Daily Ausaf:
2025-06-23@05:28:02 GMT

پولیس نظام میں بہتری کی کوشش

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

پاسبان فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چوکیدار،نگہبان یا حفاظت کرنے والے کے ہیں۔ یہ لفظ پولیس کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ زیر نظر تحریر پولیس سے متعلق ہے۔ پولیس کی غرض و غایت،فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟ آج اس پر بات کریں گے۔ یہ 1667 ء کی بات ہے جب پولیس کا پہلا منظم ادارہ کنگ لوٹس کی حکومت نے یورپ کے سب سے بڑے شہر پیرس میں تشکیل دیا۔ ادارے کے قیام کا مقصد عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور جرائم کی بیخ کنی تھا۔ پولیس نے بھی ادارے کی تشکیل کے بعد اپنے کردار کو خوب نبھایا۔ یہ پولیس کے اولین فرائض میں سے ایک ہے کہ اپنے علاقے کی حدود میں نظم و ضبط برقرار رکھے۔ دیگر محکموں کی طرح پولیس میں بھی بہت سے درجے ہیں۔ سب سے نچلا درجہ کانسٹیبل کا ہے۔ اس کے بعد ہیڈ کانسٹیبل، پھر درجہ بہ درجہ اسسٹنٹ انسپکٹر،سب انسپکٹر،اور انسپکٹر۔ اعلیٰ عہدیدارن میں ایس پی، ایس ایس پی، ڈی آئی جی اور آئی جی کے رینک شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ ادارے کی جانب سے تفویض کردہ امور اور فرائض کے ذمہ دار ہیں اور احسن طریقے سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ پولیس کا محکمہ وفاقی، صوبائی اور علاقائی سطح پر مختلف حصوں میں تقسیم ہے جو امن و امان، جرائم کی روک تھام، عوام کے جان و مال کے تحفظ اور سرکاری محصولات کی وصولی کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں پولیس کے محکمے کا قیام 1861 ء میں عمل میں آیا ۔ مغل دور تھا تو پولیس اسٹیشن کوتوال اور پولیس انسپکٹر داروغہ کہلاتے تھے۔ جبکہ دیہاتوں میں چوکیدارانہ نظام تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو 17اگست 1860 ء میں ایک پولیس ایکٹ تشکیل دیا جس کی روشنی میں یہاں پولیس کا محکمہ قائم ہوا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان میں پولیس کا آغاز 1948ء میں ہو گیا تھا چونکہ اس وقت پاکستان مغربی اور مشرقی دو حصوں میں تقسیم تھا۔ اس لئے مغربی اور مشرقی حصوں میں انسپکٹر جنرل آف پولیس بھی الگ الگ تھے۔ لیکن 1971 ء میں مشرقی حصے کے الگ ہونے اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ون یونٹ بھی ٹوٹ گیا۔ اور مغربی حصہ جو مغربی پاکستان کہلاتا تھا، انتظامی طور پر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے نام سے چار صوبوں میں تقسیم ہو گیا۔ آبادی کے لحاظ سے پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے۔ جبکہ رقبہ کے اعتبار سے بھی یہ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ صوبے کا سب سے بڑا شہر لاہور ہے جو پنجاب کا دارالحکومت بھی ہے۔ اس کے 41 اضلاع ہیں۔ جن میں لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، ملتان، سرگودھا، سیالکوٹ، بہاولپور، بہاونگر اور گجرات، صوبے کے قابل ذکر اضلاع ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی مادری زبان اردو ہے لیکن پنجاب میں پنجابی بولی جاتی ہے۔ اس کا اپنا کلچر اور ثقافت کے اپنے رنگ ہیں۔ پنجاب کے لوگ بڑے فراخ دل ہیں۔ دیگر صوبوں کا کوئی بھی فرد یہاں بستا ہے یا روزگار کے لئے آتا ہے تو اسے عزت دی جاتی ہے اور سینے سے لگایا جاتا ہے۔ انتظامی طور پر ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہے۔ جبکہ ڈویژنل سطح پر کمشنر صاحبان فرائض انجام دیتے ہیں۔ امن و امان کی بحالی اور جرائم کی بیخ کنی کے لیئے پنجاب پولیس انسپکٹر جنرل آف پولیس کی قیادت میں اپنے فرائض انجام دیتی ہے۔ پنجاب پولیس قانون پر عملدر آمد کرانے کا پابند ادارہ ہے جو جرائم کی روک تھام اور امن و امان کی بحالی کو یقینی بناتا ہے۔ نیز یہ کہ پولیس ایکٹ 1861ء اور 2002 ء کے تحت صوبہ میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کر کے فوجداری معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار (1,80,000) ہے جن میں افسران بھی شامل ہیں۔ پنجاب پولیس کا دائرہ اختیار صرف پنجاب تک محدود ہے۔ پنجاب پولیس کا صدر دفتر لاہور میں ہے جو سنٹرل پولیس آفس میں واقع ہے۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس یہیں براجمان ہوتے ہیں اور صوبے کے 41 اضلاع کا نظم و نسق چلاتے ہیں۔ ان دنوں صوبے کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر عثمان انور ہیں جو اس عہدے کے لئے 23 جنوری 2023 ء کو نگران حکومت کے دور میں تعینات ہوئے۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے اس عہدے کے لئے ان کا تقرر کیا۔تاہم جب مریم نواز نے منتخب وزیراعلیٰ کی حیثیت سے پنجاب کا عنانِ اقتدار سنبھالا تو ڈاکٹر عثمان انور کی پیشہ ورانہ کارکردگی پر انہیں اس منصب پر برقرار رکھا۔ حالانکہ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی نئی حکومت آتی ہے تو اپنی پسند اور مرضی کا آئی جی مقرر کرتی ہے۔ ڈاکٹر عثمان انور دھیمے مزاج کے بہت ہی شفیق اور ملنسار ایسے پولیس افسر ہیں جن پر ان کی سپاہ کو بھی بہت ناز ہے۔ ڈاکٹر عثمان انور جب سے آئی جی پنجاب کیعہدہ پر براجمان ہوئے ہیں، ماتحت ملازمین کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ سنٹرل پولیس آفس میں انہوں نے پولیس ملازمین لاور ان کے اہل خانہ کے مسائل سے آگاہی کے لیے ملاقاتوں کا بھی ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کسی کو علاج کی ضرہرت ہے۔ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے یا بچیوں کی شادی۔ وہ ہر مسئلے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اعلیٰ کارکردگی کے حامل افسران اور اہلکاروں کی حوصلہ افزائی بھی اپنے پاس بلا کر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عثمان انور میڈیا کے بھی بہت قریب ہیں۔
ڈاکٹر عثمان انور دن رات کوشاں ہیں کہ پنجاب پولیس کو ایسی مثالی فورس بنا دیں کہ دیگر صوبے جس کی مثال دیں۔پولیس میں بہت سی کوتاہیاں اور لغزشیں بھی ہیں۔ دادرسی کے لیئے تھانے جانے والوں کو بیشتر اوقات انصاف نہیں ملتا اور دادرسی نہیں ہوتی۔ جائز ایف آئی آر کا اندراج بھی اکثر مشکل بنا دیا جاتا ہے۔لوگوں کو تھانوں میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ، پولیس سے جو شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ان کے ازالے کے لئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بہت سے شکایات ڈیسک بنائے ہیں اور ہیلپ لائنز قائم کی ہیں۔جن کا لوگ فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ عوام کو ڈاکٹر عثمان انور جیسے پولیس افسران ہی کی ضرورت ہے۔ایسے افسران کے ہونے سے نہ صرف پولیس کا محکمہ سدھر سکتا ہے بلکہ اس کی نیک نامی بھی ہو سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انسپکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر عثمان انور پنجاب پولیس جرائم کی پولیس کا کے بعد کے لئے

