وٹکوف کی جانب سے نیتن یاہو کی تعریف کی کوشش پر اسرائیلی شہریوں نے ہنگامہ برپا کردیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
جیسے ہی امریکی ایلچی سٹیو وٹکوف نے یرغمالی چوک میں اپنی تقریر کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا نام لیا تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔
سینکڑوں مظاہرین نے وٹکوف کی تقریر میں اس وقت خلل ڈال دیا جب انہوں نے کہا کہ غزہ معاہدے تک پہنچنے میں نیتن یاہو کا ایک اہم حصہ تھا۔ مظاہرین نے زوردار نعرے لگائے تو اقوام متحدہ کے ایلچی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ مجھے اپنی بات ختم کرنے دیں۔
ويتكوف يحاول مدح نتنياهو في ساحة الرهائن بتل أبيب لكنه يجد صعوبة في إكمال فكرته بسبب صيحات الاستهجان من عشرات الآلاف #العربية #غزة #ويتكوف #ترمب pic.
— العربية (@AlArabiya) October 11, 2025
امریکی ایلچی نے تقریر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ اجتماع امن کے لیے ہے۔ کاش صدر ڈونلڈ ٹرمپ میرے ساتھ ہوتے۔
مشرق وسطیٰ میں امن ناممکن نہیں
وٹکوف نے مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امن ناممکن نہیں، انہوں نے غزہ معاہدے تک پہنچنے میں عرب رہنماؤں کے اہم کردار پر زور دیا۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ٹرمپ نے دنیا کو دکھایا ہے کہ طاقت اور امن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر نے ثابت کیا ہے کہ جرات مند قیادت دنیا کو بدل سکتی ہے۔ واضح رہے نیتن یاہو کو غزہ پر جاری جنگ اور پٹی میں درجنوں یرغمالیوں کی حراست کی وجہ سے دو سال تک اسرائیلی غصے کا سامنا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نیتن یاہو
پڑھیں:
چین اور یورپی یونین کا غزہ میں مغویوں کی رہائی کا خیرمقدم، ٹرمپ کے کردار کی تعریف
بیجنگ / برسلز: چین اور یورپی یونین نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس کی جانب سے اسرائیلی مغویوں کی رہائی کا خیرمقدم کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لن جیان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ چین اس پیشرفت کو خوش آئند سمجھتا ہے اور خطے میں استحکام اور امن کے قیام کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے بھی مغویوں کی رہائی کو “امن کی جانب ایک اہم سنگِ میل” قرار دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (X) پر جاری بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ “صدر ٹرمپ نے اس تاریخی پیشرفت کو ممکن بنایا۔”
غزہ میں حالیہ جنگ بندی اور مغویوں کی رہائی کو عالمی برادری ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھ رہی ہے، جو خطے میں تشدد کے خاتمے اور مذاکرات کے آغاز کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