Express News:
2025-11-28@01:25:31 GMT

میرے روبرو … عشرت معین سیما کا آئینہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

میں اکثر اوقات دورانِ مطالعہ اس غور و فکر میں مبتلا ہوتا چلے جاتا ہوں کہ ولی دکنی، غالب، میر تقی میر، ذوق سمیت بے شمار شعراء کے گزر جانے کے بعد بھی آج کی موجودہ صدی میں اُردو غزل کا حُسن وجمال اور اس کی دلربائی کا یہ عالم ہے کہ وقت گزرنے پر بھی اس میں اضافہ در اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

غزل کی مثال بہارِ بے خزاں کی سی ہے یا سدا بہار پھول کی مانند ، ہر عہد اس کا عہد ہے، مگر اُردو ادب کے قاری نے اس کی دوسری اصناف میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا مگر غزل سے اس کا لگاؤ پہلے سے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ غزل اُردو ادب کی محبوب صنفِ سخن ہے۔

اسی لیے عشرت معین سیما نے بھی غزل جیسی محبوب صنفِ سخن کو اپنا موضوع بناتے ہوئے اُردو ادب کے منظرنامہ پر وارد ہوئی ہیں۔ ان کے شعری مجموعہ کا نام ’’آئینہ مشکل میں ہے‘‘ جو ہر پڑھنے والے کو پہلی ہی نظر میں مشکل میں ڈال دیتا ہے۔

عشرت معین سیما کا آئینہ جس مشکل سے دوچا ر ہے، اُس میں وہاں خوشبو کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جس میں بہار آنے کی وجہ سے خوشبو اپنا پتا دیتی ہوئی ایسے راستہ پر پہنچا دیتی ہے کہ جہاں ایک یادوں کا طویل سلسلہ چل نکلتا ہے۔ جس میں عمر بھر ماں کے ایک ایسے فرض کی تکمیل کا عکس نمایاں دکھائی دینے لگتا ہے۔

گلے لگایا مجھے ماں نے جب جدا ہوتے

تمام عمر مری رہ نما رہی خوشبو

عشرت معین سیما کا تعلق اُردو زبان وادب سے اتنا بھی پرانا نہیں کہ اہل سخن اور ادیب ان کے نام اورکام سے واقف نہ ہو تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ انھیں لوگ جانتے نہیں ہیں مگر ان کی شاعری سے آشنا ضرور ہے۔

اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم لکھتے ہیں کہ’’ عشرت معین سیما اُردو زبان وادب سے جُڑی ایک اچھی تخلیق کار ہیں میں ذاتی طور پر اُن سے واقف نہیں، البتہ اُن کی شعری پیش رفت کے آثار واحوال سے آگاہی رہی ہے۔‘‘

عشرت معین سیما کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے زندگی میں در پیش آنے والی محرومیوں کے خلاف آوازکو لفظِ اظہارکی صورت میں بیان کیا ہے۔ وہ کُھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کی عادی نہیں بلکہ بند آنکھوں سے خوابوں کی تعبیرکو پا لینے کی جستجو میں مگن رہتی ہیں۔

ان میں کچھ خواب راحت بھری نیند سُلانے میں معاون ثابت بھی ہوتے ہیں تو کچھ خواب ڈراؤنے سپنوں کی داستان سناتے ہوئے گہری نیند سے بیدار کرنے میں تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ رات کی سناٹے میں ستاروں کی خموشی کو بخوبی سننے کا ہنر جانتی ہیں۔

کسی مدھم ستارے کی خموشی سُن رہی ہوں میں

ہوا کی لے پہ رقصاں روشنی کو چُن رہی ہوں میں

عجب سی روشنی ملفوف ہے دل کے اندھیروں میں

کسی فکرِ ضیا کے آج سپنے بُن رہی ہوں میں

اسی غزل کے مقطع میں سچے موتیوں میں چھپی ہوئی حقیقت کو یوں بیان کرتی ہیں۔

میں ننگے پاؤں، سچے موتیوں کی چاہ میں سیماؔ

غموں کے ساحلوں پر سیپ خالی چُن رہی ہوں

اس کے بعد یہی آئینہ ایسے وعدوں کی وجہ سے مشکل میں نظر آتا ہے جن وعدوں کو سچائی کی بنیاد پرکیا گیا ہو اور بعد میں ان ہی وعدوں کو جھوٹ کا لباس پہنا کر مکرجانا کسی کے اعتبارکا قتل ہوگا۔ اُسے ایسے لوگوں سے نفرت ہے جو کسی سے وعدہ کر کے مکرنا جانتے ہو۔

