Express News:
2025-11-27@23:08:37 GMT

عوام کی بدحالی اور معاشی ترقی کے دعوے

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

پاکستان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ روزانہ اخبارات میں مختلف عالمی اور ملکی اداروں کے سروے شایع ہوتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان خطے کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے اورکچھ رپورٹس میں تو اسے بہتری کی رفتارکے لحاظ سے دوسرے نمبر پر قرار دیا گیا ہے۔

حکومت کے نمایندے، وزراء اور ترجمان ان اعداد و شمار کو فخر سے بیان کرتے نہیں تھکتے، لیکن جب یہی خوش کن دعوے ایک عام شہری کی زندگی سے جوڑ کر دیکھے جائیں تو ایک تلخ تضاد سامنے آتا ہے۔ ترقی کے یہ اعداد وشمار عوام کے خالی برتنوں میں کیوں نہیں جھلکتے؟

کیا معیشت کی بہتری کا مطلب صرف سرکاری رپورٹوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے اشارے ہیں، یا پھر اس کا عکس عوام کی روزمرہ زندگی میں بھی نظر آنا چاہیے؟حقیقت یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی نے ہر سمت سے عوام کو جکڑ رکھا ہے۔

حکومت کے بقول افراطِ زر کی شرح میں معمولی کمی آئی ہے، مگر بازار کی گواہی کچھ اور ہے۔ آٹا، جو بنیادی ضرورت ہے، اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک میں آٹے کے بیس کلو تھیلے کی زیادہ سے زیادہ قیمت میں ایک سو روپے اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ قیمت بڑھ کر 2400 روپے تک جا پہنچی۔

لاڑکانہ اور سکھر جیسے شہروں میں اگرچہ 20 روپے کی معمولی کمی دیکھنے میں آئی، مگر راولپنڈی میں یہی تھیلا 53 روپے سے زائد مہنگا ہوا۔ کراچی اور بنوں کے شہری ملک بھر میں سب سے زیادہ مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔

یہ اعداد و شمارکسی مخالف سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ خود حکومتی اداروں کے جاری کردہ ہیں، جو بتاتے ہیں کہ مہنگائی کا بوجھ اب نچلے طبقے کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے۔ آٹے کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے ضروریہ جیسے سبزیاں، دالیں، چاول، چینی اورگھی بھی عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔

مرغی، انڈے اور دودھ کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہیں اور عام شہری کے لیے اپنے محدود بجٹ میں گھرکا خرچ چلانا ایک کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

جان بچانے والی ادویات، جوکبھی متوسط طبقے کی پہنچ میں تھیں، اب لگژری بن چکی ہیں۔ اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولتیں کم ہو رہی ہیں اور نجی اسپتال عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے میں آزاد ہیں۔ ایسے میں عام آدمی کی زندگی مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گئی ہے۔ مہنگائی کا جن واقعی قابو سے باہر ہو چکا ہے۔

حکمرانوں کے بیانات میں اگرچہ تسلی کے الفاظ ہیں، مگر عملی طور پر صورتِ حال روز بروز بگڑ رہی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ اور اندرونی بد انتظامی نے معیشت کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔

حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کرتی ہے، سبسڈی ختم کرتی ہے اور محصولات بڑھاتی ہے۔ نتیجتاً عوام سے ہر سطح پر مزید قربانیاں مانگی جاتی ہیں۔ ٹیکس دینے والے طبقے پر دباؤ بڑھتا ہے، جب کہ امیر طبقہ بدستور مراعات کا فائدہ اٹھاتا ہے۔

اس طبقاتی تفریق نے پاکستان میں معاشی عدم توازن کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے، اگر معیشت واقعی ترقی کر رہی ہے تو اس ترقی کا فائدہ کہاں جا رہا ہے؟ یہ سوال ہر شہری کے ذہن میں ابھر رہا ہے۔ ترقی کے دعوے اُس وقت حقیقی معنوں میں معتبر ہوتے ہیں جب ان کے اثرات عام آدمی تک پہنچیں۔

لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ سرکاری اعداد وشمار خوش کن ہیں مگر عوام کے اعداد و شمار خوفناک غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، متوسط طبقہ سکڑ کر نچلے طبقے میں شامل ہو رہا ہے۔

دوسری طرف اشرافیہ کے محلات اور بینک اکاؤنٹس پھل پھول رہے ہیں۔ یہ منظر نامہ کسی بھی ترقی یافتہ معیشت کا نہیں بلکہ غیر متوازن نظام کا عکاس ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی بنیادی وجوہات صرف بیرونی قرضے یا درآمدی مہنگائی نہیں بلکہ داخلی بدانتظامی، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور غیر مؤثر پالیسی سازی بھی ہیں۔

جب اشیائے خور و نوش کا ذخیرہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جائے تو مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور قیمتیں بڑھا کر عوام سے ناجائز منافع کمایا جاتا ہے۔ اس عمل میں کئی بااثر افراد شامل ہوتے ہیں جنھیں سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔

نتیجتاً عام صارف کے لیے بازار میں اشیاء نہ صرف مہنگی ہو جاتی ہیں بلکہ معیار میں بھی کمی آ جاتی ہے۔ حکومت اگر واقعی معیشت کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اسے عوامی معیشت کو مستحکم بنانا ہوگا۔ اعداد وشمار کی ترقی سے پیٹ نہیں بھرتے۔

زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایک مزدور، ایک استاد، ایک سرکاری ملازم یا ایک چھوٹے دکاندار کی قوتِ خرید کم ہو چکی ہے۔ ان کی آمدنی وہی ہے لیکن اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ بجلی کے بل، گیس کے نرخ، ٹرانسپورٹ کے کرائے، تعلیمی اخراجات اور علاج کے بل سب کچھ مہنگا ہو چکا ہے۔

ایسے میں ترقی کا نعرہ عوام کے لیے طنز بن جاتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو پائیدار ترقی کی طرف لے جانے کے لیے چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے، حکومت کو مہنگائی کے اصل اسباب کا تعین کر کے مؤثر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے، چاہے وہ کتنے ہی بااثرکیوں نہ ہوں۔

دوسرا، زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو سستی کھاد، معیاری بیج اور بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ خوراک کی قلت نہ پیدا ہو۔ تیسرا، درآمدات پر انحصار کم کر کے مقامی صنعتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ روزگار کے مواقع بڑھیں اور زرِ مبادلہ کا ضیاع کم ہو۔

کم آمدنی والے طبقے کے لیے سبسڈی اور ریلیف پیکیج فوری طور پر بحال کیے جائیں۔ زرعی شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ خوراک کی قیمتیں قابو میں رہیں۔

عوامی فلاحی منصوبوں میں شفافیت لائی جائے اور ترقی کے ثمرات نچلے طبقے تک پہنچائے جائیں۔ یہی وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کی معیشت کو محض اعداد وشمار کی ترقی سے نکال کر حقیقی خوشحالی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اداروں کے معیشت کو ہیں بلکہ ترقی کے عوام کی رہا ہے کے لیے چکا ہے

پڑھیں:

بدحال ریلوے نظام اور بلٹ ٹرین کے دعوے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251126-03-4
پاکستان ریلوے ایک زمانے میں ترقی کی پٹڑی پر دوڑنے والی امید تھی مگر آج اس کی حالت دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی نے ادارے کے جسم سے روح کھینچ لی ہو اور افسوس اس بات کا ہے کہ یہ تباہی اْس دور میں ہو رہی ہے جب وزارتِ ریلوے ایک ایسے شخص کے پاس ہے جس نے ظلم، قید اور سیاسی انتقام سہہ کر اقتدار تک دوبارہ رسائی حاصل کی۔ توقع تھی کہ وزیر ریلوے حنیف عباسی جس نے خود تکلیف دیکھی وہ عوام کی تکلیف کا درد زیادہ شدت سے محسوس کرے گا، مگر صورتحال اس کے بالکل برعکس نکلی۔ پھر اسی تباہ حال نظام میں ایک خبر آئی کہ ریلوے حکام 2030 تک کراچی سے لاہور بلٹ ٹرین چلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ خبر پڑھ کر بے اختیار ہنسی آگئی۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ منصوبہ ہے، لطیفہ ہے، یا قوم کے ساتھ تازہ مذاق۔ ذرا سوچیے کہ جو لوگ ایک عام ٹرین نہیں چلا سکتے، وہ 350 کلو میٹر فی گھنٹہ کی بلٹ ٹرین چلائیں گے؟ جس ریل کے ٹکٹوں کی آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی آن لائن بْکنگ نہیں ہوسکتی وہ محکمہ بلٹ ٹرین چلائے گا؟

