پشاورہائیکورٹ نے بلدیاتی ایکٹ 2022 میں ترمیم اور بلدیاتی نمائندوں سے اختیارات واپس لینے کے خلاف دائر درخواستیں منظور کرلی ہیں۔

پشاور ہائیکورٹ میں جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس فرح جمشید پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر کل فیصلہ محفوظ کیا تھا، عدالت نے درخواستیں منظور کرلی ہیں جس کا تحریری فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا کے بلدیاتی نمائندوں نے احتجاج کے لیے اڈیالہ جیل کا رخ کیوں کیا؟

بلدیاتی نمائندوں سے اختیارات واپس لینے کے خلاف درخواست میں درخواست گزار وکیل درخواست گزار بابر خان یوسفزئی ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا تھا کہ فروری 2022 میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہوا اور بلدیاتی نمائندوں نے حلف اٹھایا،بلدیاتی الیکشن کے بعد 2022 میں صوبائی حکومت نے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کی۔

درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ ترمیم کے بعد صوبے کے بلدیاتی نمائندوں سے اختیارات واپس لیے گئے،ترمیم کے بعد بلدیاتی نمائندوں سے فنڈز کے استعمال کا اختیار بھی واپس لیا گیا ہے، 2022 سے بلدیاتی نمائندوں کو فنڈ نہیں ملا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کیوں ملتوی ہوئے؟ الیکشن کمیشن نے بتا دیا

جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ بلدیاتی نمائندوں سے اختیارات واپس لیے تو اختیارات کس کو دیئے گئے ہیں، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ترمیم کرکے زیادہ تر اختیارات ایکٹ سے نکال کر رولز کے تحت کر دیے گئے ہیں، حکومت نے بلدیاتی ایکٹ کے سیکشن 23 اے اور 25 میں ترمیم کی ہے، کمپوزیشن آف تحصیل لوکل گورنمنٹ 2019 ترمیم میں ہوئی۔

جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ 2019 میں جو ترمیم ہوئی اس سے آپ مطمئن تھے، بابر خان یوسفزئی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جی ہم مطمئن تھے، 2022 ترمیم میں سیکشن 23 اے میں ترمیم ہوئی اس میں بلدیاتی نمائندوں سے اختیارات لیے گئے اور حکومت نے اپنے پاس رکھیں۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ریڈ زون میں بلدیاتی نمائندوں کا احتجاج، پولیس کی شیلنگ

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ترمیم سے تحصیل میئر اور ویلج کونسل کے نمائندوں کے اختیارات بھی حکومت نے اپنے پاس رکھیں، اس ترمیم کے بعد بلدیاتی نمائندوں کو کوئی فنڈ نہیں ملا۔

عدالت نے بلدیاتی نمائندوں کی درخواستیں منظور کرلی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news بلدیاتی نمائندے پاکستان پشاور ہائیکورٹ خیبرپختونخوا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلدیاتی نمائندے پاکستان پشاور ہائیکورٹ خیبرپختونخوا درخواستیں منظور درخواست گزار نے بلدیاتی حکومت نے کے بعد

پڑھیں:

ججز کمیٹی نے قائم مقام چیف جسٹس کے اختیارات کم کر دیے

اسلام آباد:

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ  2023 کے تحت قائم کردہ کمیٹی نے نئے پروسیجرز اپناتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس  کے عہدے کو غیر مؤثر کر دیا۔ یہ کمیٹی جس کی سربراہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کر رہے ہیں اور جس میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں، نے 29 مئی کو نیاپروسیجر بنایا۔ 

اس سلسلے میں ایک نوٹیفکیشن رجسٹرار محمد سلیم خان کی طرف سے جاری کیا گیا  جو اس ہفتے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کیا گیا ہے۔  نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ  2023 ہنگامی حالات اور چیف جسٹس کے بیرون ملک ہونے کی صورت میں بہت سے معاملات سے نمٹنے کے لیے جامع نہیں ہے، اس لیے اسے ریگولیٹ کرنا اور خلا پر کرنا ضروری ہے۔

ایکٹ کے سیکشن 2 کے ذیلی سیکشن 2 کے تحت کمیٹی نے اپنے فرائض کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک طریقہ کار بنایا ہے جسے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ) کمیٹی پروسیجر 2025 کہا جائے گا اور یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوں گے۔ شق 1 میں کہا گیا کہ چیئرپرسن، یعنی چیف جسٹس بنچوں کی تشکیل  کے لیے جب ضروری ہو، کمیٹی کا اجلاس طلب کریں گے جو فزیکل یا ورچوئل ذرائع سے ہو سکتا ہے۔

