سوشل اسٹریمنگ،آن لائن سروسز کی ویب سائٹس کے لیے کارپوریٹ ای میل کا استعمال خطرناک ہوسکتا ہے: کیسپرسکی
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 مئی2025ء) کیسپرسکی ڈیجیٹل فٹ پرنٹ انٹیلیجنس کی ایک تحقیق کے مطابق، ملازمین آن لائن خریداری کی سائٹس اور سوشل میڈیا پر ذاتی اکاؤنٹس کے لیے رجسٹر کرنے کے لیے کارپوریٹ ای میلز کا بھی استعمال کر سکتے ہیں، جس سے اکاؤنٹ کی چوری اور کارپوریٹ سیکیورٹی کی خلاف ورزیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کیسپرسکی ماہرین نے تین مشہور تفریحی پلیٹ فارمز:روبلوکس، ڈسکارڈ اور نیٹ فلکس کے لیے 2019 اور 2024 کے درمیان ڈارک ویب پر لیک ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔
تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اوسطاً 7 فیصد صارفین جن کے اکاؤنٹس لیک ہوئے تھے، ان پلیٹ فارمز پر کارپوریٹ ای میل ایڈریس کا استعمال کرتے ہوئے رجسٹرڈ تھے۔کیسپرسکی ڈیجیٹل فٹ پرنٹ انٹیلی جنس کے ایکسپرٹ سرجی سیربیل کا کہنا ہے کہ '' دفتری ای میل کے ساتھ ذاتی استعمال کے لیے مختلف سروسز پر رجسٹر کرنا بہترین عمل نہیں ہے۔(جاری ہے)
سب سے پہلے، اگر آپ نوکریاں بدلتے ہیں تو آپ ان اکاؤنٹس تک رسائی سے محروم ہو سکتے ہیں۔
دوسرا، یہ آپ اور آپ کی کمپنی دونوں کے لیے حفاظتی خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر آپ کے پاس ورڈز مختلف سروسز میں ایک متوقع پیٹرن کی پیروی کرتے ہیں - یہ آپ کے دفتری اکاؤنٹ سمیت دیگر اکاؤنٹس پر سائبر حملے کیے جانے کے امکانات کو بڑھاتا ہے،'' کیسپرسکی ماہرین نے یہ بھی پایا کہ بینک کے ملازمین نے عام طور پر اپنے دفتری ای میل سٹریمنگ سروسز، آن لائن خریدٓڑٰ اور سوشل نیٹ ورکس پر رجسٹر کیے ہیں۔ کچھ معاملات میں، کارپوریٹ ای میلز کو گیمنگ پلیٹ فارمز اور بالغ مواد کی ویب سائٹس پر لاگ ان کے طور پر بھی استعمال کیا گیا تھا۔ اس مطالعہ کو کرنے کے لیے، ماہرین نے بینکنگ سیکٹر کی 50 کمپنیوں کا ایک نمونہ مرتب کیا اور ڈارک ویب پر لیک ہونے والے ڈیٹا کی جانچ کی، جس میں ان کمپنیوں کے کارپوریٹ ڈومینز سے منسلک افراد کی شناخت کی گئی جو مقبول پلیٹ فارمز کی پانچ اقسام میں ہیں۔اگر آپ کو انفوسٹیلرز کے ذریعے ڈیٹا لیک ہونے کا سامنا ہوتا ہے، تو سمجھوتہ شدہ اکاؤنٹ کے پاس ورڈز کو تبدیل کریں اور ان اکاؤنٹس سے وابستہ مشکوک سرگرمی کی نگرانی کریں۔کمپنیوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ڈارک ویب مارکیٹس کی نگرانی کریں تاکہ سمجھوتہ کیے گئے اکاؤنٹس کا پتہ لگایا جا سکے اس سے پہلے کہ وہ صارفین یا ملازمین کے لیے خطرہ ہوں۔ ممکنہ حملہ آوروں کی شناخت کرنے ، اور حفاظتی اقدامات کو بروقت نافذ کرنے کے لیے کیسپرسکی ڈیجیٹل فٹ پرنٹ انٹیلیجنس کا فائدہ اٹھائیں۔ ایک انٹرپرائز کے طور پر، ملازمین کے لیے حفاظتی آگاہی کا پروگرام لاگو کریں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پلیٹ فارمز کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی یونٹ بیاسی سو کیا بلا ہے ( حصہ چہارم )
متعدد عسکری ماہرین غزہ کی نسل کشی میں اہداف کے انتخاب کے عمل میں مصنوعی ذہانت (اے آئی ) پر عجلت آمیز اور کسی حد تک اندھا دھند انحصار سے خاصے تشویش زدہ ہیں۔مگر یہ تشویش بوتل سے کسی جن کو نکالنے کے بعد جیسی ہے کہ جس کی آزادی کے نتائج کو کسی بھی ایجاد کے منفی و مثبت پہلوؤوں کو عقلِ سلیم کے ترازو میں پیشگی نہیں تولا جاتا اور پھر اپنی ہی پیشانی پیٹ لی جاتی ہے۔