چلیے آپ کو رودادِ سفر سْناتے ہیں۔ ہم جماعت ِ اسلامی پاکستان کے اجتماع عام کی کوریج کے لیے 20 نومبر کو ساٹھ صحافیوں کے ہمراہ کراچی سے تیزگام میں سوار ہوئے۔ ہم نے سوچا شاید ریلوے کی حالت بہتر ہوئی ہو گی، مگر کراچی اسٹیشن پر قدم رکھتے ہی یہ خوش فہمی یوں ٹوٹ گئی جیسے کوئی شیشہ پتھر سے ٹکرا جائے۔ بوگی نمبر آٹھ کی حالت قابل ِ شرم تھی۔ نہ پانی، نہ صفائی، نہ ٹوائلٹ کے دروازے بند ہوتے تھے۔ کموڈ ٹوٹے ہوئے، نالی سے پانی ٹپکتا ہوا، فرش پر جمع پانی گویا کسی نے بوگی کے اندر ایک چھوٹا سا تالاب بنا دیا ہو۔ کپڑوں کا ناپاک ہونے سے بچانا تقریباً ناممکن تھا۔ ہم نے سوچا شاید ایک بوگی خراب ہو، مگر دوسری میں گئے تو وہ بھی اسی حال میں ملی۔ یہاں سمجھ میں آیا کہ یہ صرف بد انتظامی نہیں بلکہ بد نیتی ہے۔ صاف لگ رہا تھا کہ ٹرین کو بغیر صفائی اور بغیر مینٹیننس کے ہی واپس روانہ کر دیا گیا ہے۔ گارڈ صاحب سے درخواست کی کہ شکایتی رجسٹر میں ہماری شکایت درج کریں، مگر موصوف تو ہم سے بھی زیادہ ’’سمجھدار‘‘ نکلے۔ صاف کہہ دیا کہ اس ٹرین میں شکایتی رجسٹر یا لاگ بک نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ یوں لگا جیسے شکایات نہیں، شکایت کرنے والے ہی مسئلہ ہوں۔ پانی کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا ’’روڑھی پہنچ کر بھر دیا جائے گا‘‘۔ گویا کراچی سے روڑھی تک انسان نہیں بلکہ کوئی بیجان مخلوق سفر کر رہی ہو جسے آٹھ گھنٹے تک پانی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ساتھ موجود اے آر وائی کے صحافی فیض اللہ خان سمیت دیگر ساتھیوں نے بھی یہی اذیت بیان کی، مگر ریلوے عملہ اس بدحالی کا اس قدر عادی ہو چکا تھا کہ جیسے یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ نظام کا حصہ ہو۔ ہمارا تکلیف دہ سفر چار گھنٹے کی تاخیر کے ساتھ انجام کو پہنچا۔

