صہیونی عقوبت خانہ رکیفت، جہاں فلسطینی اسیران پر آخری درجے کے تشدد کا شکار ہیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
فلسطینی مزاحمتی ذرائع کے مطابق رکیفت، الرملہ، سديہ تيمان، عناتوت، عوفر اور منشہ جیسے مقامات کو قابض اسرائیل نے خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارے کے اسیران کو جسمانی اور ذہنی اذیت دینے کے لیے قائم یا دوبارہ فعال کیا ہے۔ ان میں رکیفت سب سے زیادہ خوفناک اور مظالم کا مرکز ہے۔ قابض اسرائیل نے اپریل 2025ء تک صرف ان 1747 غزہ کے باشندوں کو "غیر قانونی جنگجو” قرار دے کر جیلوں میں قید رکھا ہے جنہیں جیل سسٹم میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ درجنوں اب بھی فوجی کیمپوں میں غائب ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی اسیران کے امور کے کمیشن اور کلب برائے فلسطینی اسیران نے "رکیفت” میں قید غزہ کے قیدیوں کی پہلی باضابطہ قانونی ملاقات کے بعد چشم کشا حقائق بیان کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس زیرزمین قید خانے میں قیدی مکمل تاریکی میں رکھے جاتے ہیں، وہ وہاں سورج دیکھ سکتے اور نہ نماز ادا کرنے دی جاتی ہے اور نہ ہی بات چیت کی اجازت ہوتی ہے، بس تاریکی ہے، تشدد ہے، چیخیں، سسکیاں اور آہیں ہیں، ہر کمرے میں تین قیدی بند ہوتے ہیں، جن میں سے ایک فرش پر سوتا ہے، "فورہ” یعنی کال کوٹھڑی سے تھوڑی دیر باہر نکالنے کی اجازت دو دن بعد جاتی ہے، مگر ہاتھ بندھے ہوتے ہیں، اس دوران بھی ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔
تفتیش، تشدد، اور تذلیل:
اسیر (س.
ایک دوسرے قیدی (خ.د) نے بتایا کہ عسقلان میں 30 دن کے دوران اسے کئی بار تفتیشی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، زمین پر گرا کر مارا گیا، انگلیاں توڑنے کی پالیسی اختیار کی گئی اور آج وہ جلدی بیماری "جرب” میں مبتلا ہے۔ دیگر اسیران کی طرح اس کو بھی ہاتھ باندھ کر اذیت دی جاتی ہے۔ تشدد سے سینے میں شدید تکلیف کی شکایت کرنے پر مزید مارا پیٹا گیا۔
اسیر (ع.غ) نے انکشاف کیا کہ گرفتاری کے وقت وہ زخمی تھے، مگر کسی قسم کا علاج نہیں کیا گیا۔ وہ شدید بخار میں مبتلا رہے، دل کی بیماری کے باعث کئی بار بیہوش ہوئے، مگر قابض فوج صرف اتنا جاننے پر اکتفا کرتی کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔ ابتدائی دنوں میں انہیں کپڑے اور کمبل تک میسر نہ تھے، اور شدید سردی میں "برکس” میں رکھا گیا۔ 15 دن مسلسل ہاتھ بندھ کر اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر رکھا گیا۔ رکیفت میں ہر کمرے میں کیمرے لگے ہیں، عبادت سے روکا جاتا ہے، باہر نکالنے کے دوران بے رحمی سے مارا جاتا ہے، اور گالم گلوچ ،سب وشتم و تذلیل معمول کی بات ہے۔
اسیر (و.ن) نے بتایا کہ ان پر تشدد کے دوران اسکی انگلی توڑ دی گئی، جو کہ قابض اسرائیلی جیل انتظامیہ کی طرف سے اب ایک”سزا” بن چکی ہے۔ قیدیوں کو فرش پر گھٹنوں کے بل بٹھا کر رکھا جاتا ہے، کپڑے پرانے اور پھٹے ہوتے ہیں۔ اندرونی لباس کی سہولت نہیں، اور مسلسل تشدد و توہین کا سامنا رہتا ہے۔ سورج کا کوئی تصور نہیں۔ دن رات کی تمیز صرف اس وقت ہو پاتی ہے جب صبح کے وقت فرش اور کمبل کھینچ لیے جاتے ہیں۔
