پاسبان فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چوکیدار،نگہبان یا حفاظت کرنے والے کے ہیں۔ یہ لفظ پولیس کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ زیر نظر تحریر پولیس سے متعلق ہے۔ پولیس کی غرض و غایت،فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟ آج اس پر بات کریں گے۔ یہ 1667 ء کی بات ہے جب پولیس کا پہلا منظم ادارہ کنگ لوٹس کی حکومت نے یورپ کے سب سے بڑے شہر پیرس میں تشکیل دیا۔ ادارے کے قیام کا مقصد عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور جرائم کی بیخ کنی تھا۔ پولیس نے بھی ادارے کی تشکیل کے بعد اپنے کردار کو خوب نبھایا۔ یہ پولیس کے اولین فرائض میں سے ایک ہے کہ اپنے علاقے کی حدود میں نظم و ضبط برقرار رکھے۔ دیگر محکموں کی طرح پولیس میں بھی بہت سے درجے ہیں۔ سب سے نچلا درجہ کانسٹیبل کا ہے۔ اس کے بعد ہیڈ کانسٹیبل، پھر درجہ بہ درجہ اسسٹنٹ انسپکٹر،سب انسپکٹر،اور انسپکٹر۔ اعلیٰ عہدیدارن میں ایس پی، ایس ایس پی، ڈی آئی جی اور آئی جی کے رینک شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ ادارے کی جانب سے تفویض کردہ امور اور فرائض کے ذمہ دار ہیں اور احسن طریقے سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ پولیس کا محکمہ وفاقی، صوبائی اور علاقائی سطح پر مختلف حصوں میں تقسیم ہے جو امن و امان، جرائم کی روک تھام، عوام کے جان و مال کے تحفظ اور سرکاری محصولات کی وصولی کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں پولیس کے محکمے کا قیام 1861 ء میں عمل میں آیا ۔ مغل دور تھا تو پولیس اسٹیشن کوتوال اور پولیس انسپکٹر داروغہ کہلاتے تھے۔ جبکہ دیہاتوں میں چوکیدارانہ نظام تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو 17اگست 1860 ء میں ایک پولیس ایکٹ تشکیل دیا جس کی روشنی میں یہاں پولیس کا محکمہ قائم ہوا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان میں پولیس کا آغاز 1948ء میں ہو گیا تھا چونکہ اس وقت پاکستان مغربی اور مشرقی دو حصوں میں تقسیم تھا۔ اس لئے مغربی اور مشرقی حصوں میں انسپکٹر جنرل آف پولیس بھی الگ الگ تھے۔ لیکن 1971 ء میں مشرقی حصے کے الگ ہونے اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ون یونٹ بھی ٹوٹ گیا۔ اور مغربی حصہ جو مغربی پاکستان کہلاتا تھا، انتظامی طور پر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے نام سے چار صوبوں میں تقسیم ہو گیا۔ آبادی کے لحاظ سے پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے۔ جبکہ رقبہ کے اعتبار سے بھی یہ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ صوبے کا سب سے بڑا شہر لاہور ہے جو پنجاب کا دارالحکومت بھی ہے۔ اس کے 41 اضلاع ہیں۔ جن میں لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، ملتان، سرگودھا، سیالکوٹ، بہاولپور، بہاونگر اور گجرات، صوبے کے قابل ذکر اضلاع ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی مادری زبان اردو ہے لیکن پنجاب میں پنجابی بولی جاتی ہے۔ اس کا اپنا کلچر اور ثقافت کے اپنے رنگ ہیں۔ پنجاب کے لوگ بڑے فراخ دل ہیں۔ دیگر صوبوں کا کوئی بھی فرد یہاں بستا ہے یا روزگار کے لئے آتا ہے تو اسے عزت دی جاتی ہے اور سینے سے لگایا جاتا ہے۔ انتظامی طور پر ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہے۔ جبکہ ڈویژنل سطح پر کمشنر صاحبان فرائض انجام دیتے ہیں۔ امن و امان کی بحالی اور جرائم کی بیخ کنی کے لیئے پنجاب پولیس انسپکٹر جنرل آف پولیس کی قیادت میں اپنے فرائض انجام دیتی ہے۔ پنجاب پولیس قانون پر عملدر آمد کرانے کا پابند ادارہ ہے جو جرائم کی روک تھام اور امن و امان کی بحالی کو یقینی بناتا ہے۔ نیز یہ کہ پولیس ایکٹ 1861ء اور 2002 ء کے تحت صوبہ میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کر کے فوجداری معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار (1,80,000) ہے جن میں افسران بھی شامل ہیں۔ پنجاب پولیس کا دائرہ اختیار صرف پنجاب تک محدود ہے۔ پنجاب پولیس کا صدر دفتر لاہور میں ہے جو سنٹرل پولیس آفس میں واقع ہے۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس یہیں براجمان ہوتے ہیں اور صوبے کے 41 اضلاع کا نظم و نسق چلاتے ہیں۔ ان دنوں صوبے کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر عثمان انور ہیں جو اس عہدے کے لئے 23 جنوری 2023 ء کو نگران حکومت کے دور میں تعینات ہوئے۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے اس عہدے کے لئے ان کا تقرر کیا۔تاہم جب مریم نواز نے منتخب وزیراعلیٰ کی حیثیت سے پنجاب کا عنانِ اقتدار سنبھالا تو ڈاکٹر عثمان انور کی پیشہ ورانہ کارکردگی پر انہیں اس منصب پر برقرار رکھا۔ حالانکہ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی نئی حکومت آتی ہے تو اپنی پسند اور مرضی کا آئی جی مقرر کرتی ہے۔ ڈاکٹر عثمان انور دھیمے مزاج کے بہت ہی شفیق اور ملنسار ایسے پولیس افسر ہیں جن پر ان کی سپاہ کو بھی بہت ناز ہے۔ ڈاکٹر عثمان انور جب سے آئی جی پنجاب کیعہدہ پر براجمان ہوئے ہیں، ماتحت ملازمین کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ سنٹرل پولیس آفس میں انہوں نے پولیس ملازمین لاور ان کے اہل خانہ کے مسائل سے آگاہی کے لیے ملاقاتوں کا بھی ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کسی کو علاج کی ضرہرت ہے۔ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے یا بچیوں کی شادی۔ وہ ہر مسئلے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اعلیٰ کارکردگی کے حامل افسران اور اہلکاروں کی حوصلہ افزائی بھی اپنے پاس بلا کر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عثمان انور میڈیا کے بھی بہت قریب ہیں۔
ڈاکٹر عثمان انور دن رات کوشاں ہیں کہ پنجاب پولیس کو ایسی مثالی فورس بنا دیں کہ دیگر صوبے جس کی مثال دیں۔پولیس میں بہت سی کوتاہیاں اور لغزشیں بھی ہیں۔ دادرسی کے لیئے تھانے جانے والوں کو بیشتر اوقات انصاف نہیں ملتا اور دادرسی نہیں ہوتی۔ جائز ایف آئی آر کا اندراج بھی اکثر مشکل بنا دیا جاتا ہے۔لوگوں کو تھانوں میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ، پولیس سے جو شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ان کے ازالے کے لئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بہت سے شکایات ڈیسک بنائے ہیں اور ہیلپ لائنز قائم کی ہیں۔جن کا لوگ فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ عوام کو ڈاکٹر عثمان انور جیسے پولیس افسران ہی کی ضرورت ہے۔ایسے افسران کے ہونے سے نہ صرف پولیس کا محکمہ سدھر سکتا ہے بلکہ اس کی نیک نامی بھی ہو سکتی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انسپکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر عثمان انور پنجاب پولیس جرائم کی پولیس کا کے بعد کے لئے
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا دن؛ 2 بہنوں نورین خانم اور ڈاکٹر عظمی کو اجازت مل گئی
راولپنڈی(نیوز ڈیسک)بانی پی ٹی آئی کی دو بہنوں نورین خانم اور ڈاکٹرعظمی کو ملاقات کی اجازت مل گئی، دونوں بہنیں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب کے ہمراہ ان کی گاڑی میں جیل کی جانب روانہ ہو گئیں۔ اڈیالہ جیل کے باہر پولیس نے بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان، بیرسٹر گوہر اور دیگر رہنماؤں کو ناکے پر روک لیا۔
راولپنڈی میں اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کو ملاقات کی اجازت مل گئی، دونوں بہنیں نورین خانم اور ڈاکٹر عظمی عمر ایوب کے ہمراہ جیل کی جانب روانہ ہو گئیں۔ ان کے کزن قاسم زمان بھی ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل روانہ ہوئے۔
اس سے قبل قاسم زمان کا کہنا تھا کہ جیل انتظامیہ نے مجھے ملاقات کی اجازت نہیں دی، ڈپٹی سپریٹنڈنٹ نے بہنوں کو ملاقات کے لئے آگے بھیج دیا، بانی پی ٹی آئی کی اس سے پہلے اہلیہ سے ملاقات جاری تھی۔
بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل کے باہر پولیس نے بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان، بیرسٹر گوہر اور دیگر رہنماؤں کو ناکے پر روک لیا۔
علیمہ خان اور کارکنوں نے گورکھ پور ناکہ پر ٹریفک بلاک کر دی اور احتجاج کیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے اڈیالہ جیل کی جانب پیش قدمی کی، جس کے بعد کارکن اور پولیس آمنے سامنے آ گئے، پولیس نے متعدد کارکنان کو حراست میں لے لیا۔
سابق وزیراعظم آزاد کشمیرعبد القیوم نیازی کو بھی اڈیالہ جیل جانے سے روک دیا گیا۔ عبدالقیوم نیازی کو دہیگل ناکے پر پولیس نے اڈیالہ جیل جانے سے روکا۔
مزیدپڑھیں:وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا اہم ترین اجلاس کل طلب کرلیا