اسلام ٹائمز: مختصر یہ کہ ٹرمپ اور جولانی میں ملاقات امریکہ کی خارجہ سیاست کے ایک مستقل طریقہ کار کا واضح ثبوت ہے۔ یہ طریقہ کار شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کو اپنے سیاسی اہداف کے لیے استعمال کرنے پر مبنی ہے۔ جب تک یہ گروہ امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہیں اس وقت تک وہ دہشت گرد قرار پاتے ہیں اور ان کا نام امریکہ کی وزارت خارجہ اور دیگر سیکورٹی اور مالی اداروں کی بلیک لسٹ میں شامل ہوتا ہے لیکن جیسے ہی وہ امریکہ کے مطیع ہو جاتے ہیں اور اس کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں تو ان کی حقیقت ہی بدل دی جاتی ہے۔ کل کے دہشت گرد آج کے سفارت کار اور سیاسی رہنما بن جاتے ہیں۔ گذشتہ کئی عشروں سے خطے میں امریکہ کا یہی وطیرہ رہا ہے اور وہ اسی پالیسی پر گامزن رہا ہے، چاہے افغانستان ہو، عراق ہو، شام ہو یا خطے کا کوئی اور ملک ہو۔ تحریر: علی احمدی
ڈونلڈ ٹرمپ جو کسی زمانے میں اپنے سے پہلے امریکی صدر براک اوباما پر دہشت گردی کی حمایت اور داعش کی تشکیل کا الزام عائد کرتے دکھائی دیتے تھے اب خود بھی کھلم کھلا اسی راستے پر چل نکلے ہیں۔ وائٹ ہاوس نے اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاض میں ھیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی سے ملاقات کی ہے۔ دہشت گردی کے گاڈ فادر (امریکی صدر) اور دہشت گردوں کے سرغنے کے درمیان ملاقات کی تصاویر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ جون 2014ء میں ٹھیک ان دنوں جب ابوبکر بغدادی نے موصل کی مسجد النوری سے خلافت کا اعلان کیا تو شام میں اس کے ایک اور وفادار کمانڈر نے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ اس کا نام ابو محمد الجولانی تھا۔ وہ اس سے پہلے القاعدہ میں سرگرم رکن رہ چکا تھا اور ابومصعب الزرقاوی سے اس کے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔
ابو محمد الجولانی وہ شخص ہے جس نے پہلے النصرہ فرنٹ میں اہم ذمہ داریاں ادا کیں اور اس کے بعد اپنا نیا دہشت گرد گروہ تشکیل دیا اور اس کا نام ھیئت تحریر الشام رکھ دیا۔ یوں وہ موجودہ صدی کا معروف ترین دہشت گرد کمانڈر ہے۔ شام میں بحران کے ابتدائی سالوں میں امریکہ نے ہمیشہ یہ دعوی کیا تھا کہ وہ شدت پسند گروہوں اور دہشت گردوں کا مخالف ہے۔ لیکن جب براک اوباما حکومت کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے ای میل پیغامات وکی لیکس میں فاش ہوئے تو دنیا والوں کو معلوم ہوا کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ ان معلومات سے ظاہر ہوتا تھا کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی بنیاد اصل میں امریکہ نے رکھی تھی اور اس کا مقصد شام میں خانہ جنگی شروع کروانا اور ایران کے بڑھتے اثرورسوخ کو لگام دینا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی 2016ء میں اپنی صدارتی مہم کے دوران مدمقابل ہیلری کلنٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "داعش آپ نے بنائی ہے۔"
لیکن تاریخ ایک تلخ طنز کی حامل ہے۔ اب 2025ء میں جب شام میں بشار اسد کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور ابو محمد الجولانی کی سربراہی میں نئی نگران حکومت برسراقتدار ہے تو وہی شخص جو گذشتہ چند سال سے عالمی سطح پر مجرم قرار پا چکا تھا اور اس کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے تھے خوبصورت اور صاف ستھرا سوٹ پہن کر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں چہل قدمی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے شام کے صدر کے طور پر ملاقات کرتا ہے۔ وہ شخص جو کل امریکی وزارت خارجہ کی بلیک لسٹ میں شامل تھا آج خطے میں امن اور ترقی کے لیے امریکہ کا شریک بن بیٹھا ہے۔ کیا ٹرمپ بھی آخرکار وہی راستہ اختیار کرے گا جس کی وجہ سے اوباما کی سرزنش کیا کرتا تھا؟
ٹرمپ جولانی ملاقات
بدھ 14 مئی کے دن وائٹ ہاوس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ھیئت تحریر الشام کے سربراہ اور موجودہ شام کے نگران صدر ابو محمد الجولانی کے درمیان ملاقات کی خبر دی ہے۔ یہ ملاقات خلیج تعاون کونسل کے اجلاس کے وقت انجام پائی ہے۔ یہ ملاقات بند کمرے میں انجام پائی اور صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وائٹ ہاوس نے اس بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں کہ ملاقات میں کون سے افراد شامل تھے لیکن ترکی کے خبررساں ادارے آناتولی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بھی آنلائن طور پر اس ملاقات سے رابطے میں تھے۔ اسی طرح ٹرمپ اور جولانی کے علاوہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی اس ملاقات میں حاضر تھے۔ رجب طیب اردگان نے امریکہ پر شام کے خلاف عائد پابندیاں ختم کر دینے پر زور دیا۔
