Express News:
2025-10-13@15:36:05 GMT

اے آئی اور عام انسان

اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT

ہمارے عہد کی کہانی عجیب ہے۔ ایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ہے جو لمحہ بہ لمحہ انسانی زندگی کو نئے موڑ پر لے جا رہی ہے اور دوسری طرف وہ انسان ہے جو آج بھی بھوک بے روزگاری، بیماری اور نا انصافی کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔

ایک طرف مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے چرچے ہیں جو انسان کے تمام مسائل کے حل کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری طرف وہ عام آدمی ہے جسے اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ یہ تضاد ہی ہمارے عہد کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

مصنوعی ذہانت کے بارے میں آج جو خواب دکھائے جا رہے ہیں، وہ ہمیں ماضی کے ان وعدوں کی یاد دلاتے ہیں جو ہر نئی ایجاد اور ہر نئی ترقی کے موقع پر کیے گئے تھے۔ جب بھاپ کے انجن نے پیدائش لی تو کہا گیا کہ یہ مزدوروں کی مشقت کم کر دے گا۔

جب بجلی نے صنعتوں کو روشن کیا تو کہا گیا کہ اب انسان کے لیے آرام کا زمانہ آئے گا۔ جب کمپیوٹر آیا تو کہا گیا کہ یہ ہماری زندگی آسان بنا دے گا لیکن کیا واقعی ایسا ہوا؟ کیا دنیا بھر کے مزدوروں کے اوقات کار کم ہوئے؟ کیا انھیں بہتر تنخواہیں اور آرام ملا؟ یا ان کے کندھوں پر مشینوں کی رفتار کے ساتھ ساتھ دباؤ اور بڑھ گیا؟

آج اے آئی کا شور ہے کہا جا رہا ہے کہ یہ انسان کی زندگی بدل دے گا۔ یہ تعلیم، صحت، معیشت اور صنعت کے ہر شعبے میں انقلاب لے آئے گا مگر یہ انقلاب کس کے لیے ہوگا؟ ان بڑے کارپوریٹ اداروں کے لیے جو آج بھی دنیا کے وسائل پر قابض ہیں یا ان غریبوں کے لیے جو ہر روز سڑک کنارے اپنی روزی تلاش کرتے ہیں؟

کیا اے آئی اُن مزدوروں کی مدد کرے گی جو کارخانوں میں کم ازکم اجرت پر کام کر رہے ہیں؟ کیا یہ اُن خواتین کی زندگی بدلے گی جو گھروں میں کپڑے سینے اور بچوں کو پالنے میں اپنی زندگیاں کھپا دیتی ہیں؟

یہ سوالات محض جذباتی نہیں ہیں بلکہ حقیقت سے جڑے ہوئے ہیں،کیونکہ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہر نئی ایجاد کو طاقتور طبقات نے سب سے پہلے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ چھاپہ خانہ جب ایجاد ہوا تو کتابوں کی چھپائی بڑھی لیکن علم پھر بھی غریبوں کی پہنچ سے دور رہا۔کمپیوٹر جب آیا تو کہا گیا کہ ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھائے گا لیکن آج بھی ڈیجیٹل تقسیم (Digital Divide) موجود ہے۔ بڑے شہروں میں بچے آن لائن کلاسیں لے سکتے ہیں جب کہ دیہاتوں کے بچے انٹرنیٹ کے بغیر رہ جاتے ہیں۔

اے آئی بھی اسی راستے پر جا رہی ہے۔ بڑے بڑے ادارے اسے اپنے منافع بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ صنعتوں میں مزدوروں کو نکال کر روبوٹس لگائے جا رہے ہیں۔ خبروں کی دنیا میں رپورٹرز کی جگہ مشینیں لے رہی ہیں۔

