نئے اپوزیشن لیڈرز کا تقرر، عمران خان کی اچانک ہدایت پر پارٹی میں حیرت، سوالات کھڑے ہوگئے
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف کے اندر اس وقت حیرت کی لہر دوڑ گئی جب جیل میں قید پارٹی کے بانی عمران خان نے اچانک قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نئے قائدِ حزبِ اختلاف کے تقرر کی ہدایت جاری کر دی۔حالانکہ پارٹی کو امید تھی کہ عدالتوں سے عمر ایوب خان اور شبلی فراز کی نااہلی کے مقدمات میں جلد ریلیف مل جائے گا۔عمران خان کی جانب سے اڈیالہ جیل سے جاری اس اچانک ہدایت میں محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی اور علامہ عباس ناصر کو سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف مقرر کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس نے پی ٹی آئی کے اندر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ ایسی کیا جلدی تھی جب پارٹی کی اکثریت سمجھتی تھی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنا ایک مؤثر راستہ ہے۔الیکشن کمیشن نے مئی 9 کے مقدمات میں سزا کے بعد عمر ایوب اور شبلی فراز کو ان کی نشستوں سے ڈی سیٹ کر دیا تھا، پارٹی کی قانونی ٹیم نے یہ فیصلہ عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے اور سینئر رہنماؤں کے مطابق انہیں “مثبت فیصلے” کی امید تھی۔پارٹی کے بیشتر اراکین اسمبلی کا ماننا تھا کہ اگر عدالت نے ای سی پی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تو ایوب اور فراز خود بخود اپنے عہدوں پر بحال ہو جائیں گے، اس لیے نئے تقرر کی ضرورت نہیں۔پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا کہ پارٹی رہنماؤں نے کچھ ہفتے پہلے جیل میں عمران خان سے ملاقات کر کے انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ نئے قائدِ حزبِ اختلاف کے تقرر کو قانونی عمل مکمل ہونے تک مؤخر کردیں، اس وقت عمران خان نے خاموشی اختیار کی جس سے یہ تاثر ملا کہ وہ اس تجویز سے متفق ہیں۔تاہم کئی ہفتوں کی خاموشی کے بعد عمران خان نے اب دوبارہ اپنا اصل فیصلہ دہرایا اور پارٹی کو ہدایت دی کہ فوری طور پر نئے تقرر کیے جائیں — جس نے رہنماؤں کو حیران کر دیا۔عمران خان کی اس اچانک جلدی کی وجوہات واضح نہیں ہو سکیں تاہم بعض پارٹی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قیادت کو خدشہ ہے کہ تاخیر سے پارٹی کو سیاسی نقصان ہوسکتا ہے جبکہ اچکزئی اور علامہ عباس ناصر ایک مؤثر اپوزیشن اتحاد کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ایک اور تجزیہ یہ ہے کہ عمران خان یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپنی پارلیمانی حکمتِ عملی کو عدالتی غیر یقینی صورتحال کی نذر نہیں کرے گی۔ ایک ذرائع نے کہا نئے تقرر کر کے خان یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ پارٹی عدالتی نتائج سے قطع نظر اپنی سیاسی چالیں جاری رکھے گی، اس کے باوجود یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی صفوں میں بے چینی اور اختلافِ رائے کا باعث بن گیا ہے، جہاں کئی رہنما اسے قبل از وقت اور غیر ضروری سمجھتے ہیں، خاص طور پر اگر عدالت جلد ہی پارٹی کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے۔’’ہمیں امید تھی کہ ای سی پی کا فیصلہ کسی بھی وقت کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے‘‘، ایک سینئر رہنما نے کہا۔’’ تو پھر اندرونی اختلاف اور الجھن پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘پارٹی کے بانی چیئرمین بخوبی جانتے ہیں کہ دونوں ایوانوں میں غیر پی ٹی آئی ارکان کو قائدِ حزبِ اختلاف بنانے پر پارٹی کے اندر تحفظات موجود ہیں۔تاہم عمران خان کی ہدایت کے پیشِ نظر پارلیمانی پارٹی غالباً ان کی خواہش کے مطابق عمل کرے گی — اگرچہ اندرونی اختلافات اب بھی برقرار ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: عمران خان کی پی ٹی ا ئی رہنماو ں پارٹی کے ہیں کہ
پڑھیں:
ہمارا پیپلز پارٹی سے کوئی اختلاف نہیں، طارق فضل چودھری
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کا کہنا تھا کہ ہم تمام اتحادیوں کی عزت کرتے ہیں اور وزیراعظم تمام فیصلے سب کی مشاورت سے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک جمہوری جماعت ہے جبکہ صدر اور چیئرمین پیپلز پارٹی سے مشاورت ہوتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور طارق فضل چودھری نے کہا ہے کہ ہمارا پیپلز پارٹی سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور طارق فضل چودھری نے کہا کہ ہم تمام اتحادیوں کی عزت کرتے ہیں اور وزیراعظم تمام فیصلے سب کی مشاورت سے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک جمہوری جماعت ہے جبکہ صدر زرداری اور بلاول بھٹو سے مشاورت ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت میں شامل نہیں پھر بھی حکومت کو سپورٹ کر رہی ہے ہم پیپلز پارٹی کی ڈبل قدر کرتے ہیں۔
طارق فضل چودھری نے کہا کہ پنجاب میں سیلابی کیفیت کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اور مریم نواز نے کسی صوبے کے وسائل پر قبضے کی بات نہیں کی۔ کشمیر کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ایک تناؤ کی کیفیت تھی اور وزیراعظم شہباز شریف نے فوراً نوٹس لے کر ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ اور راجہ پرویز اشرف بھی شامل تھے۔