آج مجھ سے تم ایک وعدہ کرو

اب مکرنا کبھی نہ وعدوں سے

’’خوشبو‘‘ کی طرح ان کی ایک غزل ’’ تصویر‘‘ ردیف پر ان کا ایک شعر دیکھیے۔

تجھ سے بچھڑنے کا ہر منظر زندہ رہتا ہے

یادیں مرتی اور نہ مرتی ہے تیری تصویر

ایسی ہی ردیفوں کے علاوہ ان کے شعری مجموعہ ’’ آئینہ مشکل میں ہے‘‘ میں بہت سی آسان اور مشکل قافیہ پیمائی نظر آتی ہے، جب کہ دوسری جانب ان کی شاعری میں محبت اپنے روایتی رنگوں میں ظاہر ہوتی ہوئی محبوب کے ہجر و وصال کی کیفیتوں کو جس طرح محسوس کرتی ہے، اُس میں بڑی سادگی سے کام لیا گیا ہے، مگرکہتے ہیں کہ ہجر کا صحرا تو دل کے اندر بھی ہوتا ہے۔

جس میں شاعر اپنے دل کے اندر آباد رہتے ہوئے بس اپنے دل کی سرحدیں کسی اور سلطنت حُسن کے ساتھ ملانے کا اس حد تک جتن کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس دل پر اپنی حکمرانی کا چرچا کرنے لگے۔ عشرت معین سیما نے بھی ایسا ہی چاہا ہو گا۔

یوں تعلق ہے ہماری دھڑکنوں کا آپ سے

دل کے صحراؤں میں بادل ہوکوئی اُمید کا

پروفیسر احمد عقیل روبی اپنے ایک مضمون میں شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ’’ شاعری کا کھیل جذبے اور زبان کا کھیل ہے جس کے پاس یہ دو چیزیں ہوں اُس کے لیے راستہ آسان ہو جاتا ہے، اگر ان دوچیزوں کے ساتھ ساتھ کسی کو ان کے استعمال کا ڈھنگ بھی آجائے تو پھرکوئی مشکل اُس کا راستہ نہیں روک سکتی۔‘‘

میرے خیال میں عشرت معین سیما کے پاس یہ دونوں چیزیں ہیں۔ اُس کے پاس جذبات واحساسات اور شدتِ غم کو برداشت کرنے حوصلہ بھی موجود ہیں،کیونکہ کسی بھی شاعر یا شاعرہ کی شاعری اُس کے جذبات، احساسات، کسی بھی قسم کی وارداتِ قلبی، معاشرتی دکھوں اور ناہمواریوں پر اس کے دل کی آواز ہوتی ہے۔

بچوں نے مجھ کو گھر سے نکلنے نہیں دیا

رشتہ یہ میرے پاؤں کی زنجیر ہوگیا

………

مری آنکھوں میں اپنے خواب رکھ کر

محبت کیا ہے، وہ سمجھا رہا ہے

………

سیماؔ نمائشوں سے پتا چل گیا ہمیں

کھانے کے دانت اور، دکھانے کے اور تھے

عشرت معین سیما کے شعری مجموعہ ’’ آئینہ مشکل میں ہے‘‘ تو ان کا یہ شعری مجموعہ حمد، نعت، منقبت، غزلیں، نظمیں اور قطعات پر مشتمل ہیں۔ عشرت معین سیما کی شاعری کے ٹوٹے عکس جن محبت کے مناظرکو نمایاں کرتے ہیں وہ تمام تر مناظر آج اورکل کی حقیقتوں کو ایک نیا جنم دیتے ہیں۔

