کے پی پولیس کیلئے نئی گاڑیوں کی خریداری، وزیراعلیٰ نے سمری پر دستخط کر دیئے
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
پشاور (نوائے وقت رپورٹ) وزیراعلیٰ خیبر پی کے سہیل آفریدی نے پولیس کے لئے نئی آپریشنل گاڑیوں کی خریداری کی سمری پر دستخط کر دیئے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت کے رویے کے باوجود صوبائی حکومت پولیس کو جدید سہولتیں دے رہی ہے۔ ہمارے جوان فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں۔ سہولتیں ہم دیں گے۔ صوبے میں امن کے قیام کے لئے صوبائی حکومت اپنی پولیس کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
سندھ میں سائبر کرائم یونٹ کے قیام کا منصوبہ!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251210-03-2
سندھ حکومت نے صوبے میں بڑھتے ہوئے آن لائن جرائم کی روک تھام، سائبر سیکورٹی کے نظام کو مضبوط بنانے اور انٹرنیٹ صارفین کو محفوظ ڈیجیٹل ماحول فراہم کرنے کے لیے ایک علٰیحدہ صوبائی سائبر کرائم یونٹ قائم کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے، جو نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے طرز پر کام کرے گا۔ باخبر ذرائع مطابق مجوزہ سائبر کرائم یونٹ صوبے میں سائبر جرائم کی تحقیقات، ان کی روک تھام اور سائبر سیکورٹی کی صلاحیتوں میں اضافے پر توجہ مرکوز کرے گا۔ ذرائع کے مطابق یہ یونٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں کام کرے گا تاکہ سائبر جرائم میں ملوث عناصر کو ٹریس کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ واضح رہے کہ اس وقت ملک میں سائبر جرائم کی تحقیقات کی ذمے داری وفاقی ادارے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے پاس ہے، جو ہراسانی، بینک فراڈ، دھمکیاں، بلیک میلنگ، الیکٹرونک آلات کے ذریعے دھوکا دہی جیسے جرائم کی تفتیش کرتا ہے اور فیس بک، وٹس اپ، انسٹاگرام، ہاٹ میل، یوٹیوب سمیت دیگر پلیٹ فارمز سے شواہد بھی حاصل کرتا ہے۔ یہ ادارہ ایف آئی اے کے سابقہ سائبر کرائم ونگ کی جگہ ایک خود مختار ایجنسی کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ صوبائی وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سے درخواست کی جائے گی کہ سندھ پولیس کو الیکٹرونک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 3 تا 23 کے تحت جرائم کا نوٹس لینے کا مجاز ادارہ قرار دیا جائے۔ وزیر داخلہ، جو قانون اور پارلیمانی امور کا قلمدان بھی رکھتے ہیں، نے کہا کہ وفاقی منظوری ملنے کے بعد سندھ اسمبلی صوبائی سطح پر این سی سی آئی اے کے طرز پر سائبر کرائم یونٹ کے قیام کے لیے قانون سازی کرے گی۔ ادھر انسپکٹر جنرل پولیس سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ صوبائی پولیس نے محکمہ داخلہ کو خط لکھ کر وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ سندھ پولیس کو سائبر جرائم کا نوٹس لینے کا مجاز ادارہ قرار دیا جائے۔ بادی النظر میں مجوزہ قانون خوش آئند محسوس ہوتا ہے، اس پر عمل درآمد سے سائبر جرائم پر فوری اور مؤثر کنٹرول سے ہراسانی، آن لائن فراڈ، بلیک میلنگ جیسے کیسز تیز رفتاری سے حل ہوسکیں گے، شہریوں کو فوری انصاف کا حصول ممکن ہوسکے گا، مقامی سطح پر شکایت کا اندراج ممکن ہوسکے گا، بینک فراڈ، فیک اکائونٹس، ہیکنگ پر گرفت مضبوط ہوسکے گی، علاوہ ازیں اس سے پولیس کی تکنیکی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوگا، ڈیجیٹل فرانزک، سائبر ٹریسنگ سے پولیس سسٹم بھی اپ گریڈ ہوگا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ مجوزہ قانون کے مضمرات سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا، وفاقی سطح پر ایک ادارے کی موجودگی کے باوجود اس کے متوازی نئے ادارے کے قیام سے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی اور صوبائی یونٹ کے درمیان دائرہ اختیار، اختیار اور کیس ٹرانسفر جیسے تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں، مجوزہ یونٹ اگر غیر جانبدار نہ رہا تو صحافیوں، سیاسی مخالفین، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے خلاف بھی اس کے غلط استعمال کا خدشہ موجود ہوگا۔ موجودہ سندھ حکومت کی کارکردگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس یہ یونٹ مالی بدعنوانی کی نذر بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کا قیام ملک بھر میں بڑھتے ہوئے سائبر کرائم پر قابو پانے کے لیے کیا گیا تھا، مگر اب اس ادارے سے متعلق بدعنوانی، اختیارات کے غلط استعمال اور مالی بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں، تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ بعض افسران نے رشوت کے بدلے ملزمان کو ریلیف فراہم کیا اور ڈیجیٹل اثاثوں، بشمول کرپٹو کرنسی (بٹ کوائنز و دیگر) کے ذریعے رقوم کی منتقلی میں بھی ملوث پائے گئے، جب وفاقی سطح پر قائم ادارے کی یہ صورتحال ہے تو سندھ حکومت کی جانب سے جس ادارے کے قیام کی بات کی جارہی ہے، اس سے متعلق یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ کرپشن اور بدعنوانی کے کیسز یہاں رونما نہیں ہوں گے؟ نئے ٹریفک قوانین ہوں یا ای چالان یا اب پیش کیا جانے والا مجوزہ قانون، نظام کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اٹھائے جانے والے کسی قدم کی بلا جواز مخالفت یقینا صحت مندانہ طرز عمل نہیں، صوبے اور شہر کی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے ہر قدم کی تائید و حمایت کی جانی چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ صوبے اور کراچی جیسے میگا سٹی کے بنیادی مسائل کے حل کی ذمے داری بھی تو حکومت ہی پر عاید ہوتی ہے، حکومت نے ان مسائل کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سندھ حکومت کی کارکردگی انتہائی ناگفتہ بہ ہے، سولہ سترہ سال سے سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، سندھ کے عوام بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں، تعلیم، صحت، روزگار اور امن وامان سمیت وہ کون سے شعبے ہیں جس کی نشاندہی کر کے اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دیا جا سکتا ہے؟ تعلیمی مراکز اصطبل بن ہوئے ہیں، سرکاری اسپتال میں ادویات کی قلت ہے، المیہ یہ ہے کہ کراچی سمیت پورا صوبہ سندھ حکومت کی نااہلی، ناکامی اور بد انتظامی کی تصویر بنا ہوا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایسے میں دعویٰ یہ ہے کہ سندھ میں ترقی کا سفر کافی حوصلہ افزا ہے۔ کراچی جیسے میگا سٹی کا حال یہ ہے کہ پورا شہر کھنڈرات کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے، یہاں کا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہے، شہر کی اہم شاہراہیں شہریوں کے لیے اذیت کا باعث بن گئی ہیں۔ اس تلخ حقیقت سے انکار کیسے اور کیونکر ممکن ہے کہ سندھ کو این ایف سی ایوارڈ کی مد میں جو رقم ملتی ہے وہ کہاں خرچ کی جارہی ہے؟ بالخصوص اس فنڈ سے کراچی کی تعمیر و ترقی میں کتنا خرچ کیا جارہا ہے؟ یہی وہ صورتحال ہے جس پر جماعت ِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے ’’صوبائی حکومت کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے، سندھ حکومت 15 سال میں 3360 ارب روپے ہڑپ کرچکی ہے‘‘، جس کی وجہ سے کراچی اور سندھ کے عوام بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی قومی آمدنی کا 65 فی صد اور صوبائی خزانے میں 85 فی صد حصہ ڈالتا ہے، مگر یہاں عوام کو نہ پانی دستیاب ہے نہ بجلی و گیس، شہر کا بنیادی ڈھانچہ تباہی سے دوچکار ہے، ماس ٹرانزٹ نا ہونے کے برابر ہے، بی آر ٹی منصوبہ عذابِ جان بن چکا ہے۔ تباہ حال سڑکیں موت کا کنواں بن چکی ہیں جس کی وجہ سے آئے روز ٹینکرز اور ڈمپرز کی زد میں آکر ہلاک ہونے والوں کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، لوگل گورنمنٹ کے سارے اختیارات میئر تک محدود کر کے عوام کے منتخب نمائندوں کو بے دست و پا کر دیا گیا ہے۔ ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے نت نئے قوانین کا شوشا چھوڑ کر سندھ حکومت اپنی بھد اڑانے کا خود ہی سامان پیدا کر لیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب وفاقی سطح پر نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے نام پر ایک ادارہ پہلے ہی کام کر رہا ہے جو آن لائن جرائم کی روک تھام، سائبر سیکورٹی کے نظام کی بہتری اور انٹرنیٹ صارفین کو محفوظ ڈیجیٹل ماحول فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے تو اس کے علی الرغم صوبائی سطح پر ایک علٰیحدہ سائبر کرائم یونٹ قائم کرنے کا منصوبہ کیوں تیار کیا جارہا ہے؟ بعض تجزیہ نگاروں اور سیاسی مبصرین نے سندھ میں مجوزہ صوبائی سائبر کرائم یونٹ کے حوالے سے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اس کا اصل مقصد سائبر کرائمز کی روک تھام نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر اٹھنے والی تنقید کو مکمل طور پر خاموش کرنا ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوا توآزادی اظہار رائے پر قدغن عاید کرنے کے مترادف ہوگا جس کی کسی طور تائید نہیں کی جاسکتی۔