لاہور سے واپسی پر دل میں خوش گمانی تھی کہ شاید حالات بدل جائیں چونکہ اجتماع عام کے اختتام پر امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن نے دیگر اداروں کے ساتھ ریلوے حکام و عملے کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا تھا۔ مگر ٹرین میں قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے ریلوے کی لغت سے ’’بہتری‘‘ کا لفظ ہمیشہ کے لیے حذف کر دیا گیا ہو۔ بعض شرکا نے بتایا کہ لاہور روانگی کے وقت ان کے لیے مختص پوری ایک بوگی ہی غائب تھی۔ اب سیکڑوں میل کا سفر بغیر سیٹ کے کیسے کیا جاتا؟ بالآخر مسافروں کے شدید احتجاج پر ٹرین کو لانڈھی اسٹیشن پر روک کر مسئلہ حل کیا گیا، مگر اصل سوال وہیں کھڑا رہا کہ اس سنگین غفلت کا ذمے دار کون تھا؟ کون جواب دہ ہوگا؟ مگر افسوس کہ ہمیشہ کی طرح کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ پاکستان ریلوے واقعی وزارت ریلوے چلا رہی ہے، یا پھر وہ تاجر لابی جو سرکاری ٹرینوں کو جان بوجھ کر تباہی کی دہلیز تک پہنچا کر انہیں پرائیویٹ سرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچنے کی راہ ہموار کر رہی ہے؟

اس شبہے کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی دو ٹرینیں ریاستی ٹرینوں سے کہیں بہتر حالت میں ہیں۔ یہ بات خوشی نہیں، افسوس پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ حکومت ایک قومی ادارہ نہیں چلا سکتی، لیکن ایک تاجر چلا لیتا ہے۔ پھر سوال اٹھتا ہے: کیا وزارت واقعی اتنی نالائق ہے یا پھر جان بوجھ کر نظام کو برباد کیا جا رہا ہے تاکہ آخرکار یہ سب کچھ ٹھیکے پر دے دیا جائے؟ ایسے میں خواجہ سعد رفیق کا دور یاد آتا ہے، جب ریلوے کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کیا گیا تھا۔ لیکن اس دیانت اور قابلیت کو جرم بنا کر خفیہ ہاتھوں نے انہیں پارلیمنٹ سے باہر پھینک دیا۔ حالیہ سفر میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ ریلوے کا عملہ غیر حاضر رہتا ہے، مینٹیننس کا نظام مفلوج ہے، نظم و ضبط کا کوئی وجود نہیں، اور وزیر صاحب شاید اپنی ہی وزارت کے زمینی حقائق سے مکمل بے خبر ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان ریلوے جیسے ادارے خود تباہ نہیں ہوتے انہیں تباہ کیا جاتا ہے۔ وزیر ِ ریلوے حنیف عباسی صاحب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب قوم پہلے سے موجود ریلوے نظام کی بدانتظامی اور اذیت میں جکڑی ہو تو ایسے میں بڑے منصوبے، بلند وعدے اور خوابوں کی پرشکوہ باتیں محض تماشا بن کر رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا گزارش ہے کہ پہلے موجودہ ریل کے نظام کو عزت کے ساتھ چلانا سیکھیں پھر بلٹ ٹرین کے لطیفوں سے قوم کو بہلانے کی کوشش کیجیے گا۔ جس موجود نظام کو صرف سنبھالنا تھا وہ بھی ہاتھوں میں ٹوٹ رہا ہے، وہاں نئی ٹرینوں کے خواب دکھانا ترقی نہیں قوم کے ساتھ مذاق ہے۔

عبید مغل سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • حکمران قرضے لینے اور عوام پر ٹیکس لگانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے، پاکستان سنی تحریک
  • پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ازخود انتخابات کے دعوے کو مسترد کر دیا گیا
  • ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کی بحرین کے وزیرِ خزانہ و قومی معیشت سے ملاقات
  • اسٹیٹ بینک: موجودہ ترقیاتی ماڈل 25 کروڑ سے زائد آبادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا
  • موجودہ ترقیاتی ماڈل 25 کروڑ آبادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، گورنر اسٹیٹ بینک
  • 4 بڑے سیلابوں سے کتنی تباہی ہوئی؟ مصدق ملک نے اعداد و شمار پیش کردیے
  • ترقی کی چابی صرف ن لیگ کے پاس ہے ،سازشیں کرنے والے تاریخ کی کتاب میں بند ہو گئے، مریم نواز
  • معیشت کی ترقی کیلئے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے، وزیر خزانہ
  • بدحال ریلوے نظام اور بلٹ ٹرین کے دعوے
  • بھارت نے پاکستان کیساتھ دریاؤں کے پانی سے متعلق اعداد و شمار شیئر کرنا بند کر دیا