ہمارے عہد کی کہانی عجیب ہے۔ ایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ہے جو لمحہ بہ لمحہ انسانی زندگی کو نئے موڑ پر لے جا رہی ہے اور دوسری طرف وہ انسان ہے جو آج بھی بھوک بے روزگاری، بیماری اور نا انصافی کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔
ایک طرف مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے چرچے ہیں جو انسان کے تمام مسائل کے حل کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری طرف وہ عام آدمی ہے جسے اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ یہ تضاد ہی ہمارے عہد کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
مصنوعی ذہانت کے بارے میں آج جو خواب دکھائے جا رہے ہیں، وہ ہمیں ماضی کے ان وعدوں کی یاد دلاتے ہیں جو ہر نئی ایجاد اور ہر نئی ترقی کے موقع پر کیے گئے تھے۔ جب بھاپ کے انجن نے پیدائش لی تو کہا گیا کہ یہ مزدوروں کی مشقت کم کر دے گا۔
جب بجلی نے صنعتوں کو روشن کیا تو کہا گیا کہ اب انسان کے لیے آرام کا زمانہ آئے گا۔ جب کمپیوٹر آیا تو کہا گیا کہ یہ ہماری زندگی آسان بنا دے گا لیکن کیا واقعی ایسا ہوا؟ کیا دنیا بھر کے مزدوروں کے اوقات کار کم ہوئے؟ کیا انھیں بہتر تنخواہیں اور آرام ملا؟ یا ان کے کندھوں پر مشینوں کی رفتار کے ساتھ ساتھ دباؤ اور بڑھ گیا؟
آج اے آئی کا شور ہے کہا جا رہا ہے کہ یہ انسان کی زندگی بدل دے گا۔ یہ تعلیم، صحت، معیشت اور صنعت کے ہر شعبے میں انقلاب لے آئے گا مگر یہ انقلاب کس کے لیے ہوگا؟ ان بڑے کارپوریٹ اداروں کے لیے جو آج بھی دنیا کے وسائل پر قابض ہیں یا ان غریبوں کے لیے جو ہر روز سڑک کنارے اپنی روزی تلاش کرتے ہیں؟
کیا اے آئی اُن مزدوروں کی مدد کرے گی جو کارخانوں میں کم ازکم اجرت پر کام کر رہے ہیں؟ کیا یہ اُن خواتین کی زندگی بدلے گی جو گھروں میں کپڑے سینے اور بچوں کو پالنے میں اپنی زندگیاں کھپا دیتی ہیں؟
یہ سوالات محض جذباتی نہیں ہیں بلکہ حقیقت سے جڑے ہوئے ہیں،کیونکہ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہر نئی ایجاد کو طاقتور طبقات نے سب سے پہلے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ چھاپہ خانہ جب ایجاد ہوا تو کتابوں کی چھپائی بڑھی لیکن علم پھر بھی غریبوں کی پہنچ سے دور رہا۔کمپیوٹر جب آیا تو کہا گیا کہ ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھائے گا لیکن آج بھی ڈیجیٹل تقسیم (Digital Divide) موجود ہے۔ بڑے شہروں میں بچے آن لائن کلاسیں لے سکتے ہیں جب کہ دیہاتوں کے بچے انٹرنیٹ کے بغیر رہ جاتے ہیں۔
اے آئی بھی اسی راستے پر جا رہی ہے۔ بڑے بڑے ادارے اسے اپنے منافع بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ صنعتوں میں مزدوروں کو نکال کر روبوٹس لگائے جا رہے ہیں۔ خبروں کی دنیا میں رپورٹرز کی جگہ مشینیں لے رہی ہیں۔
عدالتوں میں فیصلے تجزیاتی سافٹ ویئر پر ڈالے جا رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس سب کے نتیجے میں انسانی زندگی میں خوشحالی بڑھی ہے یا بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اے آئی عام آدمی کی زندگی آسان بنا سکتی ہے، اگر اسے عوامی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے تو صحت کے شعبے میں یہ انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے۔
بیماریاں جلد تشخیص ہو سکتی ہیں، ادویات کی ترسیل بہتر ہو سکتی ہے، تعلیم میں بچوں کو ذاتی سطح پر رہنمائی مل سکتی ہے، زراعت میں کسانوں کی مدد ہو سکتی ہے اور حکومتی نظام شفاف ہو سکتا ہے لیکن یہ سب تب ہی ممکن ہے جب اے آئی کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ چند کمپنیوں کے منافع کے لیے۔
ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اے آئی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے انسانی تعلقات اور سماج کی ساخت پر کیا اثر پڑے گا۔ ایک طرف مشینیں زیادہ عقل مند ہو رہی ہیں اور دوسری طرف انسان اپنے جذبات اور تعلقات سے محروم ہو رہا ہے۔
پہلے لوگ کتابیں پڑھ کر علم حاصل کرتے تھے، اب ایک کلک پر مشین ان کے لیے خلاصے بنا دیتی ہے۔ پہلے لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے تھے، اب وہ سوال بھی مشین سے کرتے ہیں۔ یہ عمل رفتہ رفتہ انسان کو ایک ایسے سماج میں لے جا رہا ہے جہاں علم تو ہے مگر حکمت نہیں معلومات تو ہے مگر تعلق نہیں ٹیکنالوجی تو ہے مگر انسانیت نہیں۔
یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ہم ترقی کے مخالف نہیں۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے دشمن نہیں مگر ہم یہ سوال ضرور اٹھاتے ہیں کہ یہ ترقی کس کے لیے ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ترقی انسان کی خدمت کرے، اس کے دکھ کم کرے، اس کی زندگی بہتر بنائے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اے آئی ایک ایسا ہتھیار بن جائے جو امیر کو اور امیر اور غریب کو اور غریب کر دے۔
ہمارے ملک میں بھی اے آئی کے چرچے ہو رہے ہیں۔ نوجوانوں کو کہا جا رہا ہے کہ یہ ان کے لیے نئے مواقعے لے کر آئے گی مگر کیا ہم نے اپنی تعلیمی اور معاشی پالیسیوں کو اس کے مطابق ڈھالا ہے؟
کیا ہمارے دیہات کے نوجوان بھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکیں گے یا یہ صرف چند بڑے شہروں کے خوشحال طبقے تک محدود رہے گی؟ اگر ہم نے اس فرق کو کم نہ کیا تو اے آئی بھی دیگر ایجادات کی طرح ایک نئے طبقاتی نظام کو جنم دے گی۔
ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اے آئی کے استعمال کے اصول کیا ہوں گے۔ حکومت، تعلیمی اداروں اور سماجی تنظیموں کو مل کر یہ سوچنا ہوگا کہ اے آئی کو صرف منافع نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کا ذریعہ کیسے بنایا جائے۔
ہمیں مزدوروں اور کسانوں کے لیے ایسے پروگرام بنانے ہوں گے جن کے ذریعے وہ اس نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہمیں خواتین اور بچوں کے لیے ایسے مواقع پیدا کرنے ہوں گے جن سے وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔
آخر میں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مشین کبھی انسان کی جگہ نہیں لے سکتی۔ جذبات، ہمدردی، محبت اور انصاف ایسے عناصر ہیں جو مشین کے بس میں نہیں۔ اگر ہم نے اپنی انسانیت کو بچا کر رکھا تو اے آئی واقعی ہماری مددگار بن سکتی ہے، مگر اگر ہم نے سب کچھ مشین کے حوالے کر دیا تو ہم ایک ایسے سماج میں جا پہنچیں گے جہاں انسان محض ایک پرزہ رہ جائے گا۔
اے آئی ایک خواب ہے لیکن یہ خواب کس کا ہے؟ کیا یہ خواب اُن زندگی کے مارے لوگوں کا بھی ہے جو ہر دن کے آغاز پر روزگار اور عزتِ نفس کی تلاش میں نکلتے ہیں؟ یا یہ خواب صرف اُن کمپنیوں کا ہے جو اپنے منافع کے لیے انسان کی محنت کو مشین میں بدلنا چاہتی ہیں؟ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈیں اور اے آئی کو انسان کی غلامی نہیں بلکہ آزادی کا ذریعہ بنائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے استعمال تو کہا گیا کہ کہ اے ا ئی جا رہا ہے اے ا ئی ا کی زندگی انسان کی کے لیے ا رہے ہیں سکتی ہے میں یہ
پڑھیں:
اتفاق رائے ہوگیا تو 28 ویں ترمیم بجٹ سے پہلے آسکتی ہے:رانا ثنا اللہ
ویب ڈیسک:وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور سینیٹر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ اتفاق رائے ہوگیا تو 28 ویں ترمیم بجٹ سے پہلے آسکتی ہے اور کوشش بھی یہی کی جائے گی اور یہ عمل مئی تک بھی ہوگیا تو بہتر رہے گا، تا ہم انہوں نے عندیہ دیا کہ جیسے جیسے اشوز پر اتفاق رائے ہوتا گیا ویسے ویسے وہ قسطوں میں بھی مختلف ترامیم کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔
نجی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ این ایف سی یا صوبوں اور وفاق کے مابین ذرائع کی تقسیم، بلدیاتی انتخابات، پاپولیشن، ہیلتھ اور ہائر ایجوکشن یہ وہ امور ہوں گے جن پر اتفاق رائے ہونا ہوگا اور جیسے ہی یہ ہوجائے گا تو ترمیم آجائے گی۔
ٹریکٹر نے دو پولیس اہلکاروں کو کچل ڈالا،ایک جاں بحق
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جیسے جیسے اتفاق رائے ہوتا جائے گا تو وہ چیز ترمیم کا حصہ بنتی جائے گی اور ایسی صورت میں یہ ٹکڑوں میں بھی آسکتی ہے یعنی مختلف ترامیم کی صورت میں۔
خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے امکانات؟
خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے امکانات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایسی صورت سامنے آتی ہے کہ جہاں قومی سلامتی خطرے میں ہوتی ہے تو پھر قومی تحفظ تو ہر چیز پر فوقیت رکھے گا لیکن لگتا نہیں ہے کہ بات گورنر راج کی حد تک جائے گی۔
عالمی برادری بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کا نوٹس لے:پاکستان
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف چلنے والے خیبرپختونخوا میں آپریشن میں صوبائی حکومت کا اتنا عمل دخل نہیں ہے کیوں کہ اس کی سربراہی مسلح افواج کر رہی ہے اس لیے پی ٹی آئی کی سوچ کے مطابق بیان بازی جاری رہنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