جیسے نوبیل انعام کے بانی الفرڈ نوبیل کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ جو ڈائنامائٹ کانکنی سمیت صنعتی رفتار تیز کرنے کے لیے متعارف کروا رہا ہے۔یہ ایجاد بہت جلد ہلاکت خیزی کا استعارہ بن جائے گی یا اوپن ہائمر کو بم بناتے وقت کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ایٹم کی طاقت بنی نوع انسان کی فلاح سے زیادہ نسلِ آدم کو اپنی بقا کے خوف میں مبتلا کر دے گی۔
کچھ دریافتوں اور ایجادات کے بارے میں تحقیق کو اگرچہ انسانی فطرت کے تاریک پہلوؤں کے بارے میں ٹھوس خدشات کے پیشِ نظر عارضی طور پر آگے بڑھانے سے فی الحال روک لیا گیا ہے۔ جیسے سٹم سیل ریسرچ اور کلوننگ کے تجربات۔مگر تابکہ ؟
اے آئی کی ترقی و فروغ پر بھی روائیتی خوش نیتی ظاہر کی جا رہی ہے۔مگر اے آئی روزمرہ زندگی میں بے بہا فوائد کے امکانات کھولنے کے ساتھ ساتھ ہلاکت خیزی کی جانب بھی تیز رفتاری سے لے جا سکتی ہے ؟ پچیس تیس برس پہلے تک کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔وہ الگ بات کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد بالخصوص مواصلاتی و صنعتی شعبوں میں جو تیز رفتار ترقی ہوئی اس کا جنم عسکری تجربہ گاہوں میں غلبہ پانے کی نئیت سے ہی ہوا۔ ان میں سے کئی ایجادات کو غیر فوجی شعبوں نے زیادہ تیزی سے بہتر انداز میں اپنانے میں کامیابی بھی حاصل کی۔اس کی اہم مثال اسٹیل اور پیٹرو کیمیکل انڈسٹری کی مصنوعات بالخصوص پلاسٹک کی ترقی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ صنعتی پیمانے پر انسانی نسل کشی میں بیسویں صدی کے نازی بازی لے گئے مگر اکیسویں صدی میں اے آئی کی مدد سے پہلی بھیانک نسل کشی میں نازیوں کے ڈسے اسرائیل نے ’’ گرو ‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
اب یہ خوف لاحق ہے کہ اگر اے آئی کے عسکری استعمال کو حدود و قیود میں جکڑنے کے لیے جنگی آداب سے متعلق جنیوا کنونشنز اور نسل کشی کے کنونشن کی طرز پر بین الاقوامی پروٹوکولز نافذ نہیں ہوتے تو اے آئی کا بے لگام من مانا استعمال انسانی تہذیب کو بلاامتیاز خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
مگر جب تک کوئی متفقہ بین الاقوامی ضابطہ طے ہو گا اور اس پر عمل درآمد ہو گا تب تک طاقت ور ممالک اپنے اپنے تسلطی اہداف حاصل کر چکے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اسرائیل ، امریکا اور دیگر ریاستوں کے ہاتھوں نئے ضوابط کی ویسی ہی گت بن سکتی ہے جو اس وقت نافذ کنونشنز اور عالمی اداروں کی بن رہی ہے۔اب تو یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ نوع انسانی کو ماحولیات کی ابتری پہلے ختم کرے گی یا اے آئی کا بے لگام استعمال بازی لے جائے گا۔
فی الحال اے آئی اسلحے کے استعمال اور پھیلاؤ سے متعلق کسی بین الاقوامی عسکری کنونشن کا حصہ نہیں ۔یعنی تیر سے میزائل تک تو اسلحہ شمار ہوتا ہے کیونکہ ان کے استعمال کا ذمے دار انسان کو قرار دیا گیا ہے۔لیکن جو آلاتِ حرب مکمل طور پر اے آئی کے تابع اور آزاد فیصلے کرنے کے اہل ہیں یا ہوں گے۔ انھیں کیسے کسی عدالت میں بطور ملزم پیش کر کے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟یہ وہ موشگافی ہے جو اس وقت بین الاقوامی قوانین کے ماہرین سلٹانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
کیا اے آئی کو دوہرے استعمال ( فوجی و غیر فوجی ) کی فہرست میں ڈال کر اس پر موجودہ کنونشنز اور ضوابط کا اطلاق کیا جا سکتا ہے ؟ یہ سوال بھی قانون دانوں کو چکرا رہا ہے۔
ویسے بھی زیادہ تر بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کی تیاری کے عمل میں اب تک مغربی دنیا زیادہ فعال اور موثر رہی ہے اور سب سے زیادہ خود کو یا حاشیہ برداروں کو ان قوانین کی زد سے بچاتی بھی آئی ہے۔ مثلاً دوسری عالمی جنگ کے بعد نورمبرگ اور ٹوکیو ٹریبونلز میں شکست خوردہ جرمنوں اور جاپانیوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا یا پھر کمپوچیا میں ستر کی دہائی میں کھیمر روج حکومت کے عہدیداروں کو نسل کشی کرنے یا پھر نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے چند سرب مجرموں کو جنگی جرائم ثابت ہونے پر سزا ہوئی۔
جب کہ جاپان پر ایٹم بم گرانے کا حکم دینے والے ہیری ٹرومین اور اقوامِ متحدہ کے منہ پر تھوک کے دو ہزار تین میں عراق کو تاراج کرنے والے جارج بش کے بارے میں کسی نے سوچا تک نہیں کہ ان پر بھی نسل کشی کی فردِ جرم عائد ہو سکتی ہے۔
انیس سو بیاسی میں صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی کیمپوں میں قتلِ عام کا ذمے دار اس وقت کے وزیرِ دفاع ایریل شیرون کو اگرچہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے قرار دیا۔مگر کسی نے اس فیصلے کی بنیاد پر عالمی عدالت میں شیرون کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کرنے کی کوشش نہیں کی۔جس نیتن یاہو پر بین الاقوامی عدالت نے باقاعدہ فردِ جرم عائد بھی کی وہ آج بھی دندناتا پھر رہا ہے۔جب کہ سوڈان کے سابق آمر احمد البشیر اور سیرالیون اور روانڈا میں نسل کشی کے مجرموں کے گریبان تک انٹرنیشنل کرائم کورٹ کا ہاتھ آسانی سے پہنچ گیا۔
غزہ میں اے آئی کی مدد سے نسل کشی کے بارے میں اسرائیلی موقف ہے کہ اے آئی صرف ڈیٹا جمع کرنے اور اس کے تجزیے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اس ڈیٹا کے حتمی استعمال کا فیصلہ کوئی ذمے دار پروفیشنل کمانڈر ہی کرتا ہے۔مگر آزادانہ صحافتی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ تر اسرائیلی کمانڈر اے آئی کے تجزیے کو حرفِ آخر سمجھ کر اس پر فیصلے کی رسمی مہر لگا دیتے ہیں۔
اسرائیل کا یہ بھی دعوی ہے کہ اے آئی کا استعمال محض اہداف کی درست نشاندہی کے لیے ہوتا ہے تاکہ بے قصور انسانوں کا کم سے کم جانی اتلاف ہو۔ غزہ میں اسرائیلی دفاعی ذرایع کے مطابق لگ بھگ چار ہزار حماسی جنگجو ایسے تھے یا ہیں کہ جن کا زندہ رہنا اسرائیل کی سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں۔ تو پھر ان چار ہزار کے علاوہ وہ پچاس ہزار عورتیں ، بچے اور عام شہری کون تھے جو مار ڈالے گئے اور جو سوا لاکھ شہری زخمی ہوئے وہ کیسے نشانہ بن گئے ؟
اسرائیلی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل اویوو کوشاوی نے سات اکتوبر دو ہزار تئیس کی حماس کی مسلح کارروائی سے چھ ماہ قبل ایک اسرائیلی ویب سائٹ وائی نیٹ کو انٹرویو میں کہا کہ ’’ بظاہر اے آئی ٹیکنالوجی عسکری مقاصد کے لیے بطور ڈیٹا ٹول استعمال ہو رہی ہے مگر ہم لاشعوری طور پر اس ٹیکنالوجی کے رفتہ رفتہ اتنے اسیر ہوتے چلے جائیں گے کہ وہ ہمارے فیصلہ ساز دماغوں پر مکمل قبضہ کر لے گی اور ہمیں احساس تک نہ ہو گا ۔‘‘
جنرل اویوو کوشاوی کی اس پیش گوئی کی گواہی آج غزہ کے کھنڈرات سے اٹھنے والا دھواں دے رہا ہے۔
اسرائیل کے پشتیبان امریکا کی سینیٹ میں بائیڈن انتظامیہ کے آخری دنوں میں سینیٹر پیٹر ویلش نے ’’ آرٹیفشل انٹیلی جینس ویپنز اکاؤنٹیبلٹی اینڈ رسک ایولیوشن بل ‘‘ کا مسودہ پیش کیا۔یہ مسودہ آج تک امریکی سینیٹ میں کہیں پڑا خاک چاٹ رہا ہے۔
چونکہ یہ اسرائیل ہے جسے ساتوں خون معاف ہیں لہٰذا بے گناہ شہریوں کو اے آئی کی تباہ کن زد سے بچانے کا معاملہ ’’ مشن کی تکمیل ‘‘ تک فی الحال پاؤں پسار کے سو سکتا ہے۔ (اختتام)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)