صدر ٹرمپ اور ابراہیمی معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان دنوں سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور سعودی حکومت کے ساتھ تجارت و معیشت کے حوالہ سے معاملات طے کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ان کی طرف سے دو باتیں سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہیں جو بہرحال توجہ طلب ہیں۔ ایک یہ کہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان ہوا تو وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھیں گے اور دوسرا یہ کہ انہیں امید ہے کہ سعودی عرب ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ میں شامل ہو جائے گا۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالہ سے ہم اپنا موقف متعدد بار واضح کر چکے ہیں اور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کی بات بظاہر عرب اسرائیل سفارتی تعلقات کے حوالے سے کی جاتی ہے لیکن اس کا جو درپردہ پہلو ہے اس پر ہم کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک عرصہ سے عالمی سطح پر یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مذاہب کو آپس میں ہم آہنگی بلکہ اتحادِ مذاہب کے عنوان سے باہمی ایڈجسٹمنٹ کی کوئی صورت نکالنی چاہیے جس کی وجہ ہمارے خیال میں یہ ہے کہ چونکہ مذہب کو معاشرتی کردار اور سیاسی و تہذیبی ماحول سے الگ کر کے صرف عقائد اور اخلاقیات کے دائرے میں محدود رکھنے کا فلسفہ عالمی قوتوں نے آپس میں طے کر لیا ہے اور اس کو قبول کرانے میں رکاوٹ صرف مسلم معاشرہ میں پیش آ رہی ہیں کہ حکمران طبقوں سے قطع نظر دینی و عوامی ماحول میں مسلم امت اور عوام مذہب کے معاشرتی و تہذیبی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے کسی صورت میں آمادہ نہیں ہیں اس لیے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمہ، ہم آہنگی اور یکجہتی کا ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس سے مسلم دنیا کو بھی مذہب کے بارے میں آج کے عالی فلسفہ کے دائرے میں محصور کیا جا سکے۔
اس کا ایک دائرہ ’’ابراہیمی مذاہب‘‘ کو یکجا کرنے اور ایک میز پر بٹھانے کی یہ کوشش بھی ہے کہ چونکہ مسیحی، یہودی، مسلمانوں اور بعض دانشوروں کے نزدیک ہندو بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے انہیں ایک چھت کے نیچے جمع کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے بین الاقوامی ماحول میں محنت کا ایک میدان گرم ہے اور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ بھی اسی کا ایک حصہ دکھائی دیتا ہے، اور اس کے لیے ابوظہبی میں ’’خاندان ابراہیم ہاؤس‘‘ تعمیر بھی کیا جا چکا ہے۔ اس پر علمی حلقوں کے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اور ہم بھی اس سلسلہ میں کچھ طالب علمانہ گزارشات پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مگر سرِدست ایک دو پرانی یادوں کو گفتگو کے آغاز کے طور پر قارئین کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔
نصف صدی قبل کی بات ہے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس میں لیبیا کے حکمران معمر قذافی نے اپنے صدارتی خطاب میں یہ بات کہہ دی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات گرامی چونکہ بیشتر آسمانی مذاہب کا مرکز و محور ہے اور انہوں نے ہی اپنے ماننے والوں کو ’’مسلم‘‘ ہونے کا خطاب دیا تھا ’’ملۃ ابیکم ابراہیم ہو سماکم المسلمین‘‘ (الحج ۷۸) اس لیے مسلمان کہلانے کے لیے یہ نسبت ہی کافی ہے اور انہیں اپنا مرکز و محور ماننے والوں کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کے عنوان سے الگ تشخص قائم کرنا ضروری نہیں ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ اس وقت مصر کے نائب صدر جناب حسین الشافعی بھی کانفرنس میں شریک تھے اور انہوں نے صدر قذافی کی اس بات کو موقع پر ہی ٹوک دیا تھا کہ ان کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور ’’مسلمان‘‘ کہلانے کے لیے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور انہیں آخری نبی کے طور پر اپنا پیشوا تسلیم کرنا بھی لازمی ہے، اس کے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں ہے اور نہ کسی کو مسلمان تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہم ایک مشاہدہ بھی شامل کرنا چاہتے ہیں جو اسی تناظر یں شکاگو کے ایک سفر میں ہمارے سامنے آیا تھا۔ امریکہ کے ایک سفر میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ساتھ رفاقت تھی اور ہم دونوں شکاگو میں چنیوٹ کے ایک تاجر دوست ریاض وڑائچ مرحوم کے مہمان تھے۔ شکاگو میں مرزا بہاء اللہ شیرازی کے پیروکار ’’بہائیوں‘‘ کا بہت بڑا مرکز ہے جسے دیکھنے اور وہاں کی شب و روز کی سرگرمیاں معلوم کرنے کا مجھے تجسس تھا۔ مولانا چنیوٹیؒ سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ چھوڑو وہاں کون ہمیں اندر جانے دے گا (کون وڑن دیسی؟) میں نے اصرار کیا تو آمادہ ہوگئے اور ہم اپنے میزبان ریاض وڑائچ کے ہمراہ وہاں جا پہنچے۔ منتظمین نے ہمیں پہچان لیا اور بڑے احترام کے ساتھ اپنے مرکز کا وزٹ کرایا۔ بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں موجود سب مذاہب برحق ہیں اور وہ سب کے جامع ہیں۔ اس کے اظہار کے لیے انہوں نے شکاگو کے اس مرکز کے مین ہال میں، جو بہت بڑا ہال ہے، ایک چھت کے نیچے چھ مذاہب کی عبادت گاہوں کا الگ الگ ماحول بنا رکھا ہے۔ ایک کونے میں مسجد ہے، دوسرے میں چرچ ہے، تیسرے میں مندر ہے اور چوتھے کونے میں یہودیوں کا سینی گاگ ہے جبکہ ہال کے وسط میں گوردوارہ اور بدھوں کی عبادت گاہ ہے اور ہر عبادت گاہ کو اس کا پورا ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ مسجد اس کونے میں ہے جدھر مکہ مکرمہ ہے، اس میں صفیں بچھی ہوئی ہیں، محراب ہے اور اس میں منبر ہے۔ مسجد کے ایک کونے کی الماری میں قرآن کریم کے چند نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ مرکز کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہر مذہب والے کو اپنی عبادت گاہ میں آنے اور اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے اور بہت سے لوگ عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ایک چھت کے نیچے مسجد، مندر اور چرچ کو دیکھ کر آپ کو کیسا لگا؟ میں نے کہا کہ مسجد اور چرچ تو آپ نے ایک چھت کے نیچے اور ایک چار دیواری کے اندر بنا دیے ہیں لیکن ایک خدا اور تین خداؤں کو کیسے جمع کر لیا ہے؟ مسکرا کر بولے کہ چھوڑیں یہ فلسفہ کی باتیں ہیں۔ میں نے کہا کہ فلسفہ کی نہیں بلکہ یہ عقیدہ اور ایمان کی بات ہے۔
ہمارے خیال میں یہی تصور ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کے پیچھے بھی کارفرما ہے جو اہلِ علم اور دینی قیادتوں کی فوری توجہ کا طالب ہے۔ یہ گزارش ہم نے تمہید کے طور پر کی ہے جس کی تفصیلات پر ان شاء اللہ تعالیٰ چند کالموں میں کچھ معروضات پیش کریں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ابراہیمی معاہدہ انہوں نے کے ساتھ انہیں ا کے ایک کیا جا اور ان میں یہ ہے اور کی بات
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ، پاکستان کا جرات مندانہ مؤقف
اسلام ٹائمز: پاکستان سے سب سے زیادہ محبت اور ہمدردی رکھنے والی شخصیت ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ہیں۔ انہوں نے "ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار" نامی کتاب کو عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا، جسکا بعد ازاں اردو ترجمہ بھی شائع ہوا۔ اس کتاب میں انہوں نے قائدینِ پاکستان، خصوصاً قائداعظم محمد علی جناح سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح وہ علامہ اقبال کے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنے دورِ صدارت میں انہوں نے اقبال پر منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کیا، جو "اقبال، مشرق کا بلند ستارہ" کے عنوان سے شائع ہوا۔ تحریر: سکندر علی بہشتی
پاکستان اور ایران دو اسلامی اور ہمسایہ ممالک ہیں، جو تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے کئی مشترکہ روایات کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ہمیشہ اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم رہی ہے، اگرچہ حکومتوں کے درمیان تعلقات وقتاً فوقتاً نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، 1984ء میں اُس وقت کے ایرانی صدر آیت اللہ خامنہ ای نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا۔ حکومت اور عوام دونوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور یہ دورہ شاید کسی ایرانی صدر کا سب سے کامیاب دورہ ثابت ہوا۔ بعد ازاں، 22 اپریل 2024ء کو ایرانی صدر مرحوم ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کا دورۂ پاکستان بھی پاک ایران دوستی کے ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہوا، جس سے دونوں ممالک مزید قریب آگئے۔