وہ اپنی شاعری میں کہیں بھی سہمی ہوئی نظر نہیں آتی بلکہ ایک مضبوط ارادے کی مانند اندھوں کے شہر میں آئینہ ہاتھ میں تھامے دکھانے کا جتن کر رہی ہے مگر اس آئینے سے کوئی بھی نظر ملانا نہیں چاہتا اور یہی وجہ ہے کہ ان کا آئینہ کئی مشکلوں سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔

عشرت معین سیما کا شمار برلن کے اُن ہر دل عزیز شعرا میں شامل ہیں جنھوں نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے اور اپنا نام بڑی شان وشوکت کے ساتھ بنایا ہے۔

انھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ افسانے میں تحریرکیے، ان کے افسانوں کے مجموعہ کا نام ’’ گرداب اور کنارے‘‘ جب کہ سفرنامہ میں ’’ اٹلی کی جانب گامزن‘‘ اور ایک عدد شعری مجموعہ ’’جنگل میں قندیل‘‘ جب کہ مضامین پر مبنی کتاب’’جرمنی میں اُردو‘‘ اہل دانش کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے خوب دادو تحسین سمیٹ چکے ہیں۔ اب ان کا زیر نظر شعری مجموعہ ’’ آئینہ مشکل میں ہے‘‘ جسے کراچی کے معروف اشاعتی ادارے ’’رنگ ادب‘‘ پبلی کیشنز نے بڑے اہتمام کے ساتھ شایع کیا ہے۔

اس شعری مجموعے کا سرورق معروف آرٹسٹ خاور سلیم نے بڑی فنی مہارت سے بنا کر عشرت معین سیما کے شاعری سفر کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا ئینہ مشکل میں ہے عشرت معین سیما کا ن رہی ہوں شاعری کے کی شاعری کے ساتھ ہیں کہ

پڑھیں:

ہمارے بھاجی…جج صاحب (آخری قسط)

ہائی کورٹ کے بہت سے ریٹائرڈ جج صاحبان جنھوں نے بھائی جان کے ساتھ serve کیا تھا، تعزیّت کے لیے آتے رہے اور ان کے مختلف واقعات سناتے رہے ۔ (ر) جسٹس افتخار شاہ صاحب نے بتایا کہ ’’ جج صاحب ملتان میں ایڈیشنل سیشن جج تھے، میں بھی وہیں تعیّنات تھا۔ ڈسٹرکٹ جج نے تمام جج صاحبان کو چائے پر بلایا، چیمہ صاحب آئے تو سب سے بڑے تپاک سے ملے مگر ایک جج سے ہاتھ نہیں ملایا۔ ڈسٹرکٹ جج نے وجہ پوچھی تو چیمہ صاحب نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا، ’’یہ حرام کھانا چھوڑ دے اور کرپشن سے توبہ کرلے تو میں اس سے گلے ملا کروں گا‘‘۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا ’’عدلیہ اور انتظامیہ کے کئی افسروں نے کرپشن کے بارے میں ’ Zero tolerance‘ کے صرف بورڈ اور اشتہار لگائے ہوئے ہیں۔

اگر کسی نے کرپشن کو بالکل برداشت نہیں کیا اور ضلعی عدالتوں سے کرپشن کا مکمّل خاتمہ کیا ہے تو وہ صرف جسٹس افتخار چیمہ صاحب تھے، بلکہ عدلیہ ہی نہیں دُوسرے محکموں کے افسرا بھی ان کے ڈر سے محتاط ہوجاتے تھے اور ہر محکمے میں کرپشن کم ہوجاتی تھی‘‘۔ درجنوں جج صاحبان بتاتے رہے کہ ’’جسٹس چیمہ صاحب جہاں کرپٹ لوگوں کو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے وہاں ایماندار افسروں کو بے پناہ عزّت دیتے تھے، ان کی سرپرستی کرتے تھے اور ان کے لیے ڈھال بن جاتے تھے‘‘۔

