور انجینئرز کے لیے بھی ایک محرک قوت بن سکتا ہے ۔ سپارکو کی قیادت نے واضح کیا ہے کہ ملک میں خلائی علوم کے فروغ کے لیے نئے تحقیقی مراکز اور تربیتی پروگرام شروع کیے جائیں گے ۔ تعلیمی اداروں میں مصنوعی ذہانت، ریموٹ سینسنگ، اور ڈیٹا تجزیہ سے متعلق کورسز متعارف کرانے کا منصوبہ ہے تاکہ ”ویژن 2047” صرف ایک حکومتی دستاویز نہ رہے بلکہ قومی جذبے کی صورت اختیار کر لے ۔
تاہم اس عظیم پیشرفت کے ساتھ چند چیلنجز بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ فنڈنگ اور تکنیکی خودمختاری کا ہے ۔ پاکستان کو اس شعبے میں چین پر انحصار کم کرنے کے لیے اپنی اندرونی سائنسی بنیاد مضبوط کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ خلائی ڈیٹا کے سیکیورٹی پہلو بھی اہم ہیں کیونکہ ہائپرا سپیکٹرل ڈیٹا حساس نوعیت کا ہوتا ہے اور اس کا غلط استعمال ممکن ہے ۔ اس لیے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے قومی سطح پر ضابطے (regulations) مرتب کرنا ناگزیر ہیں۔
اب جبکہ ”HS-1” پاکستان کے مدار میں گردش کر رہا ہے ، تو ضروری ہے کہ اس کے ثمرات صرف اعداد و شمار تک محدود نہ رہیں بلکہ عوامی فلاح میں ڈھل جائیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو چاہیئے کہ وہ حاصل شدہ معلومات کو زرعی، ماحولیاتی، شہری اور تعلیمی شعبوں میں عملی منصوبہ بندی سے جوڑے ۔ کسانوں کے لیے موبائل ایپس، یونیورسٹیوں کے لیے تحقیقی ڈیٹا بیس، اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے لیے فوری معلوماتی نظام تشکیل دیا جائے تاکہ یہ ٹیکنالوجی براہ راست عوامی زندگی میں اثر انداز ہو۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہ محض ایک سیٹلائٹ لانچ نہیں بلکہ اپنی علمی خودمختاری کی بازیافت ہے ۔ جب ایک ترقی پذیر ملک اپنی زمین، فضا اور ماحول کی نگرانی کے لیے خود ساختہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے لگتا ہے تو یہ اس کے فکری عزم کی دلیل ہوتا ہے ۔”HS-1” دراصل اس اعتماد کی علامت ہے کہ ہم علم، تعاون اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ وہ روشنی ہے جو نہ صرف آسمان میں چمک رہی ہے بلکہ پاکستان کے نوجوان ذہنوں میں امید کا نیا چراغ روشن کر رہی ہے ، اور یہی وہ سمت ہے جسے ”ویژن 2047” نے نشان زد کیا ہے ایک خود مختار، سائنسی اور مضبوط پاکستان کی سمت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی تسلط غیر قانونی، کشمیری جبر کے سامنے نہیں جھکے، حمایت جاری رکھیں گے: وزیراعظم
  • 6 نومبر، کشمیریوں کی نسل کشی کا سیاہ ترین دن
  • پاکستان سے روابط توڑنے میں مفاد نہیں، بات چیت واحد راستہ، سابق بھارتی وزیر
  • بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری
  • بابا گورونانک کا 556 واں جنم دن، بھارت سے 2400 سکھ یاتری پاکستان پہنچ گئے
  • سمندر گھنائو نے کھیل پر ھارت کو شدید جواب ملے گا : ڈی جی آئی ایس پی آر 
  • پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ
  • پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب
  • بھارت گہرے سمندر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، ترجمان پاک فوج
  • بھارت گہرے سمندر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری کر رہا ہے، ترجمان پاک فوج