صیہونی رژیم کی غزہ پر بمباری
جب ریاض میں یہ ملاقات جاری تھی تو دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم غزہ کی پٹی پر نہتے فلسطینیوں پر بم برسانے میں مصروف تھی۔ مزید برآں، صیہونی رژیم شام کے جنوب مغربی علاقوں پر بھی فضائی حملے جاری رکھے ہوئے تھی۔ المیادین نیوز چینل کے مطابق طرطوس کے قریب اسرائیلی ڈرون طیاروں نے حملہ کیا۔ عراق کی خبررساں ایجنسی صابرین نیوز نے بھی چند تصاویر شائع کیں جن کے ساتھ لکھا تھا: "طرطوس کے علاقے عمریت پر اسرائیلی ڈرون حملے، اینٹی ایئر کرافٹ کے فائر بھی سنے گئے ہیں۔" ان حملوں میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کی تفصیلات ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی فضائی جارحیت کے باعث ہر روز دسیوں مظلوم فلسطینی شہید اور زخمی ہو رہے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
مختصر یہ کہ ٹرمپ اور جولانی میں ملاقات امریکہ کی خارجہ سیاست کے ایک مستقل طریقہ کار کا واضح ثبوت ہے۔ یہ طریقہ کار شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کو اپنے سیاسی اہداف کے لیے استعمال کرنے پر مبنی ہے۔ جب تک یہ گروہ امریکی مفادات کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہیں اس وقت تک وہ دہشت گرد قرار پاتے ہیں اور ان کا نام امریکہ کی وزارت خارجہ اور دیگر سیکورٹی اور مالی اداروں کی بلیک لسٹ میں شامل ہوتا ہے لیکن جیسے ہی وہ امریکہ کے مطیع ہو جاتے ہیں اور اس کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں تو ان کی حقیقت ہی بدل دی جاتی ہے۔ کل کے دہشت گرد آج کے سفارت کار اور سیاسی رہنما بن جاتے ہیں۔ گذشتہ کئی عشروں سے خطے میں امریکہ کا یہی وطیرہ رہا ہے اور وہ اسی پالیسی پر گامزن رہا ہے، چاہے افغانستان ہو، عراق ہو، شام ہو یا خطے کا کوئی اور ملک ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ابو محمد الجولانی دہشت گرد گروہ اور دہشت گرد ہو جاتے ہیں میں امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر امریکہ کی طریقہ کار ٹرمپ اور ہیں اور شام کے کا نام رہا ہے اور اس کے لیے
پڑھیں:
امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، ٹرمپ
ابوظہبی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 مئی2025ء)ابوظہبی کے دورے اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید سے ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ اور امارات کے دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ اور امارات کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ انہوں نے متحدہ عرب امارات کے صدر کی وائٹ ہائوس میں میزبانی کی خواہش کا بھی اظہار کردیا۔دونوں صدور نے یو اے ای کے دارالحکومت ابوظہبی کے قصر الوطن میں ملاقات کی۔ شیخ محمد بن زاید نے خطے میں امن اور استحکام کے حصول کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کے اپنے ملک کے عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان کا ملک اپنے اور امریکہ کے مفاد میں امریکہ کے ساتھ دوستی کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔(جاری ہے)
شیخ محمد بن زاید نے کہا کہ آپ کے منصب سنبھالنے کے بعد سے ہمارے ممالک کے درمیان تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔شیخ محمد بن زاید نے ابوظہبی کے الوطن محل میں اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کا استقبال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کا ملک اگلے دس سالوں میں امریکہ میں تقریبا 1.4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ شیخ محمد بن زاید نے کہ امارات اور امریکہ کے درمیان ترقی کے لیے ایک مضبوط شراکت داری ہے۔ اس شراکت داری میں خاص طور پر نئی معیشت، توانائی، جدید ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور صنعت کے شعبوں میں ایک بے مثال اضافہ ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ مصنوعی ذہانت کے منصوبے منفرد ہوں گے۔دورے کے دوران امارات کے سربراہ شیخ محمد بن زاید نے صدر ٹرمپ کو وسام زاید سے نوازا جو متحدہ عرب امارات کا اعلی ترین اعزاز ہے جو دو طرفہ دوستی اور تعاون کو فروغ دینے میں ان کی کوششوں کے اعتراف میں ریاست کے سربراہان کو دیا جاتا ہے۔ یہ اعزاز ٹرمپ کے ابوظبی کے الوطن محل میں سرکاری استقبال کے دوران دیا گیا۔ ابوظہبی میں اپنے دورے کے اختتام کے ساتھ صدر ٹرمپ نے اپنا خلیجی دورہ مکمل کرلیا۔ وہ سب سے پہلے سعودی عرب، پھر قطر اور پھر امارات گئے تھے۔