(ر) جسٹس مجاہد مستقیم نے بھائی جان کے ساتھ بڑا عرصہ گذارا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’’جج صاحب کرپٹ لوگوں کے لیے ننگی تلوار مگر رزقِ حلال کھانے والے ایماندار ججوں کے لیے پیار ہی پیار تھے۔ وہ اپنی تمام تر شفقتیں نیک نام منصفین پر نچھاور کردیتے تھے اور ان کے لیے جج صاحب کی حیثیّت ایک باپ کی ہوتی تھی۔

لوگ اپنے ذاتی مسائل بھی جج صاحب کو بتاتے اور وہ انھیں حل کرنے کی پوری کوشش کیا کرتے تھے‘‘۔ جسٹس مجاہد مستقیم صاحب کا کہنا تھا کہ کئی سیشن جج صاحبان خود رشوت نہیں لیتے، مگر لوگوں کو انصاف دینے کا جو جذبہ اور جنون (passion) جسٹس افتخار چیمہ صاحب میں تھا وہ کہیں اور نظر نہیں آیا، لگتا تھا کہ وہ قرونِ اولیٰ کی مثالوں کی پورے اخلاص کے ساتھ پیروی کررہے ہیں۔

ان کی بہت سی چیزیں inspire کرتی ہیں، سادگی ایسی کہ انسان حیران رہ جائے۔اپنے خالق و مالک کا ڈر اور آخرت میں جوابدہی کا احساس اس قدر تھا کہ چاہے کسی بڑے سے بڑے وی آئی پی نے مٹینگ کے لیے بلایا ہوا ہے مگر نماز کا وقت ہوگیا ہے تو سب کچھ چھوڑ کر بارگاہِ الٰہی میں جاکر سجدہ ریز ہوجائیں گے، دین اور ملک کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے، ایسی غیرمعمولی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں‘‘۔

ہائی کورٹ سے ریٹائر ہوکر بھائی جان نے کسی شہر میں رہائش اختیار نہیں کی بلکہ وہ اپنے گاؤں آگئے اور آبائی گھر میں ساری زندگی گذاردی۔ بلاشبہ ان کا لباس، خوراک اور طرزِ زندگی انتہائی سادہ تھی۔ گاؤں کی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے اور نمازِ فجر کے بعد ماسٹر مشتاق احمد سمیت کچھ اور نمازیوں کے ساتھ لمبی سیر کیا کرتے تھے۔ مگر جہاں وہ تعیّنات ہوتے تھے وہاں سابق آئی جی پرویز راٹھور کے بقول عدالتی عملے کے علاوہ دوسرے محکموں کے ملازم بھی ان کے ڈر کی وجہ سے ایک دوسرے کو پوچھتے پھرتے تھے ’’جج صاحب ٹرین سے اترے ہیں کہ نہیں؟ چیمہ صاحب (جو کافی عرصہ بس یا ٹرین پر سفر کرتے رہے) ٹرین سے اتر آتے تو حرام خوروں کے چہرے اُتر جاتے اور رنگ اُڑ جاتے تھے‘‘۔ پنجاب کے سابق آئی جی چوہدری سردار محمد بھی کہا کرتے تھے کہ ’’جس ضلع میں افتخار چیمہ صاحب سیشن جج لگے ہوں وہاں قتل اور ڈا کے سمیت سنگین جرائم کا گراف نیچے گرجاتا ہے‘‘۔

وہ ایک شاندار اور یادگار اننگ کھیلنے کے بعد منصبِ قضا سے ریٹائر ہو کر گاؤں آگئے اور کاشتکاری میں مصروف ہوگئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے کچھ سالوں بعد 2008کے انتخابات قریب آئے تو وزیرآباد کے معزّزین کا وفد انھیں ملا اور انھیں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اُن کا اصرار تھا کہ ’’ہم اس حلقے کی جاگیردارانہ سیاست تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور یہ کام صرف آپ کرسکتے ہیں، آپ کی فیمیلی اور تینوں بھائیوں کی قابلِ رشک شہرت اور نیک نامی ہی عوام کو سیاست کے قابضین سے نجات دلا سکتی ہے‘‘۔ راقم عملی سیاست (اس کے پست اور غیر اخلاقی کلچر کی وجہ سے) کے خلاف تھا، مگر کچھ لوگ ہمارے ماموں جان جسٹس افضل چیمہ صاحب کے پاس جاپہنچے اور ان سے اپنے حق میں فیصلہ لے کر مسلم لیگ ن کے لیے جج صاحب کی درخواست بھیج دی۔ انٹرویو کے روز وزیرآباد کے انتہائی باکردار اور باضمیر قانون دان خواجہ جمیل بھی ان کے ہمراہ گئے۔

چند روز پہلے خواجہ صاحب نے پہلی بار بتایا کہ ’’مختلف امیدواروں کے انٹرویو ز طویل ہوگئے تو جج صاحب کہنے لگے خواجہ صاحب اٹھیں نماز کا وقت ہوگیا ہے، میں نے ایک دو بار کہا کہ انٹرویو کے وقت آپ کی یہاں موجودگی ضروری ہے مگر انھوں نے سختی سے کہا چھوڑیں انٹرویو کو، اُٹھیں نمازکا وقت جارہا ہے، ہم نے مسجد تلاش کی وہاں جج صاحب نے نماز ادا کی، اتنے میں دوسری نماز کا وقت بھی ہوگیا،میںانٹرویو یاد کراتا رہا مگر جج صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ نماز ادا کرنے کے بعد واپس آئے تو انٹرویو ز ختم ہوچکے تھے۔ ایک دو روز بعد ان کا ٹکٹ ان کے گھر پہنچا دیا گیا، جج صاحب واحد امیدوار تھے جنھیں مسلم لیگ کی قیادت نے بغیر ملے اور دیکھے ٹکٹ دے دیا‘‘ ۔

ان کی مہم بھی وکھری ٹائپ کی تھی، وہ اپنی پرانی سی کرولا کار میں نکلتے، پھر اور ساتھی بھی شامل ہوجاتے مگر اللہ نے ان کی شخصیّت میں اتنی جاذبیّت اور تقریر میں ایسی تاثیر رکھ دی تھی کہ لوگ کہنے لگے کہ ’’جج صاحب جہاں تقریر کر آتے ہیں، سارا گاؤں ان کا مرید ہوجاتا ہے‘‘۔ ان کی خلوصِ دل سے نکلی ہوئی باتیں لوگوں کے دلوں میں اترگئیں اور وہ انتہائی بااثر حریف کو پچیّس ہزار کی لیڈ سے شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ جج صاحب کے ایم این اے بننے کے بعد پوری تحصیل (اب ضلع) وزیرآباد کا سیاسی کلچر یکسر تبدیل ہوگیا، ان کے آس پاس بڑے چوہدریوں کے بجائے مڈل کلاس کے پڑھے لکھے افراد نظر آنے لگے، شرافت اور دیانت کو عزّت و توقیر ملی، بدمعاش اور ٹاؤٹ قسم کے لوگ دبک گئے اور میرٹ، انصاف اور خدمت کا کلچر پروان چڑھنے لگا۔

جج صاحب عدلیہ سے سیاست میں آئے تھے مگر یہاں بھی کرپشن کے خلاف ان کا جوش اور ولولہ اسی طرح قائم رہا، علاقے کے لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب انھوں نے وزیرآباد کے ایک جلسے میں صوبائی اسمبلی کے دونوں ممبران کی موجودگی میں کہا کہ ’’ترقیاتی کاموں کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، کام اگر غیر معیاری ہوا تو ٹھیکیدار کو پوری سڑک نئے سرے سے بنانا ہوگی، اور سب سن لیں کہ ترقیاتی فنڈز میں سے کمیشن لینا ایسا ہے جیسے سُور کا گوشت کھانا‘‘۔ یہ سن کر لوگوں کی نظریں ایم پی ایز کی جانب اٹھ گئیں، انھوں نے سمجھا کہ ان کی توہین ہوئی ہے ، لہٰذا وہ ناراض ہوکر چلے گئے مگر جج صاحب کسی ناراضگی کو خاطر میں نہ لائے۔ اگر کوئی غلط کام کہتا تو اسے بھی جھاڑ دیتے، بالآخر ان کے قریبی ساتھیوں نے کہنا شروع کردیا کہ ’’بہتر ہے کہ جج صاحب لوگوں سے کم ملا کریں‘‘۔ اس کے باوجود وہ دوسری بار چالیس ہزار کی لیڈ سے کامیاب ہوئے۔