حالیہ دنوں ایران پر اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں، پاکستانی قوم نے جس انداز میں ایران کی حمایت کی، اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی اور ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ پاکستان کے وزیرِاعظم، وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع کے واضح بیانات، پارلیمنٹ اور سینیٹ کی جانب سے ایران کی حمایت میں قرارداد کی منظوری، اقوامِ متحدہ میں پاکستانی نمائندے کا جرات مندانہ بیان، سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی دوٹوک ہم بستگی، عوام کے بھرپور مظاہرے اور میڈیا کا مثبت اور ذمہ دارانہ کردار۔ ان تمام عوامل نے پاک ایران تعلقات کو ایک نئے دور میں داخل کیا ہے۔ ایران کے میڈیا، سیاسی و مذہبی شخصیات اور عوام نے بھی پاکستان کے اس مؤقف کو سراہا ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے مختلف مواقع پر پاکستانی حمایت کا خصوصی طور پر ذکر کیا، جبکہ ایرانی پارلیمنٹ میں نمائندوں نے "شکریہ پاکستان" کے نعرے بلند کیے۔ ایران کی متعدد اہم شخصیات نے بھی پاکستان کی اس حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
پاکستانی رہنماؤں کے بیانات فارسی زبان میں ترجمہ ہو کر مختلف ذرائع سے ایرانی عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ماضی میں ایرانی عوام پاکستان سے زیادہ واقف نہ ہوں، لیکن حالیہ واقعات کے بعد پاکستان کے لیے ان کے دلوں میں احترام اور تحسین کا جذبہ نمایاں طور پر بڑھا ہے۔ پاکستان سے سب سے زیادہ محبت اور ہمدردی رکھنے والی شخصیت ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ہیں۔ انہوں نے "ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار" نامی کتاب کو عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا، جس کا بعد ازاں اردو ترجمہ بھی شائع ہوا۔ اس کتاب میں انہوں نے قائدینِ پاکستان، خصوصاً قائداعظم محمد علی جناح سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح وہ علامہ اقبال کے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنے دورِ صدارت میں انہوں نے اقبال پر منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کیا، جو "اقبال، مشرق کا بلند ستارہ" کے عنوان سے شائع ہوا۔
ایران کے ممتاز مفکرین، جیسے استاد مطہری اور ڈاکٹر علی شریعتی نے بھی اقبال کے افکار پر گفتگو کی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کئی بار کشمیری عوام کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے مختلف پاکستانی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں پاکستان کے مسلم امہ میں کردار کو سراہا ہے۔ ان کا ایک اہم بیان 6 مئی 2025ء کو وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران سامنے آیا، جس میں انہوں نے پاکستان کے بارے میں اپنی امیدوں کا برملا اظہار کیا۔ پاکستان اور پاکستانی عوام کے بارے میں آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات اور مکتوبات کو "سفیر بیداری" (پاکستان کے بہادر عوام کے بارے میں آیت اللہ خامنہ ای کے فرامین) کے نام سے جمع کرکے کتابی صورت میں فارسی میں شائع کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 209 صفحات پر مشتمل ہے۔ جو آیت اللہ خامنہ ای کی پاکستان سے دلی لگاؤ اور محبت کی واضح مثال ہے۔
ڈاکٹر علی رضا ایمانی اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: "حضرت آیت اللہ خامنہ ای ہمیشہ امتِ مسلمہ کے مسائل پر توجہ دیتے رہے ہیں اور انہوں نے نہ صرف ان مسائل کو اجاگر کیا بلکہ ان کے حل کے لیے حکیمانہ رہنمائی بھی فراہم کی، جیسے کہ بصیرت و آگاہی، اتحاد و ہمدلی، مزاحمت و اسلامی بیداری اور استبداد کے خلاف جدوجہد۔ پاکستان کے بہادر عوام کے بارے میں اُن کی رہنمائی اور ارشادات، مسلمانوں کے امور پر ان کی عنایت و توجہ کی ایک روشن مثال ہیں۔" اس کے علاوہ بھی ایران میں کئی ایسی شخصیات اور ماہرین موجود ہیں، جو پاک ایران دوستی، تعلقات اور باہمی بھائی چارے کو وقت کی اہم ترین ضرورت سمجھتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک اس ہم دلی اور برادرانہ تعلق کو مزید مضبوط بنانے کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات کریں، تاکہ یہ دونوں اسلامی ریاستیں مل کر مسلم امہ میں قائدانہ کردار ادا کرسکیں۔