فلسطینی مزاحمتی ذرائع کے مطابق رکیفت، الرملہ، سديہ تيمان، عناتوت، عوفر اور منشہ جیسے مقامات کو قابض اسرائیل نے خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارے کے اسیران کو جسمانی اور ذہنی اذیت دینے کے لیے قائم یا دوبارہ فعال کیا ہے۔ ان میں رکیفت سب سے زیادہ خوفناک اور مظالم کا مرکز ہے۔ قابض اسرائیل نے اپریل 2025ء تک صرف ان 1747 غزہ کے باشندوں کو "غیر قانونی جنگجو” قرار دے کر جیلوں میں قید رکھا ہے جنہیں جیل سسٹم میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ درجنوں اب بھی فوجی کیمپوں میں غائب ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قابض اسرائیل نے کے مطابق جاتا ہے
پڑھیں:
یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
دنیا کے کیلنڈر پرکچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں صرف یاد نہیں دلاتے، جھنجھوڑتے ہیں۔ بیس نومبر بھی ایسا ہی دن ہے، بچوں کا دن۔ یہ دن خوشی کے نعروں، رنگ برنگے غباروں اور مسکراہٹوں کے ساتھ منایا جاتا ہے مگر ہم اپنے گرد دیکھیں، تو یہ مسکراہٹیں کتنی ناپید ہیں۔ یہ دن اس لیے منایا جاتا ہے کہ ہم بچوں کے حقوق ان کی معصومیت اور ان کے مستقبل کی حفاظت کریں مگر کیا واقعی ہم ایسا کر رہے ہیں؟
۱۹۵۴ء میں اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ ہر سال نومبر کی 20 تاریخ کو عالمی یومِ اطفال منایا جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ دنیا کے بچے صرف کسی ملک یا طبقے کی ذمے داری نہ رہیں بلکہ پوری انسانیت کی امانت ہوں۔
اسی دن ۱۹۵۹ء میں بچوں کے حقوق کا اعلامیہ منظور ہوا اور ۱۹۸۹ء میں اقوامِ متحدہ نے بچوں کے حقوق کا عالمی کنونشن اپنایا، وہ کنونشن جو آج تقریباً ہر ملک نے دستخط کیا ہے مگر جس کی روح اب تک بے سکونی میں تڑپ رہی ہے۔
یہ دنیا بچوں کی امانت ہے ہمارے پاس مگرکیا ہم نے اس امانت کا حق ادا کیا ہے؟ جب بھی یہ دن قریب آتا ہے، میرے ذہن میں ایک شور اٹھتا ہے۔ وہ بچوں کی ہنسی نہیں، ان کی چیخیں ہیں۔ مجھے غزہ کے بچے یاد آ جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں اب اسکول کے خواب نہیں دھماکوں کی چمک ہے۔ جن کے بستے ملبے تلے دب گئے اور جن کی انگلیاں قلم کے بجائے اینٹوں کے ٹکڑے تھامے ہوئے ہیں۔
مجھے سوڈان کے بچے یاد آ جاتے ہیں جو اپنے والدین سے بچھڑ گئے جو جنگ اور بھوک کے درمیان زندگی کی کشمکش میں ہیں۔ ان سب کے چہروں پر ایک سوال لکھا ہے کیا ہمارا بچپن اتنا سستا ہے کہ طاقتوروں کی لڑائیوں میں برباد کر دیا جائے؟
پھر میں اپنے وطن کی طرف دیکھتی ہوں، جہاں کروڑوں بچے اب بھی اسکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے۔ یونیسیف کے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً ۲۳ ملین بچے (یعنی پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تقریباً ۴۴ فیصد بچے) تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ یہ دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں سے ایک ہے۔
بلوچستان میں تقریبا 78 فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ سندھ میں غربت زدہ خاندانوں کے بچوں میں سے نصف اسکول سے باہر ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف نمبر نہیں، یہ گواہی ہیں کہ ہمارا نظام طبقاتی بنیادوں پر بچوں کو تقسیم کر چکا ہے۔
کچھ بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں آئی پیڈ پر پڑھتے ہیں اورکچھ دھوپ میں اینٹیں ڈھوتے ہیں۔ پھر بھوک کا المیہ ہے۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ۱۰ ملین بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔
تقریباً ۱۸ فیصد بچے شدید غذائی قلت (Severe Acute Malnutrition) میں مبتلا ہیں جو کسی بھی قوم کے لیے ایک المناک اشارہ ہے۔ کیا ہم سوچتے ہیں کہ ایک بھوکے بچے کے لیے دنیا کیسی ہوتی ہے؟ اس کے خواب کیسے اندھیری رات میں دفن ہو جاتے ہیں؟
یہ سب محض اتفاق نہیں یہ نظام کی پیداوار ہے۔ ایک ایسا نظام جو طاقتوروں کو اور طاقتور امیروں کو اور امیر اور غریبوں کے بچوں کو ہمیشہ محتاج بنائے رکھتا ہے۔ بائیں بازو کا نکتہ نظر یہ کہتا ہے کہ بچوں کے حقوق محض رحم یا خیرات کا مسئلہ نہیں یہ سماجی انصاف کا سوال ہے۔
اگر ریاست تعلیم کو حق کے بجائے کاروبار بنائے اگر علاج سرمایہ دار کی ملکیت ہو اگر روزگار کی تقسیم میں ناانصافی ہو تو پھر بچہ چاہے کسی بھی ملک میں پیدا ہو وہ اسی غلامی کی زنجیر کا حصہ بن جائے گا۔
بچوں کا دن صرف ہیپی چلڈرنز ڈے کہہ کر گزر جانے کا موقع نہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی برابری کی لڑائی بچپن سے شروع ہوتی ہے، اگر ایک بچہ بھوکا ہے، غیرتعلیم یافتہ ہے یا ظلم کے نیچے کچلا جا رہا ہے تو ہم سب اس جرم میں شریک ہیں، چاہے ہم خاموش ہی کیوں نہ رہیں۔
اقوامِ متحدہ کے کنونشن میں لکھا ہے کہ ’’ ہر بچہ زندگی، تعلیم، تحفظ اور ترقی کا حق رکھتا ہے۔‘‘ لیکن آج دنیا کے کئی خطوں میں بچہ صرف زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ غزہ ہو یا سوڈان یا کراچی کے کسی فٹ پاتھ پر بیٹھا وہ بچہ جو شیشے صاف کرتا ہے سب کی ایک ہی چیخ ہے ایک ہی سوال ہے، کیا ہم واقعی بچوں کا دن منانے کے قابل ہیں؟
میں سوچتی ہوں شاید ہم اس دن کو جشن نہیں احتجاج بنا دیں۔ احتجاج اس نظام کے خلاف جو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیتا ہے۔ احتجاج ان طاقتوں کے خلاف جو جنگوں کو استحکام کا نام دیتی ہیں اور احتجاج اپنے ضمیر کے خلاف جو خاموش رہنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
یہ دنیا ہمارے پاس بچوں کی امانت ہے، مگر اگر ہم نے اس امانت کو خون بھوک اور خوف میں لپیٹ دیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کیسے معاف کریں گی؟ یہ دن صرف بچوں کا دن نہیں انسانیت کے ضمیرکا دن ہے۔
ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک محفوظ کل دیں۔ ہم ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں بچہ نہ صرف محفوظ ہو بلکہ جہاں اس کے سر پہ چھت ہو۔ وہ تعلیم حاصل کرسکے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہا ہو جہاں جنگ نہ ہو اور جہاں وہ خواب دیکھ سکے۔
لیکن ابھی بھی امید باقی ہے۔ پاکستان کے کچھ گوشوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خاموشی کے بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں، وہ اساتذہ جو پہاڑی علاقوں میں بغیر تنخواہ کے بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ لڑکیاں جو خود مشکلات کے باوجود دوسری بچیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے مہم چلاتی ہیں وہ والدین جو اپنی بھوک برداشت کر کے بچوں کو کتاب خرید کر دیتے ہیں۔
یہی وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں روشنی بن سکتے ہیں، اگر ریاست ان چھوٹے چھوٹے خوابوں کا ساتھ دے تو شاید یہ ملک واقعی بچوں کے لیے ایک محفوظ گھر بن سکے۔
ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک ایک ایسی دنیا دیں جہاں بچہ نہ صرف محفوظ ہو بلکہ خوش بھی ہو۔ جہاں وہ خواب دیکھ سکے، محبت پا سکے اور جہاں کسی بچے کی آنکھ آنسوؤں سے نہیں بلکہ روشنی سے بھری ہو۔