اسمبلی کے فلور پر بھی انھوں نے ہمیشہ ضمیر کی آواز بلند کی، جب بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامیوں (جن میں سے زیادہ تر جماعتِ اسلامی کے رہنما تھے) کو سزائیں اور پھانسیاں دی جانے لگیں تو انھوں نے ایوان میں بڑے سخت الفاظ میں بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی حکومت کی مذمّت کی۔ چوہدری نثار علی نے گلہ کیا ’’آپ نے حکومتِ پاکستان کی پالیسی کے خلاف بات کی ہے‘‘۔ تو انھوں نے ترنت جواب دیا ’’مجھے نہیں، مسلم لیگ کی حکومت کو اپنی پالیسی بدلنی چاہیے اور اس اِشوکوعالمی فورمز پر اُٹھاناچاہیے‘‘۔ انھوں نے سیاست یا عہدے سے کبھی ذاتی مفاد نہیں اُٹھایا، بیٹوں کے کیرئر یا نوکری کے لیے بھی کبھی سفارش نہیں کی۔

میدانِ سیاست میں آکربھی وہ سیاستدان نہ بن سکے۔ ان کا اُجلا کردار، صاف دلی اور حق گوئی نے انھیں لوگوں کا محبوب بنادیا تھا، 9 نومبر کو دھاڑیں مارتے ہوئے ہزاروں لوگوں نے اپنے محبوب ’جج صاحب ‘ کو الوداع کہا۔ خالقِ کائنات کو ان کا اخلاص، سادگی، حق گوئی اور خدا خوفی اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے اجلے کردار کے اس صاف دل بندے کے دامن پر کوئی داغ نہیں لگنے دیا۔ شکست کا بھی نہیں۔ انھوں نے تین بار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور تینوں بار کامیاب رہے۔

’الخدمت‘ کے اکابرین بتاتے رہے کہ ’’مستحقین اور غزہ کے مظلومین کے لیے وہ ہماری توقّع سے کہیں بڑھ کر حصّہ ڈالا کرتے تھے‘‘ سیاست میں ان کا سب سے زیادہ فوکس تعلیم رہا، درجنوں کالجوں کے اساتذہ نے آکر بتایا ’’ ہمارا کالج بھی جج صاحب نے بنوایا تھا‘‘ 9 نومبر کو ہمارے کالج میں ان کا خطاب تھا مگر اسی روز وہ اپنی یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ کر اپنے خالق کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کی باتیں نہ ختم ہونے والی ہیںمگر جگہ محدود ہے اس لیے اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ یا الٰہی ہمارے بھائی جان کی کوتاہیاں اور لغزشیں معاف فرماکر انھیں اپنے مقرّبین کے ساتھ جگہ عطا فرمائیں۔

متعلقہ مضامین

  • یہی اصل پیغام ہے
  • ظلم نہیں عدل و انصاف کی جہاں گیری
  • چار بیویوں کی اجازت ؟
  • ہر دل عزیز محمد عزیز
  • دہشت گردی: اسباب اور سہ رخی حل
  • بااثر ٹھیکے دار کو کون روکے گا؟؟
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ
  • ہمارے بھاجی…جج صاحب (آخری قسط)
  • پروین شاکر کا عصرِ حاضر کی شاعرات میں بلند مقام ہے‘ پروفیسر حسین فاطمہ
  • ’میرے ابو بہت ڈانٹیں گے‘، سیلفی فرمائش پر نسیم شاہ کا خاتون مداح کو جواب، ویڈیو وائرل