اسلام آباد میں پولیس افسر کی پرُاسرار موت: خودکشی یا حادثہ؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
اسلام آباد کی پرسکون سرکاری عمارتوں کے بیچ میں جمعرات کی دوپہر ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے نہ صرف دارالحکومت بلکہ پورے ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہلچل مچا دی۔
مذکورہ افسر، عادل اکبر (ایس پی انڈسٹریل زون، اسلام آباد پولیس) جو کہ ایک سینیئر اور تعلیم یافتہ افسر سمجھے جاتے تھے، اپنے سرکاری اسلحے سے گولی لگنے کے بعد جانبر نہ ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں:پولیس افسران کی خودکشی: اسباب، محرکات، سدباب
پولیس ذرائع کے مطابق عدیل اکبر اس وقت ڈیوٹی پر مامور تھے جب اچانک فائر کی آواز سنائی دی اور ساتھی افسران موقعِ وقوعہ پر پہنچے تو انہیں خون میں لت پت پایا گیا۔ انہیں فوری طور پر پمز اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔
موقعِ وقوعہ سے ان کی وردی، ان کا سرکاری پستول، خون آلوداجزا اور دیگر شواہد اکٹھے کیے گئے۔ پولیس نے فنگر پرنٹس کی نادرا سے تصدیق اور بالیسٹک رپورٹ کا انتظار شروع کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، واقعہ سیرینا چوک کے نزدیک پیش آیا، جو وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون کے اندر شمار ہوتی ہے جہاں بہت حساس اور حکومتی دفاتر موجود ہیں۔
عدیل اکبر کو پیشہ ورانہ لحاظ سے نہ صرف ثابت قدم افسر کے طور پر جانا جاتا تھا بلکہ علمی اعتبار سے بھی نمایاں تھے۔ انہوں نے National Defence University (NDU) سے ایم فل گورننس اینڈ پبلک پالیسی کی ڈگری حاصل کی تھی۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں فرائض انجام دیتے رہے، جہاں انھوں نے کمیونٹی پولیسنگ، انسانی حقوق کے تحفظ، اور دہشتگردی کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ ساتھی افسران کے بقول وہ نرم گفتار، ذمہ دار اور اپنے ماتحتوں کے لیے ایک مشفق رہنما تھے۔ تاہم اس اچانک اور پر اسرار موت نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
خودکشی؟ حادثہ؟ تفتیش کے ابتدائی نکاتپولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی نوعیت بظاہر خودکشی کی طرف مائل ہے، لیکن کئی پہلو ایسے ہیں جنہوں نے تفتیشی حلقوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے۔
ایک سینیئر پولیس افسر جو ڈیوٹی پر ہے اور ذمہ دار عہدے پر کام کر رہا ہے، اچانک ایسا اقدام کرے، اس پر کئی لوگ حیران ہیں۔
واقعے کی جگہ زیادہ حساس ہے، ریڈ زون کے اندر، جہاں سیکیورٹی اور نگرانی کی سطح عموماً کمزور نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد پولیس کے ایس پی عدیل اکبر کی خودکشی،’ آخری کال ریکارڈ چیک کرنا چاہیے‘
جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں، خون آلود وردی، پستول، فنگر پرنٹس، بالیسٹک شواہد اور موقع پر موجود افسران سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
ایک تفتیشی افسر نے بتایا کہ ابتدائی شواہد خودکشی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، مگر جب تک فنگر پرنٹس اور بالیسٹک رپورٹ نہیں آتی، ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔
یہ تمام نکات، بظاہر خودکشی کے زمرے میں آنے والے واقعے کو تا حدی مشکوک بناتے ہیں۔ کیا یہ واقعی ایک دل گرفتہ ذہنی کیفیت کا نتیجہ تھا، یا کہیں ادارہ جاتی دباؤ، اسٹریس یا کوئی اور پہلو اس واقعے میں کردار ادا کر رہا تھا؟ تفتیش یہ تمام زاویے کھنگال رہی ہے۔
انسانی وسائل کا جائزہایک ادارے کی ہیومن ریسورس ماہر منیب قریشی ،اس واقعے کو ادارہ جاتی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے کہا کہ پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کرنے والے افسران شدید ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں۔ طویل ڈیوٹیاں، سیاسی دباؤ، عوامی تنقید، یہ سب مل کر ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جس میں ذہنی تھکن اور احساسِ بے بسی پیدا ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں سرکاری اداروں میں ورک پلیس کونسلنگ کا تصور اب بھی نایاب ہے اور ایک سینیئر افسر کے لیے بھی سپورٹ سسٹم اکثر دستیاب نہیں ہوتا۔
یہ صورت حال غور طلب ہے، کیونکہ اگر فیصلہ کن طور پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ افسوسناک واقعہ خودکشی کا نتیجہ ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ادارہ اپنے اہلکار کی ذہنی اور جذباتی حمایت میں ناکام رہا۔
سائیکالوجسٹ کی رائےاسلام آباد کے ایک کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر صبا ناصر نے اس واقعے کے تناظر میں پولیس اہلکاروں پر پڑنے والے نفسیاتی دباؤ کی نشاندہی کی۔
ان کے مطابق پولیس فورس میں ڈپریشن، بے خوابی، اضطراب کے کیسز عام ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ روزانہ ایسے حالات دیکھتے ہیں جن کا اثر عام شہریوں کی زندگی میں برسوں تک نہیں آتا۔ مگر ہمارے ہاں اسے پیشہ ورانہ بیماری نہیں سمجھا جاتا۔
یہ بھی پڑھیں:ایس پی عدیل اکبر کی نماز جنازہ پولیس لائنز میں ادا کردی گئی
ڈاکٹر صبا نے مزید کہا کہ خاموشی سے پنپنے والے ذہنی بحران اکثر خودکشی کی وجوہات بن جاتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ممکن ہے کہ ایس پی عدیل اکبر بظاہر پرسکون دکھائی دیتے ہوں، مگر اندر ہی اندر دباؤ بڑھ جاتا ہو۔ اس قسم کی صورتحال میں معمولی ٹرگر بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے سفارش کی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شعوری طور پر ذہنی صحت چیک اپ اور کونسلنگ دستیاب ہونی چاہیے، تاکہ ایسے واقعات کو قبل از وقت روکا جا سکے۔
سوشل سائنس کا زاویہڈاکٹر احمد طاہر جو کہ ایک سوشل سائنس ماہر ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک افسوسناک موت نہیں، بلکہ ایک وسیع پیمانے پر ادارہ جاتی المیے کا اظہار ہے۔
ان کے مطابق جب ریاست کے اداروں میں کام کرنے والے اہلکار خود کو غیر محفوظ یا غیر سنے جانے والا محسوس کریں، تو وہ ادارے کی مجموعی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ صرف پولیس کا مسئلہ نہیں، بلکہ معاشرتی ڈھانچے کا سوال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس فورس کی انسانیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ وردی پہنے اہلکار بھی جذبات رکھتے ہیں، دباؤ اٹھاتے ہیں، نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ’مینٹل ہیلتھ آفیسرز‘ کی تعیناتی کی جائے جو باقاعدگی سے اہلکاروں کی ذہنی کیفیت کا جائزہ لیں، اور احساس جوابدہی اور سپورٹ فراہم کریں۔
سابقہ رجحاناتاس واقعے کا تناظر سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں خودکشی اور افسوسناک طور پر پولیس یا سرکاری افسران میں خودکشی کے رجحانات کس حد تک سامنے آئے ہیں۔ مثلاً ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2011 کے بعد سے چند اعلیٰ افسران نے خودکشی کی، ان میں 5 سی ایس پی رینک کے افسران بھی شامل ہیں ۔
عمومی سطح پر خودکشی کی تعداد اور اس کے رجحانات مکمل طور پر دستاویزی نہیں ہیں، کیونکہ کیسز اکثر غیر رپورٹڈ رہتے ہیں یا ’حادثہ‘ یا ’غیر تجویز شدہ‘ قرار پاتے ہیں۔
لہٰذا، عدیل اکبر کے معاملے کو اس بڑے پس منظر میں دیکھنا ہوگا، جہاں نہ صرف فرد کا ذہنی یا جذباتی سوال ہے، بلکہ ادارہ معاشرتی اور سپورٹنگ میکانزم کا بھی سوال ہے۔
ساتھی افسران بتاتے ہیں کہ عدیل اکبر اکثر کہتے تھے پولیس ہونا ایک وردی سے زیادہ ہے، یہ ایک ذمہ داری ہے۔ ان کے اچانک انتقال نے نہ صرف ساتھیوں بلکہ ان کے خاندان کو بھی گہرے صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔
ان کے جنازے میں شریک ایک افسر نے کہا کہ ہم نے ایک ایماندار ساتھی کھو دیا، اور شاید ایک ایسا شخص جو خاموشی سے کسی اندرونی جنگ میں مبتلا تھا۔
یہ بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدیل اکبر کی ذاتی نوعیت کی جدوجہد ممکن ہے بیرونی سطح پر نظر نہ آئی ہو، لیکن اندرونی طور پر شدت اختیار کرتی رہی ہو۔
اصلاحات کی راہ اور ماہرین کی سفارشاتاس واقعے سے ہمیں چند واضح نکات سامنے آئے ہیں جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ جن کی روشنی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ذہنی صحت اور مشاورت کے نظام کو فعال بنانا چاہیے، تاکہ افسران و اہلکار جذباتی اور نفسیاتی تعاون حاصل کر سکیں۔
ادارے میں پروفیشنل سپورٹ سسٹم متعارف کرنا چاہیے، خاص طور پر ایسے سینئر عہدے پر فائز اہلکاروں کے لیے جو بیشتر دباؤ اور ذمہ داریوں کے بوجھ تلے کام کرتے ہیں۔
جائے وقوعہ اور پولیس کارروائی کے بعد شفاف اور جلد از جلد تفتیش ضروری ہے تاکہ شکوک و شبہات کا شکار معاملات بروقت حل ہوں اور ادارے پر اعتماد بحال رہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد پولیس کے سینیئر افسر نے گولی مار کر اپنی جان لے لی
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر منتازعہ معاملات اور ذہنی دباؤ کے حوالے سے تربیت کو معمول بنانا چاہیے تاکہ اہلکار خود کو تنہا محسوس نہ کریں اور وقت پر مدد حاصل کر سکیں۔
ورِدی کے پیچھے بھی انسان ہوتا ہے، جذبات، تھکن، خوف، امید، اور کبھی کبھی تنہائی کے لمحات بھی۔ عدیل اکبر کی موت ایک سانحہ ہے، مگر اُس کی پسِ منظر میں چھپی کہانی شاید ادارہ جاتی خامیوں، ذہنی دباؤ، اور خاموش جذبوں کی بھی ہو سکتی ہے۔
اگر یہ واقعہ ہمیں ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انسانی اور نفسیاتی جہت کو سمجھے، اور وقت پر علاج و معاونت مہیا کریں، تو شاید اگلی بار کہیں زندگی ضائع نہ ہو۔
ہم سب کو خود سے یہ سوال کرنا ہے کیا ہم حقاً اپنے اداروں میں ان اہلکاروں کی خاموش داستانوں کو سننے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم بروقت مداخلت اور سپورٹ فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے؟
عدیل اکبر کی موت ایک انتباہ ہے، امید ہے کہ یہ انتباہ ضائع نہ جائے، اور بہتری کی سمت قدم اٹھائے جائیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد پولیس خود کشی ڈاکٹر احمد طاہر ڈاکٹر صبا ناصر عدیل اکبر ماہر نفسیات منیب قریشی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد پولیس ڈاکٹر احمد طاہر ڈاکٹر صبا ناصر عدیل اکبر ماہر نفسیات قانون نافذ کرنے والے اداروں میں یہ بھی پڑھیں عدیل اکبر کی اسلام آباد ادارہ جاتی خودکشی کی اس واقعے کے مطابق کام کر ایس پی کے لیے
پڑھیں:
ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خود کشی، وزیرمملکت داخلہ طلال چوہدری کا بیان
وزیرِ مملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی کے حوالے سے حقائق جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں، جن کی نگرانی آئی جی اسلام آباد خود کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں آئی جی اسلام آباد کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک سانحہ ہے، جس نے پولیس فورس سمیت سب کو دکھی کردیا ہے۔ آئی جی اسلام آباد حقائق کا جائزہ لے رہے ہیں اور تمام پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ ابھی کسی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہوگا، تمام پہلوؤں سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
ایس پی اسلام آباد پولیس عدیل اکبر کی خودکشی کے معاملے پر آئی جی اسلام آباد پولیس اور طلال چوہدری کی میڈیا سے گفتگو pic.twitter.com/i3mjnDlkiW
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) October 23, 2025
آئی جی اسلام آباد کے مطابق واقعہ گاڑی کے اندر پیش آیا، سیف سٹی کیمرے کی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہے، جس میں گاڑی کے باہر کوئی مشکوک سرگرمی نظر نہیں آئی۔ واقعے کے وقت افسر کے گن مین بھی گاڑی میں موجود تھے۔
وزارت داخلہ کے حکم پر 3 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے، جس میں ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز، ڈی آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی سیکیورٹی شامل ہیں۔ ٹیم موبائل فون، دیگر شواہد اور جائے وقوعہ سے حاصل مواد کا تفصیلی جائزہ لے رہی ہے۔
افسر کے اہلِخانہ سے رابطہ کیا گیا ہے، ان کے بھائی اور دیگر عزیزوں کو تحقیقات کی پیشرفت سے آگاہ رکھا جا رہا ہے۔ وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ میڈیا سے درخواست ہے کہ قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے، حقائق کی تصدیق کے بعد ہی حتمی موقف دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ہمارے لیے ذاتی دکھ کی حیثیت رکھتا ہے، ہم اپنے ساتھی کے اہلِخانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ وزارتِ داخلہ کو پیش کی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں