شہداء کی قربانیاں ہماری آزادی ، خودمختاری اور سلامتی کی ضمانت ہیں ، صدر زرداری
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
صدر مملکت آصف زرداری نے کرنل شیر خان شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیر خان شہید نے دشمن کیخلاف بے مثال جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا۔کرنل شیر خان کی 26 ویں برسی پر صدر مملکت نے اپنے پیغام میں کہا کہ کرنل شیر خان شہید کی قربانی قومی تاریخ کا روشن باب ہے، ان کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ شیر خان شہید نے دفاع وطن میں جان دے کر سچے سپاہی ہونے کا ثبوت دیا، ان کی عظمت اور شجاعت کو سلام پیش کرتے ہیں۔صدر زرداری نے کہا کہ شہداء کی قربانیاں ہماری آزادی، خودمختاری اور سلامتی کی ضمانت ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: شیر خان شہید
پڑھیں:
کرنل شیر خان شہید کی برسی:قوم کا عظیم بیٹا آج بھی دلوں میں زندہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستانی قوم آج ایک ایسے ہیرو کو یاد کر رہی ہے جس نے اپنی بہادری، غیر متزلزل عزم اور ناقابل تسخیر حوصلے سے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔
کیپٹن کرنل شیر خان شہید، جنہیں ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ’نشانِ حیدر‘ عطا کیا گیا، کی برسی آج قومی جذبے کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ ان کی شہادت کو برسوں گزر چکے ہیں، مگر ان کا کردار آج بھی زندہ و جاوید ہے، جو نہ صرف نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے بلکہ دفاع وطن کے ہر جذبے کی روح ہے۔
صوابی کے ایک عام گاؤں نواں کلی (جو آج ان کے نام سے “کرنل شیر خان کلی” کے طور پر پہچانا جاتا ہے) میں یکم جنوری 1970 کو پیدا ہونے والے اس نوجوان نے ابتدا میں پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی اور بعد ازاں 1992 میں وہ پاک فوج کا حصہ بن گئے۔
ان کی قابلیت اور لیاقت کے پیش نظر 14 اکتوبر 1994 کو انہیں 27 ویں سندھ رجمنٹ میں کمیشن دیا گیا، جہاں سے ان کے عسکری سفر کا اصل آغاز ہوا۔
کرنل شیر خان کی اصل شناخت کارگل کی جنگ میں ابھری، جہاں انہوں نے 12 ویں ناردرن لائٹ انفنٹری کے ساتھ دشمن کے عزائم کے خلاف ایسی جرأت و دلیری دکھائی جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
گلٹری اور ٹائیگر ہل جیسے بلند اور کٹھن محاذوں پر انہوں نے 17 ہزار فٹ کی بلندی پر دفاعی مورچے قائم کیے، جہاں نہ صرف بھارتی فوج کے مسلسل حملے ناکام بنائے بلکہ ان حملوں کے بعد جوابی کارروائیاں بھی کیں۔
5 جولائی 1999 کو دشمن کی جانب سے کی گئی بھرپور یلغار میں، جب دو بھارتی بٹالینز نے محاصرے میں لے کر حملہ کیا، کرنل شیر خان نے نہ صرف جوانمردی سے دفاع کیا بلکہ ایک شاندار جوابی حملہ کرتے ہوئے دوبارہ پوسٹ حاصل کی۔ بدقسمتی سے اسی دوران مشین گن کی گولیوں کا نشانہ بن کر وہ شہید ہو گئے۔
ان کی قربانی کی گواہی دشمن افواج نے بھی دی ۔ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل موہندر پوری نے نہ صرف ان کی بہادری کا اعتراف کیا بلکہ انہیں جنگ کا ’’نایاب سپاہی‘‘قرار دیا۔
کرنل شیر خان نے زخمی ہونے کے باوجود نہ صرف مورچے سنبھالے رکھے بلکہ اپنے جوانوں کی قیادت بھی جاری رکھی۔ وہ آخری دم تک لڑے اور اپنی پوسٹ کو دشمن کے قبضے میں جانے نہ دیا۔ ان کی شجاعت کی گونج سرحد کے اُس پار بھی سنائی دی، اور یہی وہ نکتہ تھا جس نے انہیں نشانِ حیدر جیسے عظیم اعزاز کا مستحق بنا دیا۔
آج جب ملک دشمنوں کے خلاف دفاعی محاذ پر سرگرم ہے اور دنیا بھر میں پاکستانی افواج کا وقار بلند ہے، کرنل شیر خان جیسے ہیروز کی یاد ایک تازہ جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ان کا پیغام آج بھی یہی ہے کہ وطن کی حفاظت کے لیے جان کا نذرانہ دینا کوئی بڑی قیمت نہیں، بلکہ یہ ایک فخر کی بات ہے۔
قوم آج نہ صرف ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کرتی ہے بلکہ ان کے نقشِ قدم پر چلنے کا عزم بھی دہراتی ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور عسکری اداروں میں ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کا تذکرہ صرف ایک فوجی داستان نہیں بلکہ ایک ایسی حیات بخش حقیقت ہے جو نسلوں کو جینے کا سلیقہ اور وطن سے محبت کا مفہوم سکھاتی ہے۔