عدالتوں میں فیصلے تجزیاتی سافٹ ویئر پر ڈالے جا رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس سب کے نتیجے میں انسانی زندگی میں خوشحالی بڑھی ہے یا بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اے آئی عام آدمی کی زندگی آسان بنا سکتی ہے، اگر اسے عوامی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے تو صحت کے شعبے میں یہ انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے۔

بیماریاں جلد تشخیص ہو سکتی ہیں، ادویات کی ترسیل بہتر ہو سکتی ہے، تعلیم میں بچوں کو ذاتی سطح پر رہنمائی مل سکتی ہے، زراعت میں کسانوں کی مدد ہو سکتی ہے اور حکومتی نظام شفاف ہو سکتا ہے لیکن یہ سب تب ہی ممکن ہے جب اے آئی کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ چند کمپنیوں کے منافع کے لیے۔

ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اے آئی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے انسانی تعلقات اور سماج کی ساخت پر کیا اثر پڑے گا۔ ایک طرف مشینیں زیادہ عقل مند ہو رہی ہیں اور دوسری طرف انسان اپنے جذبات اور تعلقات سے محروم ہو رہا ہے۔

پہلے لوگ کتابیں پڑھ کر علم حاصل کرتے تھے، اب ایک کلک پر مشین ان کے لیے خلاصے بنا دیتی ہے۔ پہلے لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے تھے، اب وہ سوال بھی مشین سے کرتے ہیں۔ یہ عمل رفتہ رفتہ انسان کو ایک ایسے سماج میں لے جا رہا ہے جہاں علم تو ہے مگر حکمت نہیں معلومات تو ہے مگر تعلق نہیں ٹیکنالوجی تو ہے مگر انسانیت نہیں۔

یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ہم ترقی کے مخالف نہیں۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے دشمن نہیں مگر ہم یہ سوال ضرور اٹھاتے ہیں کہ یہ ترقی کس کے لیے ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ترقی انسان کی خدمت کرے، اس کے دکھ کم کرے، اس کی زندگی بہتر بنائے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اے آئی ایک ایسا ہتھیار بن جائے جو امیر کو اور امیر اور غریب کو اور غریب کر دے۔

ہمارے ملک میں بھی اے آئی کے چرچے ہو رہے ہیں۔ نوجوانوں کو کہا جا رہا ہے کہ یہ ان کے لیے نئے مواقعے لے کر آئے گی مگر کیا ہم نے اپنی تعلیمی اور معاشی پالیسیوں کو اس کے مطابق ڈھالا ہے؟

کیا ہمارے دیہات کے نوجوان بھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکیں گے یا یہ صرف چند بڑے شہروں کے خوشحال طبقے تک محدود رہے گی؟ اگر ہم نے اس فرق کو کم نہ کیا تو اے آئی بھی دیگر ایجادات کی طرح ایک نئے طبقاتی نظام کو جنم دے گی۔

ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اے آئی کے استعمال کے اصول کیا ہوں گے۔ حکومت، تعلیمی اداروں اور سماجی تنظیموں کو مل کر یہ سوچنا ہوگا کہ اے آئی کو صرف منافع نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کا ذریعہ کیسے بنایا جائے۔

ہمیں مزدوروں اور کسانوں کے لیے ایسے پروگرام بنانے ہوں گے جن کے ذریعے وہ اس نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہمیں خواتین اور بچوں کے لیے ایسے مواقع پیدا کرنے ہوں گے جن سے وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔

آخر میں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مشین کبھی انسان کی جگہ نہیں لے سکتی۔ جذبات، ہمدردی، محبت اور انصاف ایسے عناصر ہیں جو مشین کے بس میں نہیں۔ اگر ہم نے اپنی انسانیت کو بچا کر رکھا تو اے آئی واقعی ہماری مددگار بن سکتی ہے، مگر اگر ہم نے سب کچھ مشین کے حوالے کر دیا تو ہم ایک ایسے سماج میں جا پہنچیں گے جہاں انسان محض ایک پرزہ رہ جائے گا۔

اے آئی ایک خواب ہے لیکن یہ خواب کس کا ہے؟ کیا یہ خواب اُن زندگی کے مارے لوگوں کا بھی ہے جو ہر دن کے آغاز پر روزگار اور عزتِ نفس کی تلاش میں نکلتے ہیں؟ یا یہ خواب صرف اُن کمپنیوں کا ہے جو اپنے منافع کے لیے انسان کی محنت کو مشین میں بدلنا چاہتی ہیں؟ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈیں اور اے آئی کو انسان کی غلامی نہیں بلکہ آزادی کا ذریعہ بنائیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے استعمال تو کہا گیا کہ کہ اے ا ئی جا رہا ہے اے ا ئی ا کی زندگی انسان کی کے لیے ا رہے ہیں سکتی ہے میں یہ

پڑھیں:

پت جھڑ

اطلاع ملی کہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کی اہلیہ‘ مالک کائنات کے حضور پیش ہو گئی ہیں۔کافی دیر اکیلا بیٹھ کر سوچتا رہا کہ ڈاکٹر صاحب کتنی تکلیف سے گزر رہے ہوںگے۔اہلیہ کا پیرانہ سالی میں خالق حقیقی کے پاس چلا جانا حد درجہ اذیت ناک ہے۔

جس پر یہ قیامت گزرتی ہے‘ صرف وہی جانتا ہے۔ قریبی رشتہ داری کی وجہ سے خالد صاحب سے دیرینہ رفاقت ہے۔ عزت و احترام کا رشتہ ہے۔ مگر ایک واقعہ نے موقعہ فراہم کیا کہ اس انسان کو اچھی طرح جان سکوں۔

چند دوستوں کی مہربانیوں کی بدولت ایک ایسی مصیبت میں مبتلا ہو گیا جس سے دور دور تک میرا کسی قسم کا تعلق نہیں تھا۔ یہ کوئی پانچ برس پہلے کی بات ہے۔ اس پر آشوب دور میں جس طرح ڈاکٹر صاحب‘ کندھے سے کندھا ملا کر میرے ساتھ کھڑے رہے،اس سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔

ہمارے سازشی ماحول میں ‘ مخصوص افراد‘ جس کی بھی چاہے پگڑی اچھال سکتے ہیں۔ بہر حال خالد صاحب کو حد درجہ درددل رکھنے والا انسان پایا۔ جو اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ ہمیشہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی ثابت قدمی سے ایستادہ رہے۔

خیر‘ کمال ضبط سے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا۔ پرسا دیا۔ ان کی آواز میں شدید غم کی آمیزش تھی۔ معلوم پڑتا تھا کہ درد کی دہلیز پر کھڑے بات کر رہے ہیں۔ رفیقہ حیات سے یکدم دوری‘ پختہ عمر میں سانحہ سے بھی بڑی چیز ہے۔

لہجہ سے معلوم پڑ رہا تھا کہ آنکھوں میں وہ انمول پانی موجود ہے۔جسے آنسو کہا جاتا ہے۔ فیصل آباد جانے کاارادہ کیا۔ نماز جنازہ ‘ دوپہر ڈھائی بجے رکھی گئی تھی۔ لاہور سے فیصل آباد جانا موٹروے کے ذریعے حد درجہ آسان سفر ہے۔

جب موٹروے کے نزدیک پہنچے تو معلوم پڑا کہ وہ تو بند ہے۔ یہی عالم‘ لاہور سے براستہ شیخوپورہ روڈ کا تھا۔ ہر طرف کنٹینر لگا کر راستے بند کر دیے گئے تھے۔ لوگ شدید تکلیف میں اپنے اپنے گھروں اور شہروں کی طرف جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

دل چاہا کہ جو بھی وجہ ہو‘ وزیراعلیٰ کو کم از کم عام لوگوں کی مشکلات کا اتنا اندازہ ہونا چاہیے کہ صرف چند راستے بند کیے جانے کا حکم صادر کیا جائے۔خلق خدا کے لیے ‘ متبادل راستے ‘ کھلے رکھے جائیں۔

مگر یہاں سوچتا کون ہے؟ سمجھتا کون ہے؟ اور وزیراعلیٰ کو سنجیدہ مشورے دینے کی جرأت کون سا سرکاری بابو کر سکتا ہے؟ لاہور شہر سے نکلنے میں کم از کم‘ دو گھنٹے صرف ہوئے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ کس روڈ سے شاہدرہ کراس کیا۔ بہر حال ساڑھے چار گھنٹے میں فیصل آباد پہنچنا ممکن ہوا۔

ڈاکٹر صاحب کے گھر گیا تو بتایا گیا کہ جنازہ اٹھایا جا چکاہے۔ خیرنزدیکی گراؤنڈ میں پہنچا ۔ تو ابھی نماز جنازہ شروع نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نظر آئے تو ایسے لگا کہ انھیں پہلی بار دیکھ رہاہوں۔ ظاہری ہمت تو برقرار تھی۔

مگر پوری شخصیت پر گہرے غم اور الم کے آثار موجود تھے۔ جنازہ پڑھنے کے بعد لوگ‘ ان سے گلے مل کر افسوس کااظہار کر رہے تھے‘ جو ہماری سماجی روایت ہے۔ مگر میری اپنی کیفیت اتنی دگر گوں تھی کہ اس روایت پر پورا نہیں اتر سکا۔ کئی مقامات پر الفاظ آپ کا ساتھ نہیں دیتے۔ جملوں میں قوت اظہار ختم ہو جاتی ہے۔

خالد صاحب کے نزدیک کھڑا تھا ۔ مگر روایتی فقرے نہ کہہ پایا۔ کہ بہت افسوس ہوا ہے۔ دراصل دنیا میں کوئی ایسا آلہ ایجاد نہیں ہوا۔ جو دوسرے انسان کے درد کوماپ سکے اور وہ بھی اپنے قریبی رفیق کے دنیا سے جانے کا واقعہ۔ یقین مانیے ‘ بغلگیر ہو کر دوسرے لوگوں کی طرح یہ رسمی فقرے ادا نہ کر سکا۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس موت کا از حد رنج ہوا ہے۔بہر حال آبائی جنازہ گاہ پہنچا۔ جو ڈاکٹر خالد صاحب کے گھر کے بالکل نزدیک ہے۔ یہاں میرے سسر محترم چوہدری عمر دراز صاحب بھی منوں مٹی تلے محو خواب ہیں۔ تدفین کا مرحلہ بھی حد درجہ مشکل ہوتا ہے۔

مگر ہر ذی روح نے ابدی نیند سونے کے لیے اس تکلیف میں سے گزرنا ہے۔ درود و سلام اور قرآن پاک کی تلاوت کی روشنی میں‘ خاتون کو قبر میں اتارا گیا۔ خدا‘ ان کے لیے آسانیاں در آسانیاں پیدا کرے۔

کافی لوگ موجود تھے۔ لوگ‘ تدفین کو دیکھتے ہوئے‘ یہ تصور نہیں کرتے کہ یہ مرحلہ تو ان پر بھی آنا ہے۔ اس وقت کے تقدس کے لیے تو‘ دنیاداری کی باتیں چھوڑنا سیکھیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو اپنے مرنے پر یقین نہیں ۔

انھیں اس بات پر اعتماد ہے کہ موت تو صرف اور صرف‘ دوسروں کے لیے بنی ہے۔ پرنہیں‘ عزیزان من‘ موت‘ ہر کسی کو اپنے مقررہ وقت پر شکار کرتی ہے۔ تمام انسان‘ ایک طویل لائن میںکھڑے ہیں۔ خدا کی طرف سے اپنے متعین وقت کے منتظر ہیں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ آج کسی کی باری ہے اور کچھ عرصہ بعد‘ یہ ہماری باری ہو گی۔ بات صرف اور صرف ادراک کی ہے۔ تدفین کے مرحلے کے بعد‘ ڈاکٹر صاحب سے ملا۔ مگر خاموش رہا۔ افسوس کے کوئی لفظ ہی نہیں تھے‘ جو غم کو شناخت کر کے ادا کیے جاسکیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور ہونے بھی چاہئیں۔

یہ ایک فطری عمل ہے۔ آواز بھی دھیمی سی تھی۔ تدفین کے بعد‘ دعا کے بعد واپس جانے لگے ۔ تو مجھے ایسا لگا کہ ڈاکٹر خالد یکدم بہت زیادہ بوڑھے ہو چکے ہیں۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہے تھے۔دراصل موت ایک ایسا امر ہے جو لواحقین پر قیامت بن کر گزر جاتا ہے۔

انسان دیکھنے بھالنے میں تو پہلے جیسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مگر لمحوں میں صدیوں کا سفر عبور کر جاتا ہے۔ اس کیفیت میں آ کر کوئی نوجوان ہے ‘ تو ذہنی طور پر فوراً بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی پختہ عمر کا ہے تو وہ بزرگ تر ہو جاتا ہے۔ یہ داخلی مرحل ہیں‘ اور ہر شعور رکھنے والا انسان‘ یہ اندرونی سفر ضرور طے کرتا ہے۔

مجھے ‘ اس نکتہ کا اندازہ‘ اس وقت ہوا‘ جب اچانک میرے والد‘ راؤ حیات صاحب جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی عمر‘ اس وقت ‘ ساٹھ برس اور تین ماہ تھی۔ جب ‘ والدہ نے فون پر بتایا کہ تمہارے والد فوت ہو چکے ہیں۔ تو یقین ہی نہیں آیا‘ کہ ابھی دو دن پہلے تو ملاقات ہوئی تھی۔ اکٹھے کھانا کھایا تھا۔

ان کے چند دوست بھی ہمراہ تھے۔ چہرے پر بشاشت تھی۔ پھر اچانک ‘ فوت کیسے ہو گئے۔ خیر‘ اس وقت میں جوان تھا۔ پختہ عمر کے مقابلے میں حوصلہ بھی زیادہ تھا۔ مگر ‘ تین چار دن‘ میں کوئی بات نہیں کر سکا۔ جو لوگ افسوس کرنے آتے تھے۔

ان سے ایک دو الفاظ سے زیادہ بول نہیں سکتا تھا۔ پھر والدہ نے سمجھایا کہ تمہارے والد‘ اب اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ موت پر یقین تو تھا اور ہے۔ مگر یکدم ‘ کوئی اس طرح بچھڑ جائے گا۔ اس کا کوئی گمان تک نہیں تھا۔ کبھی کبھی یوں لگتا تھا‘ کہ ابھی گاڑی کا ہارن بجے گا۔ اور میرے والد‘ دروازہ کھول کر آرام سے اندر آ جائیں گے۔

مگر صاحب موت کے قافلے میں شامل ہونے والے کب واپس آتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کا معاملہ والدہ کی وفات پر ہوا۔ آخری عمر میں انھیں دائیں طرف کا فالج ہو چکا تھا۔ جو دوائیوں ‘ فیزیوتھرپی سے بہت بہتر ہو گیا تھا۔ والدہ ‘ سرکاری رہائش گاہ میں‘ میرے ساتھ ہی قیام پذیر تھیں۔ دونوں بیٹے اسکول سے آنے کے بعد ‘پہلا کام یہ کرتے تھے کہ دادی کے کمرے میں جا کر ان کے پیر دباتے تھے۔ ڈھیر ساری دعائیں لیتے تھے۔

یہ دعائیں آج بھی ان کے کام آ رہی ہیں۔ والدہ کی وفات تو میرے ہاتھوں میں ہوئی۔ وہ المناک منظر ‘ آج تک میرے ذہن پر نقش ہے۔ کبھی بھلا ہی نہیں پایا۔ لوگ کہتے ہیں کہ وقت‘ تمام غموں کا مداوا ہے۔

ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اپنے عزیزوں کے جانے کا دکھ‘ وقت کے ساتھ ساتھ مزید نمایاں ہو جاتا ہے۔ بس انسان ‘ اس دکھ کے ساتھ‘ سانس لینا سیکھ لیتا ہے۔ شاید ہی زندگی ہے ۔ ویسے دن کاکوئی ایسا لمحہ نہیں ہے جب میںا پنے بچھڑنے والے عزیز واقارب کے لیے دل ہی دل میں دعا نہیں کرتا۔ یہ مندمل نہ ہونے والے زخم ہیں۔ جن سے یادوں کا لہو ہر دم‘ رستا رہتا ہے۔ 

ڈاکٹر خالد صاحب‘ جب تدفین کے بعد‘ آہستہ آہستہ ‘ قدم اٹھاتے ہوئے اپنے گھر جا رہے تھے۔ تو میں سوچ رہا تھا کہ اب وہ بالکل تنہا رہ گئے ہیں۔ ماشاء اللہ ‘ صاحب اولاد ہیں۔ تمام بچے‘ اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔

مگر اولاد سے تو انسان‘ دل کی ہر بات نہیں کر سکتا۔ کئی ایسی خوشیاں ‘ غم اور الجھنیں ہوتی ہیں جن کی بابت مرد‘ صرف اور صرف اپنی شریک حیات سے ہی ذکر کرتا ہے۔ زندگی کی کئی ایسی ویرانیاں ہوتی ہیں۔ جو انسان کی اہلیہ ہی جانتی ہے۔

اور ان کا مداوا ‘ اچھے الفاظ کی صورت میں ضرور کرتی ہے۔ شادی کے بعد ہر مرد اور عورت‘ سنجیدگی کے ان مراحل سے گزرتے ہیں‘ جن کو صرف وہ دونوں ہی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بھی قدرت کے انمٹ اصولوں میں سے ایک فطری کلیہ ہے۔

مجھے تو ایسا لگتا ہے‘ کہ ہم سارے ایک بہت بڑے درخت کے پتے ہیں۔ اپنے مقررہ وقت پر‘ شاخ سے علیحدہ ہو کر راہ فنا پر گر جاتے ہیں۔ یہ پت جھڑ کا موسم اور وقت ‘ ہر بشر کے لیے علیحدہ اور جدا ہے۔ 
 

متعلقہ مضامین

  • بی جے پی دھاندلی کے بغیر ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکتی، عمر عبداللہ
  • کیا مصنوعی ذہانت معذور افراد کے لیے برابری کا سبب بن سکتی ہے؟
  • بار بار احتجاج کے سبب اسلام آباد کی بندش، حکومت اس عمل کو کیسے روک سکتی ہے؟
  • پت جھڑ
  • خیبرپختونخوا میں سیاسی و غیر سیاسی قوتیں متحرک، کیا پی ٹی آئی صوبائی حکومت سے محروم ہو سکتی ہے؟
  • ذمہ داری سے بچنے کی کوشش افغان حکومت کو علاقائی امن کے تقاضوں سے بری الذمہ نہیں کر سکتی، دفتر خارجہ
  • گھریلو کاروبار کرنے والی پاکستانی خواتین کس طرح عالمی سطح پر گرانٹس، فیلوشپس اور نئے مواقع حاصل کر سکتی ہیں؟
  • مائیکروپلاسٹکس انسان کے پیٹ کے بیکٹیریا توازن بدل رہے ہیں: تحقیق
  • کونسی غذا جگر کی عام بیماری سے بچا سکتی ہے؟