چین نے 70 سے زائد ممالک کے شہریوں کے لیے ویزا فری انٹری کی سہولت فراہم کر دی
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
چین کی حکومت نے اپنی ویزا پالیسی میں ایک اور اہم قدم اٹھاتے ہوئے 74 ممالک کے شہریوں کے لیے 30 دن تک بغیر ویزا کے چین میں داخل ہونے کی سہولت فراہم کر دی ہے۔ اس اقدام کا مقصد چین کی سیاحتی صنعت کو فروغ دینا، معیشت کو مستحکم کرنا اور عالمی سطح پر چین کے نرم اثر و رسوخ (سوفٹ پاور) کو بڑھانا ہے۔
چین کی نیشنل امیگریشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق، 2024 میں چین آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً 20 ملین سیاحوں نے ویزا فری پالیسی کے تحت چین کا دورہ کیا، جو کہ مجموعی سیاحتی آمد کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے اور پچھلے سال کی نسبت دوگنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے انڈونیشیا نے 20 ممالک کے لیے ویزا فری انٹری کا اعلان کردیا
تازہ فیصلے کے نتیجے میں چین کی معیشت کو مزید تقویت ملے گی اور عالمی سطح پر چین کی سیاحتی شہرت میں اضافہ ہوگا۔
چین کے حکام کا کہنا ہے کہ ویزا فری انٹری کی پالیسی سیاحت کے شعبے کو مضبوط بنانے، بین الاقوامی تعلقات کو بہتر بنانے اور چین کی نرم طاقت کو فروغ دینے کے لیے ایک حکمت عملی ہے۔
چینی حکومت اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ اس قدم سے نہ صرف سیاحتی صنعت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عالمی سطح پر چین کی موجودگی اور اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوگا۔
چین میں ویزا فری انٹری، کون سے 74 ممالک کے لیے؟چین نے اس پالیسی میں شامل 74 ممالک کے شہریوں کو 30 دن تک چین میں ویزا فری انٹری دینے کی سہولت فراہم کی ہے۔ ان ممالک میں بیشتر وہ ہیں جو چین کے ساتھ تجارتی، ثقافتی یا سیاحتی تعلقات میں مزید تعاون کے خواہاں ہیں۔ ان ممالک کی فہرست میں شامل ہیں:
جنوبی کوریا جاپان امریکہ کینیڈا برطانیہ فرانس جرمنی اٹلی آسٹریلیا روس نیدرلینڈز سوئٹزرلینڈ آسٹریا سوئیڈن ناروے فن لینڈ بیلجیئم سپین پرتگال نیوزی لینڈ ملائیشیا سنگاپور تھائی لینڈ پاکستان بھارت نیپال سری لنکا میکسیکو ارجنٹائن برازیل چلی کولمبیا پیروا ہانگ کانگ میکاو امریکا کی ریاست ہوائی مراکش مصر جنوبی افریقہ کینیا کینیڈا سعودی عرب متحدہ عرب امارات بحرین قطر کویت عمان اردن لبنان شام یونان ترکی الجزائر تونس پولینڈ ہنگری سلوواکیہ چیک ری پبلک سلووینیا لیتوانیا ایسٹونیا لیٹوریا بلغاریہ رومانیہ کرغیزستان ازبکستان قازقستان تاجکستان قبرص مالدیپ فجی ساموآ پیسیفک جزائر ٹوگو چین کی ویزا فری پالیسی کے اثرات کیا ہوں گے؟چین کی ویزا فری پالیسی سے نہ صرف سیاحت میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کے ذریعے چینی معیشت میں بھی اہم تبدیلیاں آئیں گی۔ حکومت نے یہ قدم عالمی سطح پر چین کی سیاحتی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام چین کی دنیا بھر میں موجودگی اور سافٹ طاقت کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوگا، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں چینی ثقافت اور سیاحت کے حوالے سے دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے بڑی خبر! دنیا کے کئی ممالک میں پاکستانیوں کے لیے انٹری فری
اس کے علاوہ، چینی کاروباری ادارے اور ہوٹلنگ انڈسٹری بھی اس پالیسی سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، جو چین کی معیشت میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
چین کی ویزا فری پالیسی عالمی سطح پر ایک مضبوط پیغام دے رہی ہے کہ چین اب سیاحت، تجارت اور ثقافت میں عالمی رہنمائی کے لیے تیار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
چین چین میں ویزا فری انٹری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چین چین میں ویزا فری انٹری عالمی سطح پر چین ویزا فری پالیسی ویزا فری انٹری ممالک کے چین میں کے لیے چین کی
پڑھیں:
پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں’ شدید انسانی بحران’ ہے، عالمی برادری امداد فراہم کرے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں اور ان کے نتیجے میں سیلاب کے باعث60 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ 25 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں،سیلاب زدہ علاقوں کی صورتحال’ شدید انسانی بحران’ کی شکل اختیار کرچکی ہے ،عالمی برادری اس بحران سے نمٹنے کے لیے امداد فراہم کرے۔
یہ بات اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور (او سی ایچ اے ) کے سربراہ کالوس گیہا نے ا پنی حالیہ رپورٹ میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ریکارڈ مون سون بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی جس کے نتیجے میں 60 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور 25 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے موجودہ صورتحال کو ’ شدید انسانی بحران’ قرار دیتے ہوئے فوری عالمی امداد کی اپیل کی ۔
کارلوس گیہا نے کہا کہ پاکستان کے علاقوں پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں آنے والے سیلاب نے مقامی آبادی کو مکمل طور پر بےیار و مددگار کر دیا ہے اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ صرف آغاز ہے، اصل تباہی اس سے کہیں زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق جون کے آخر سے شروع ہونے والی شدید بارشوں کے باعث اب تک ایک ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 250 بچے بھی شامل ہیں، سیلاب نے سب سے زیادہ نقصان پنجاب کو پہنچایا ہے جہاں بھارت کی جانب سے ڈیموں سے پانی چھوڑنے کے بعد دریاؤں نے تباہی مچائی اور 47 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کئی علاقوں میں پورے پورے گاؤں پانی میں ڈوب چکے ، سڑکیں اور پل تباہ ہو گئے ہیں جبکہ 2.2 ملین ہیکٹر زرعی زمین بھی زیرِ آب آ گئی ہے، گندم کے آٹے کی قیمت میں صرف ستمبر کے پہلے ہفتے میں 25 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
کارلوس گیہا نے کہا کہ یہ وہ کسان ہیں جو پورے ملک کا پیٹ پالتے ہیں آج ان کے پاس نہ زمین ہے، نہ مویشی اور نہ ہی کوئی سہارا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے فوری امداد کے لیے 5 ملین ڈالر جاری کیے ہیں جبکہ مزید 1.5 ملین ڈالر مقامی این جی اوز کو دیے گئے ہیں، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ کئی دیہی علاقے اب بھی مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں جہاں امدادی سامان صرف کشتیوں یا ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پہنچایا جا رہا ہے۔
کارلوس گیہا نے کہا کہ سیلاب کے باعث ملیریا، ڈینگی اور ہیضے جیسی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ پانی، خوراک، ادویات اور پناہ گاہوں کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ اصل چیلنج اگلا مرحلہ ہے جب ان متاثرین کو دوبارہ زندگی کی طرف واپس لانا ہوگا۔انہوں نے عالمی برادری کو یاد دلایا کہ یہ پاکستان کی غلطی نہیں بلکہ وہ ممالک جو ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ہیں انہیں اس بحران کی ذمے داری بھی اٹھانی ہوگی۔