data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کسی دانا کا قول ہے جو سیدنا علی سے منسوب کیا جاتا ہے ’’کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نظام نہیں چل سکتا‘‘۔ ایسا نظام جس میں مظلوم کو انصاف اس کے مرنے کے بعد ملے، جس میں طاقتور کمزوروں پر حکمرانی کرے، جس میں منصف خود اپنی بولی لگاتے ہوں، جہاں محافظ ہی رہزن بنے بیٹھے ہوں، نیچے سے لے کر اوپر تک ہر ادارے میں لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم ہو، جہاں امیر، امیر تر بنتا جا رہا ہو اور غریب سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جا رہا ہو، تنخواہ دار طبقے بھاری ٹیکس ادا کرنے کے باوجود بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں جبکہ ان کے ٹیکس پر پلنے والے وزراء اور سرکاری افسران اپنے پر تعیش بنگلوں میں چین کی بانسری بجا رہے ہوں تو ایسے میں ضرورت ہے کہ اس ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے آواز اُٹھائی جائے۔ ہمارا پیارا ملک پاکستان دنیا کے نقشے پر جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ خطہ ٔ زمین ہے جو بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے یہاں جنگلات، پہاڑ، دریا، سمندر، معدنیات اور چاروں موسم سب کچھ موجود ہے حتیٰ کہ انسانی وسائل کی بھی کمی نہیں ہے لیکن افسوس آج تک پاکستان کو ایسی مخلص اور ایماندار قیادت میسر نہ آ سکی جو ان تمام وسائل کو صحیح معنوں میں بروئے کار لا کر ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتی بلکہ جس نے بھی مسند اقتدار سنبھالی وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا رہا۔ ملکی معیشت کو کمزور اور اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کی کوشش میں ملک کو قرضوں کے اندھیروں کے سپرد کر دیا گیا۔ ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا چند مخصوص لوگوں ہی کو اقتدار کے مزے لوٹتے دیکھا ہے ان میں کچھ لوٹے بھی ہیں جو صرف اس مقولے پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ ’’چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ لہٰذا وہ کبھی ادھر کبھی ادھر لڑھکتے نظر آتے ہیں لیکن اقتدار کی مسند سے جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں تاکہ ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہے۔ رہ گئے مظلوم عوام تو ان کا کیا ہے وہ بیچارے اچھے دنوں کی آس لگائے انہی لیڈرز کے پیچھے زندہ باد زندہ باد کے نعرے لگاتے اپنی زندگی ہار جاتے ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے نوجوان ایک بہترین سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ اگر منظم اور متحد ہو جائیں تو تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ بنگلا دیش اور نیپال کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ کس طرح منظم جہدوجہد کے ذریعے نوجوانوں کے سیل رواں نے ہر قسم کے بند کو توڑ کر اپنا حق حاصل کر لیا۔ ہمارے ملک کی آبادی کا تقریباً 62 فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت ملک کی سیاسی معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کے باعث دل برداشتہ ہو کر بیرون ملک سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دے رہی ہے۔
مشہور کہاوت ہے کہ بن روئے تو ماں بھی بچے کو دودھ نہیں دیتی لہٰذا مایوس نہ ہوں۔ مایوسی کفر ہے۔ اُجالے آپ کے منتظر ہیں۔ شب کی تاریکی جتنی زیادہ گہری ہوتی ہے طلوع سحر اتنا ہی قریب ہوتا ہے۔ راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے آئیں متحد ہو کر نظام کو بدلنے کی بات کریں۔ جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام عملی طور پر بھی نافذ العمل ہوگا تو زندگی کے ہر شعبے میں عدل و انصاف ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ ہر مظلوم کی دادرسی ہوگی۔ نہ لوٹ مار مچے گی، نہ کرپشن کو پنپنے کی جگہ ملے گی، نہ رشوت کا دور دورہ ہوگا اور نہ ہی محافظ کو راہزن بننے کے مواقع مل سکیں گے۔ اس کے لیے عوام خصوصاً نوجوانوں کو ہمت دکھانی ہوگی کیونکہ:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مینار پاکستان لاہور میں 21،22 اور 23 نومبر کو جماعت اسلامی ایک عظیم الشان اجتماع عام کا انعقاد کرنے جا رہی ہے جس کا سلوگن ہے ’’چہرے نہیں نظام بدلو‘‘ آئیں ہم سب مل کر اس جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔ دامے درمے سخنے جس سے جو کچھ بھی ممکن ہے اسے چاہیے کہ اپنے حصے کی شمع ضرور روشن کرے تاکہ ظلم کے نظام کی تبدیلی کے لیے اس کی گواہی بھی اللہ کے ہاں قبول ہو جائے۔
اے دوست کرو ہمت کچھ دور سویرا ہے
گر چاہتے ہو منزل پرواز بدل ڈالو
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
ملک میں نظام مصطفی کے نفاذ کے لیے جدوجہد جاری رہے گی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سربراہ پاکستان سنی تحریک محمد شاداب رضا نقشبندی نے کہا ہے کہ دین سے سیاست کو جدا نہیں کیا جا سکتا، ملک میں نظام مصطفی کے نفاذ کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔انہوں نے کہا کہ مساجد و مدارس امن و روحانیت کے مراکز ہیں، حکومت مثبت سوچ کے ساتھ فیصلے کرے۔شاداب رضا نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیلی مظالم ناقابل برداشت ہیں، اسرائیل غاصب ریاست ہے جسے کسی طور تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا کردار مشکوک ہو چکا ہے، جب انصاف کے عالمی ادارے خاموش رہیں تو امن کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