پڑھیں:

پاکستانی ورنا نظام

کتابوں میں پڑھا تھا کہ ورنا نظام صرف ہندوستان تک محدود تھا۔ پر ہمیں کیا خبر تھی کہ اس کا ری میک پاکستانی بجٹ ورژن کی صورت میں ہمیں تقریباً ہر سال ہی براہِ راست دیکھنے کو ملے گا۔

پڑھا یہ تھا کہ ہندو مت میں ورنا نظام کے نام سے سماجی طبقات (ورناس) کا ایک قدیمی نظام ہوتا تھا جس کے مطابق قدیمی ہندو معاشرہ چار بنیادی درجات (ورناس) میں تقسیم تھا۔ پہلے نمبر پر برہمن ورگ تھے جس میں شامل برہمن سب سے اعلیٰ درجے میں شمار ہوتے تھے ان کا کام مذہبی رسومات ادا کرنا، تعلیم دینا اور ویدوں کی تعلیم دینا بھی تھا یعنی یہ پجاری اور استاد کے ساتھ ساتھ مشیر ہوتے تھے۔

ورناس میں دوسرے درجے پر کشترِیَ ورگ تھے یہ حکمران، سپاہی (جنگجو) طبقہ تھا۔ ان کا کام حکومت کرنا، راج کا تحفظ کرنا اور اپنے اور برہمن کے بنائے ہوئے قانون و عدل کو نافذ کرنا تھا۔

تیسرے درجے پر وَیشیَ ورگ ہوتے تھے یہ تاجر، کسان اور کاروباری لوگ ہوتے تھے۔ ان کا کام تجارت، زراعت اور مویشی پروری تھا۔ چوتھے درجے پر شودر ورگ سمجھے جاتے تھے یہ سب سے نچلا درجہ سمجھا جاتا تھا ان کا کام خدمت کرنا اور دوسرے طبقات کے لیے مزدوری و معاونت فراہم کرنا تھا۔

ذات پات پر مبنی ورنا نظام کے بعد ایک انتہائی نچلے درجے پر اچھوت یا ہریجن ہوتے تھے انھیں بہت نیچ سمجھا جاتا تھا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ جدید ہندوستان میں انھیں دلت کہا جاتا ہے۔

اب اخبارات میں پڑھا کہ پاکستان میں سینیٹ چیئرمین، اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں 630 فیصد اضافہ، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، اراکین قومی اسمبلی، اراکین سینیٹ کی تنخواہوں میں تقریباً تین سو فیصد اضافہ، بجٹ سے پہلے کر دیا گیا پھر وفاقی اور صوبائی بجٹ میں وفاقی اور صوبائی افسران و ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کر دیا گیا جب کہ ٹیکس دینے والے پرائیویٹ ملازمین کی آمدنی پر اور غریب عوام پر اتنا ٹیکس لاد دیا کہ ان کی سانسیں بس چل رہی ہیں۔

اب یہاں پر بھارتی ورنا سسٹم اور پاکستان میں اس مراعات سسٹم میں مماثلت تلاش نہ کی جائے۔ پاکستان میں اعلیٰ طبقے یا پھر ملک کے چھ سو مخصوص خاندانوں تک بجٹ سے پہلے ہی اعلیٰ ترین ثمرات پہنچا دیے گیے ہیں۔

بجٹ میں اکیس بائیس گریڈ کے افسران کی مراعات میں اضافہ کیا گیا جن کو پہلے کی مراعات کی موجودگی میں اس کی ویسے بھی ضرورت نہیں تھی۔ سترہ گریڈ سے بیس گریڈ تک کے افسران کی اکثریت اب رینکرز جیسی لوٹ مار کی سوچ رکھتے ہیں اور قومی خزانے و قوم کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

بجٹ میں ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی پرائیوٹ اداروں کے تنخواہ دار ملازمین ہوتے ہیں جن سے ان کی مرضی کے بغیر ہی ہر ماہ ایٹ سورس ٹیکس کاٹا جاتا ہے اور سب سے زیادہ پریشان بھی اسی طبقے کو کیا جاتا ہے۔اب اس طبقے کو فائلر قرار دے کر اس میں سے نان فائلر نیا طبقہ بنایا جا رہا ہے جس میں سفید پوش اور پندرہ سے بیس ہزار کی تنخواہ پر گزارہ کرنے والے شامل ہیں جن کے ساتھ جو زیادتی ہو رہی ہے اس پر، اُن کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچنے والے مجسمے بنے ہوئے ہیں ،ان کی آواز اپنی تنخواہوں میں تین/ تین سو فیصد تک اضافہ کرانے کے لیے ہی بلند ہوتی ہے جب کہ حکومت اپنی ہی جانب سے کم سے کم مقرر کردہ تنخواہوں کے معاملے میں آج تک اپنی رٹ ہی نہیں منوا سکی ہے کیونکہ یہ مسئلہ پاکستانی ورنا نظام سے باہر کے طبقے کا مسئلہ ہے یعنی ہندو ورنا نظام کتابوں میں رہ گیا یا پھر اب پاکستانی بجٹ یا پھر نظام میں زندہ ہے بس نام بدلے ہیں۔