شق 2  کے مطابق کمیٹی کے اجلاس کا کورم برقرار رکھنے کے لیے کم از کم دو ارکان ضروری ہیں۔ شق 4 میں کہا گیا کہ کمیٹی جب ضرورت ہو بنچوں کی باقاعدگی سے تشکیل  کریگی جو  ترجیحاً ماہانہ یا پندرہ روزہ بنیادوں پر ہوگا، بنچز کو ایک بار حتمی شکل دے دی گئی تو ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، سوائے اس کے کہ طریقہ کار کے تحت اجازت دی جائے۔

کمیٹی کی تشکیل میں کسی تبدیلی سے بنچوں کی حتمی تشکیل کو غیر قانونی  قرار نہیں دیا جا سکے گا  شق 5 کے مطابق جب بھی چیئرپرسن،  بیرون ملک ہو یا اجلاس کی صدارت کے لیے دستیاب نہ ہو، وہ بنچوں کی دوبارہ تشکیل سے متعلق معاملات سے نمٹنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دے سکے گا اگر کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہو، جیسے  جج کی اچانک بیماری، غیر موجودگی، وفات، یا جج کا کیس سے الگ ہونا، خصوصی کمیٹی صرف ہنگامی حالات تک محدود ہوگی اور  وہ اپنے فیصلے کی وجوہات تحریری طور پر ریکارڈ کریگی۔ ایسی عارضی تبدیلی کو کمیٹی کے اگلے اجلاس میں رپورٹ کیا جائے گا۔  

شق 8  کے مطابق  کمیٹی ضرورت کے مطابق اس طریقہ کار میں ترمیم کر سکتی ہے۔  کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ نئے جاری کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی پروسیجر 2025 کی شق 5 آئینی دفعات کے منافی ہے اور اس طریقہ کار کا مقصد قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کو غیر ضروری بنانا ہے۔  

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہد جمیل نے کہا کہ  رول 5 آرٹیکل 180 کے ساتھ متصادم ہے، جو قائم مقام چیف جسٹس کی تقرری سے متعلق ہے۔ کچھ قانونی ماہرین نے کہا کہ  کمیٹی کو یہ خصوصی اختیار حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سے کیسز آئینی بنچوں کو فیصلے کے لیے بھیجے جائیں گے۔ 

تاہم چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں کمیٹی غیر فعال ہو چکی ہے کیونکہ بنچوں کی تشکیل کے لیے باقاعدہ اجلاس نہیں ہو رہے۔  ذرائع نے  بتایا کہ جب سے جسٹس آفریدی نے عہدہ سنبھالا ہے، عملی طور پر کوئی کمیٹی اجلاس نہیں ہوا۔ شاید صرف ایک اجلاس 29 مئی کو ہوا تھا جس میں پروسیجر کو کمیٹی کے ارکان نے منظور کیا تھا۔ 

ذرائع نے کہا کہ کیسز کو کس طرح مارک کیا جا رہا ہے اور بنچوں کی تشکیل کیسے ہو رہی ہے، اس پر بحث یا مباحثہ نہیں ہو رہا۔   کچھ سینئر وکلا حیران ہیں کہ سینئر ججز دو رکنی بنچوں کے طور پر فیصلے کر رہے ہیں جبکہ جونیئر ججز تین رکنی بنچوں کا حصہ ہیں۔  یہ معلوم ہوا ہے کہ صرف مجوزہ روسٹر کمیٹی کے ارکان کو منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کے دور میں کمیٹی کے اجلاسوں کے منٹس سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیے گئے۔   ایک وکیل نے کہا کہ  موجودہ آئین کے تحت جسٹس  منصور علی شاہ قائم مقام چیف جسٹس ہوں گے۔ ڈر ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز کر سکتے ہیں جو ان کے لیے مشکلات پیدا کرے، اسی لیے یہ پروسیجر لائے گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: سندھ ہائیکورٹ کا لائن لاسز پر مبنی لوڈشیڈنگ کے خلاف کے الیکٹرک کو نوٹس، نیپرا ریجنل ہیڈ بھی طلب
  • متنازع پیکا ایکٹ ترمیم 2025ء کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
  • الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹ میں ترمیم کا اعلان آئین کی خلاف ورزی ہے، مہوا موئترا
  • ججز کمیٹی نے قائم مقام چیف جسٹس کے اختیارات کم کر دیے
  • لاہور کے ایک ٹرسٹ اسپتال کا سالانہ 36 لاکھ زکوٰۃ فنڈ لینے سے انکار
  • ایئر ایمبولینس سوات واقعہ کے وقت شندور پولو فیسٹول میں وزراء کی فیملی کو خدمات دینے میں استعمال ہوئی: گورنر کے پی کے 
  • مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ہرن ذبح کرنے پر سخت قانونی کارروائی کا فیصلہ 
  • کے پی حکومت کی بلدیاتی اداروں سے عدم دلچسپی
  • کراچی: لائن لاسز کی بنیاد پر لوڈشیڈنگ سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج
  • سول کورٹس کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں ضلعی عدالتوں کو بھیجنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں اختلافات