آر ایس ایس پر پابندی کا مطالبہ: بھارتی ریاستی وزیر کو جان سے مارنے کی دھمکیاں
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیمآر ایس ایس اور حکمران جماعت بی جے پی کے گٹھ جوڑ نے ملک کے سیاسی ماحول کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ انتہاپسند نظریات کے خلاف آواز اٹھانا اب سیاست دانوں کے لیے بھی خطرناک بنتا جا رہا ہے۔
کرناٹک سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے وزیر پریانک کھرگے کو آر ایس ایس کی سرگرمیوں پر پابندی کے مطالبے کے بعد جان سے مارنے کی سنگین دھمکیاں دی گئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص — جسے آر ایس ایس کا کارکن بتایا جا رہا ہے — کھلے عام انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
پریانک کھرگے نے اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے شدید ردِعمل دیا اور کہا کہ آر ایس ایس کو مودی سرکار ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے تاکہ عوام کی توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹائی جا سکے اور سیاسی مخالفین کی آواز دبائی جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ مودی حکومت نہ صرف آر ایس ایس کےانتہا پسند ہندوتوا ایجنڈے کی پشت پناہی کر رہی ہے بلکہ ریاستی سطح پر اسے نظریاتی اور عملی سپورٹ بھی حاصل ہے۔
پریانک کھرگے نے واضح طور پر مطالبہ کیا کہ آر ایس ایس کی غیر قانونی اور پرتشدد سرگرمیوں پر فوری پابندی عائد کی جائے، کیونکہ یہ تنظیم معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہی ہے اور شہریوں کے ذہنوں میں نفرت، تعصب اور شدت پسندی کا زہر بھر رہی ہے۔یہ واقعہ اس بات کا عکاس ہے کہ بھارت میں سیاسی اختلاف رائے اب صرف نظریاتی ٹکراؤ نہیں رہا، بلکہ جان لیوا خطرہ بن چکا ہے — اور ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا جمہوریت کی سب سے بڑی دعویدار ریاست میں اختلاف کرنے والوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ باقی رہ گئی ہے؟
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا ر ایس ایس رہی ہے
پڑھیں:
چند ماہ قبل ٹی ایل پی نے مجھے ریپ اور قتل کی دھمکیاں دی تھیں، صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری
وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیم تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) کے خلاف کارروائی کا فیصلہ صوبائی حکومت نے مکمل قانونی طریقے سے کیا ہے، کیونکہ اس گروہ کا ریکارڈ تشدد، قانون شکنی اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے سے بھرا ہوا ہے، چند ماہ قبل ٹی ایل پی نے مجھے ریپ اور قتل کی دھمکیاں دی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کے مطالبات میں فلسطین کا ذکر نہیں تھا، جتھوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے، طلال چوہدری
وی نیوز کو خصوصی انٹرویو میں عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ٹی ایل پی کے خلاف پہلے کیا ہوا، اس کا جواب میں نہیں دے سکتی، میں صرف ابھی کا جواب دے سکتی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی یہ گروہ سڑکوں پر نکلتا ہے تو لاشیں گرتی ہیں، ریاست مفلوج ہوتی ہے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچتا ہے، اسی لیے قانون کے تحت ایسے گروہوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کابینہ نے پابندی کی منظوری دے دی ہے اور سمری وزیر اعلیٰ پنجاب کے دستخط کے بعد وفاقی حکومت کو بھیجی جارہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اب ملک میں جتھوں کی سیاست نہیں ہوگی، رضوی برادران کو ابھی گرفتار نہیں کیا گیا تاہم ان کی گرفتاری کے لیے اقدامات جاری ہیں۔ عظمیٰ بخاری کے مطابق انسانی جانوں کا معاملہ ہے، اس لیے احتیاط سے کارروائی کی جارہی ہے۔
’خاص گروپ کی مساجد محکمہ اوقاف کے حوالے کی گئی ہیں‘مساجد سے متعلق سوال پر وزیراطلاعات پنجاب نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ مساجد بند کردی گئی ہیں یا عبادت پر کوئی قدغن لگائی گئی ہے۔ صرف اس مخصوص گروہ کی زیرانتظام مساجد کو محکمہ اوقاف کے سپرد کیا گیا ہے۔ ان مساجد میں نماز، اذان اور عبادت معمول کے مطابق جاری رہے گی، البتہ لاؤڈ اسپیکر صرف اذان کے لیے استعمال ہوگا، نفرت انگیزی کے لیے نہیں۔
’ ہزاروں افراد کی جانب سے قتل اور زیادتی کی دھمکیاں دی گئیں‘دھمکیوں کے حوالے سے عظمیٰ بخاری نے انکشاف کیا کہ چند ماہ قبل انہیں ہزاروں افراد کی جانب سے قتل اور زیادتی کی دھمکیاں دی گئیں، ریپ سے لے کر قتل تک کی دھمکیاں دی گئی، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع سے گالیاں اور فون کالز آئیں جس کے باعث ان کا فون کئی دن تک بند رہا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتیں اور نہ ہی شہرت کے لیے کوئی بیان دیتی ہیں۔
’ٹی ایل پی پر پابندی صرف وفاق اور پنجاب کا فیصلہ نہیں، یہ پوری قوم کا فیصلہ ہے‘مریم نواز کے مؤقف پر بات کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ یہ صرف پنجاب حکومت یا مریم نواز کا مؤقف نہیں بلکہ ان تمام پاکستانیوں کا مؤقف ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں اور انتہا پسندی کی سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی فتنہ کی نئی کال دے رہی ہے، ملک ترقی کرے تو انہیں تکلیف ہوتی ہے: عظمیٰ بخاری
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رضوی فیملی کی خواتین کو اس وقت حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا کیونکہ حالات قابو سے باہر تھے، تاہم چیف نصرت صاحبہ کے حکم پر انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
’یہ فیصلہ صرف امن و امان کی بحالی اور قانون کی بالا دستی ہے‘انھوں نے کہا کہ حکومت کا اس فیصلے سے کوئی سیاسی مقصد وابستہ نہیں، مقصد صرف امن و امان کی بحالی اور قانون کی بالادستی ہے۔ جو لوگ قانون ہاتھ میں لیں گے، ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جائیں گے، اگر کوئی صرف سیاست کو سیاست کی طرح کرے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں۔
غزہ سے متعلق سوال پر وزیراطلاعات نے واضح کیا کہ اس تنظیم کے کسی بھی مطالبے کا غزہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کے تمام مطالبات اسلام آباد مارچ، مقدمات کے خاتمے اور اپنے کارکنوں کی رہائی سے متعلق تھے، جب غزہ میں امن ہورہا ہے تو یہ لوگ باہر نکل آئے تھے۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ اب ریاست نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ملک میں افراتفری اور شدت پسندی کی سیاست مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پابندی پاکستان پنجاب ٹی ایل پی عظمیٰ بخاری غزہ مارچ وزیراطلاعات