یاد رہے کہ بھارت میں ورنا بطور ایک رسمی و پیدائشی طبقات کا نظام آج کسی قانونی ساخت میں موجود نہیں اور اس کے حوالے سے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ ماضی کی چیز ہے لیکن ’’ذات پر مبنی شناخت‘‘ اور اس کے اثرات اب بھی بھارتی سماج اور سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تو اسی طرح پاکستان میں تین فیصد اشرافیہ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور طاقتور حلقوں میں شامل بااختیار، قانون و آئین سے بالا، روایتی یا وراثتی طور پر طاقتور و مراعات یافتہ، پیدائشی حق حکمرانی کی طاقت رکھنے والے خواص، پاکستانی معاشرے میں سرفہرست رہنے کے لیے ہمیشہ اقدامات کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پاکستان میں دلت (غریب عوام) بجٹ میں پستے رہیں۔

پاکستان میں ورنا نظام کو اگر تنخواہ، تعلق، طاقت اور ٹیکس سے ناپا جائے تو پھر خلاصہ کچھ یوں ہو سکتا ہے۔ ہر چیز پر قابض طاقتور اشرافیہ برہمن، اختیار و اسمبلی کارڈ والے کشترِیَ، اہم سرکاری عہدے والے ویشا اور غریب عوام سے جو ٹیکس کے نام پر خون پسینے کی کمائی نکلوائے وہ شودر جب کہ جو ہر چیز پر بلاجواز ٹیکس پر ٹیکس بھرے وہ پاکستانی شاید دلت ہو سکتے ہیں۔

دلتوں کے شاید کوئی حقوق نہیں ہوتے‘ وہ تمام تر خدمات اور قربانی کے باوجود معاشرے کا پسماندہ ترین حصہ ہی رہتے ہیں۔ انصاف کے فیصلے بھی ان کے حق میں نہیں ہوتے‘ یہ دلت نما عوام ظلم کے تمام ضابطوں کو نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتے اور خاموش رہتے ہیں۔یعنی ہندوستان کے ورنا نظام کو صدیوں پہلے قانون نے بظاہر ختم کر دیا لیکن پاکستان کا مراعاتی نظام اور اس سے فیض یافتہ طبقہ، کسی قانون سے خوفزدہ نہیں، کیونکہ قانون اکثر ان کے قدموں میں ہوتا ہے اس لیے تجویز یہ ہے کہ اگلی مردم شماری میں’’اشرافیہ‘‘ اور ’’عوام‘‘ کو الگ الگ ذات کے طور پر شمار کرایا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • ڈاکٹر فاروق ستار کی سوشل میڈیا پر خود سے منسوب خط کی تردید
  • کے الیکٹرک میٹھادر کے تاجروں کا معاشی قتل عام کررہی ہے‘ عثمان سعید
  • خواتین ماہرین امراضِ پیٹ و جگر کی کمی، خواتین مریضوں کو مرد ڈاکٹروں سے معائنے میں ہچکچاہٹ کا سامنا
  • بوسنیا ،ایران اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان
  • پاکستانی یونیورسٹیز میں طلبہ کی تعداد 13 فیصد کم، وجوہات کیا؟
  • پاکستانی ورنا نظام
  • وزیراعظم کا مولانا فضل الرحمان کے بیٹے پر حملہ کرنیوالے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم
  • ڈپٹی کمشنرانلینڈ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کی میرپور میں بڑی کاروائی
  • ورلڈ بینک کے تعاون اور سماجی بہتری کیلئے سرمایہ کی فراہمی پر شکریہ ادا کرتے ہیں، مریم اورنگزیب
  • حکومت گرانے کی کوشش کی جا رہی،کسی بھی وقت اسمبلی تحلیل کرسکتاہوں:وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا