Express News:
2025-10-13@17:46:48 GMT

میرے روبرو … عشرت معین سیما کا آئینہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

میں اکثر اوقات دورانِ مطالعہ اس غور و فکر میں مبتلا ہوتا چلے جاتا ہوں کہ ولی دکنی، غالب، میر تقی میر، ذوق سمیت بے شمار شعراء کے گزر جانے کے بعد بھی آج کی موجودہ صدی میں اُردو غزل کا حُسن وجمال اور اس کی دلربائی کا یہ عالم ہے کہ وقت گزرنے پر بھی اس میں اضافہ در اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

غزل کی مثال بہارِ بے خزاں کی سی ہے یا سدا بہار پھول کی مانند ، ہر عہد اس کا عہد ہے، مگر اُردو ادب کے قاری نے اس کی دوسری اصناف میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا مگر غزل سے اس کا لگاؤ پہلے سے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ غزل اُردو ادب کی محبوب صنفِ سخن ہے۔

اسی لیے عشرت معین سیما نے بھی غزل جیسی محبوب صنفِ سخن کو اپنا موضوع بناتے ہوئے اُردو ادب کے منظرنامہ پر وارد ہوئی ہیں۔ ان کے شعری مجموعہ کا نام ’’آئینہ مشکل میں ہے‘‘ جو ہر پڑھنے والے کو پہلی ہی نظر میں مشکل میں ڈال دیتا ہے۔

عشرت معین سیما کا آئینہ جس مشکل سے دوچا ر ہے، اُس میں وہاں خوشبو کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جس میں بہار آنے کی وجہ سے خوشبو اپنا پتا دیتی ہوئی ایسے راستہ پر پہنچا دیتی ہے کہ جہاں ایک یادوں کا طویل سلسلہ چل نکلتا ہے۔ جس میں عمر بھر ماں کے ایک ایسے فرض کی تکمیل کا عکس نمایاں دکھائی دینے لگتا ہے۔

گلے لگایا مجھے ماں نے جب جدا ہوتے

تمام عمر مری رہ نما رہی خوشبو

عشرت معین سیما کا تعلق اُردو زبان وادب سے اتنا بھی پرانا نہیں کہ اہل سخن اور ادیب ان کے نام اورکام سے واقف نہ ہو تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ انھیں لوگ جانتے نہیں ہیں مگر ان کی شاعری سے آشنا ضرور ہے۔

اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم لکھتے ہیں کہ’’ عشرت معین سیما اُردو زبان وادب سے جُڑی ایک اچھی تخلیق کار ہیں میں ذاتی طور پر اُن سے واقف نہیں، البتہ اُن کی شعری پیش رفت کے آثار واحوال سے آگاہی رہی ہے۔‘‘

عشرت معین سیما کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے زندگی میں در پیش آنے والی محرومیوں کے خلاف آوازکو لفظِ اظہارکی صورت میں بیان کیا ہے۔ وہ کُھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کی عادی نہیں بلکہ بند آنکھوں سے خوابوں کی تعبیرکو پا لینے کی جستجو میں مگن رہتی ہیں۔

ان میں کچھ خواب راحت بھری نیند سُلانے میں معاون ثابت بھی ہوتے ہیں تو کچھ خواب ڈراؤنے سپنوں کی داستان سناتے ہوئے گہری نیند سے بیدار کرنے میں تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ رات کی سناٹے میں ستاروں کی خموشی کو بخوبی سننے کا ہنر جانتی ہیں۔

کسی مدھم ستارے کی خموشی سُن رہی ہوں میں

ہوا کی لے پہ رقصاں روشنی کو چُن رہی ہوں میں

عجب سی روشنی ملفوف ہے دل کے اندھیروں میں

کسی فکرِ ضیا کے آج سپنے بُن رہی ہوں میں

اسی غزل کے مقطع میں سچے موتیوں میں چھپی ہوئی حقیقت کو یوں بیان کرتی ہیں۔

میں ننگے پاؤں، سچے موتیوں کی چاہ میں سیماؔ

غموں کے ساحلوں پر سیپ خالی چُن رہی ہوں

اس کے بعد یہی آئینہ ایسے وعدوں کی وجہ سے مشکل میں نظر آتا ہے جن وعدوں کو سچائی کی بنیاد پرکیا گیا ہو اور بعد میں ان ہی وعدوں کو جھوٹ کا لباس پہنا کر مکرجانا کسی کے اعتبارکا قتل ہوگا۔ اُسے ایسے لوگوں سے نفرت ہے جو کسی سے وعدہ کر کے مکرنا جانتے ہو۔

آج مجھ سے تم ایک وعدہ کرو

اب مکرنا کبھی نہ وعدوں سے

’’خوشبو‘‘ کی طرح ان کی ایک غزل ’’ تصویر‘‘ ردیف پر ان کا ایک شعر دیکھیے۔

تجھ سے بچھڑنے کا ہر منظر زندہ رہتا ہے

یادیں مرتی اور نہ مرتی ہے تیری تصویر

ایسی ہی ردیفوں کے علاوہ ان کے شعری مجموعہ ’’ آئینہ مشکل میں ہے‘‘ میں بہت سی آسان اور مشکل قافیہ پیمائی نظر آتی ہے، جب کہ دوسری جانب ان کی شاعری میں محبت اپنے روایتی رنگوں میں ظاہر ہوتی ہوئی محبوب کے ہجر و وصال کی کیفیتوں کو جس طرح محسوس کرتی ہے، اُس میں بڑی سادگی سے کام لیا گیا ہے، مگرکہتے ہیں کہ ہجر کا صحرا تو دل کے اندر بھی ہوتا ہے۔

جس میں شاعر اپنے دل کے اندر آباد رہتے ہوئے بس اپنے دل کی سرحدیں کسی اور سلطنت حُسن کے ساتھ ملانے کا اس حد تک جتن کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس دل پر اپنی حکمرانی کا چرچا کرنے لگے۔ عشرت معین سیما نے بھی ایسا ہی چاہا ہو گا۔

یوں تعلق ہے ہماری دھڑکنوں کا آپ سے

دل کے صحراؤں میں بادل ہوکوئی اُمید کا

پروفیسر احمد عقیل روبی اپنے ایک مضمون میں شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ’’ شاعری کا کھیل جذبے اور زبان کا کھیل ہے جس کے پاس یہ دو چیزیں ہوں اُس کے لیے راستہ آسان ہو جاتا ہے، اگر ان دوچیزوں کے ساتھ ساتھ کسی کو ان کے استعمال کا ڈھنگ بھی آجائے تو پھرکوئی مشکل اُس کا راستہ نہیں روک سکتی۔‘‘

میرے خیال میں عشرت معین سیما کے پاس یہ دونوں چیزیں ہیں۔ اُس کے پاس جذبات واحساسات اور شدتِ غم کو برداشت کرنے حوصلہ بھی موجود ہیں،کیونکہ کسی بھی شاعر یا شاعرہ کی شاعری اُس کے جذبات، احساسات، کسی بھی قسم کی وارداتِ قلبی، معاشرتی دکھوں اور ناہمواریوں پر اس کے دل کی آواز ہوتی ہے۔

بچوں نے مجھ کو گھر سے نکلنے نہیں دیا

رشتہ یہ میرے پاؤں کی زنجیر ہوگیا

………

مری آنکھوں میں اپنے خواب رکھ کر

محبت کیا ہے، وہ سمجھا رہا ہے

………

سیماؔ نمائشوں سے پتا چل گیا ہمیں

کھانے کے دانت اور، دکھانے کے اور تھے

عشرت معین سیما کے شعری مجموعہ ’’ آئینہ مشکل میں ہے‘‘ تو ان کا یہ شعری مجموعہ حمد، نعت، منقبت، غزلیں، نظمیں اور قطعات پر مشتمل ہیں۔ عشرت معین سیما کی شاعری کے ٹوٹے عکس جن محبت کے مناظرکو نمایاں کرتے ہیں وہ تمام تر مناظر آج اورکل کی حقیقتوں کو ایک نیا جنم دیتے ہیں۔

وہ اپنی شاعری میں کہیں بھی سہمی ہوئی نظر نہیں آتی بلکہ ایک مضبوط ارادے کی مانند اندھوں کے شہر میں آئینہ ہاتھ میں تھامے دکھانے کا جتن کر رہی ہے مگر اس آئینے سے کوئی بھی نظر ملانا نہیں چاہتا اور یہی وجہ ہے کہ ان کا آئینہ کئی مشکلوں سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔

عشرت معین سیما کا شمار برلن کے اُن ہر دل عزیز شعرا میں شامل ہیں جنھوں نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے اور اپنا نام بڑی شان وشوکت کے ساتھ بنایا ہے۔

انھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ افسانے میں تحریرکیے، ان کے افسانوں کے مجموعہ کا نام ’’ گرداب اور کنارے‘‘ جب کہ سفرنامہ میں ’’ اٹلی کی جانب گامزن‘‘ اور ایک عدد شعری مجموعہ ’’جنگل میں قندیل‘‘ جب کہ مضامین پر مبنی کتاب’’جرمنی میں اُردو‘‘ اہل دانش کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے خوب دادو تحسین سمیٹ چکے ہیں۔ اب ان کا زیر نظر شعری مجموعہ ’’ آئینہ مشکل میں ہے‘‘ جسے کراچی کے معروف اشاعتی ادارے ’’رنگ ادب‘‘ پبلی کیشنز نے بڑے اہتمام کے ساتھ شایع کیا ہے۔

اس شعری مجموعے کا سرورق معروف آرٹسٹ خاور سلیم نے بڑی فنی مہارت سے بنا کر عشرت معین سیما کے شاعری سفر کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا ئینہ مشکل میں ہے عشرت معین سیما کا ن رہی ہوں شاعری کے کی شاعری کے ساتھ ہیں کہ

پڑھیں:

دونوں استعفوں پر میرے مستند دستخط موجود ہیں، گورنر کے اعتراض پر علی امین کا ردعمل

سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ 8 اکتوبر کا استعفیٰ جسے پہلے مسترد کردیا گیا تھا، اب اسے تسلیم کرلیا گیا ہے، علی امین نے سوشل میڈیا پر گورنر کی پوسٹ پر جواب دیتے ہوئے دونوں استعفوں کی کاپی بھی شیئر کردی۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کی جانب سے استعفوں پر اعتراض پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا رد عمل سامنے آگیا۔ وزیراعلیٰ علی امین نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں لکھا کہ انہوں نے اپنے دونوں استعفے 8 اور 11 اکتوبر کو اپنے مستند دستخط کے ساتھ جمع کرائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 8 اکتوبر کا استعفیٰ جسے پہلے مسترد کردیا گیا تھا، اب اسے تسلیم کرلیا گیا ہے، علی امین نے سوشل میڈیا پر گورنر کی پوسٹ پر جواب دیتے ہوئے دونوں استعفوں کی کاپی بھی شیئر کردی۔ یاد رہے کہ گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے علی امین کے دستخط پر اعتراض لگا کر ان کا  استعفیٰ واپس کردیا۔ گورنر خیبر پختونخوا فیصل کنڈی کی جانب سے لکھے گئے خط میں علی امین کے دونوں استعفوں پر دستخط کو مختلف اور غیرمشابہ قرار دیا گیا۔ گورنر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے استعفوں کی تصدیق کے لیے وزیراعلیٰ علی امین کو 15 اکتوبر کو دن 3 بجے گورنر ہاؤس آنے کی ہدایت کردی۔

متعلقہ مضامین

  • دونوں استعفوں پر میرے مستند دستخط موجود ہیں، گورنر کے اعتراض پر علی امین کا ردعمل
  • میرے نام کیساتھ زرداری، بھٹو، شریف نہیں، اپنے بازو سے یہاں پہنچا، نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا پہلا خطاب
  • میرے نام کے ساتھ زرداری، شریف نہ بھٹو ہے، اپنی محنت سے یہاں تک پہنچاہوں،سہیل آفریدی
  • دونوں استعفوں پر میرے دستخط موجود ہیں، علی امین گنڈا پور کی تصدیق
  • ’میں نے ایک ایک کرکے نیند کی گولیاں جمع کیں تاکہ قتل کا منصوبہ مکمل کر سکوں‘
  • دونوں استعفوں پر موجود دستخط میرے ہی ہیں، گورنر کے اعتراض لگانے پر علی امین گنڈاپور کا ردعمل
  • اے آر رحمان کا مشہور گانا ‘خواجہ میرے خواجہ’ کے بارے میں بڑا انکشاف
  • بھارت پراکسی وار کے بعد اب جنگ کے لئے افغانستان کو استعمال کر رہا ہے، عشرت العباد
  • آخری البم میری موت کے بعد ریلیز کیا جائے گا: ایڈ شیرن