Nai Baat:
2025-10-14@05:35:01 GMT

ہشت گردوں کی بیخ کنی کا عزم صمیم

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

ہشت گردوں کی بیخ کنی کا عزم صمیم

د
بی بی سی نیوز کے مطابق مسلح افراد نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے 17ملازمین کو اغوا کر لیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اغوا کنندگان کے محکمانہ سرکاری شناختی کارڈز کی تصاویر بھی جاری کر دی ہیں۔ فتنہ الخوارج نے لکی مروت کے علاقے قبول خیل میں ملازمین کو اغوا کیا جن میں سے 8کو تاحال بازیاب بھی کرا لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق دہشت گردوں نے ملازمین کو اغوا کرنے کے بعد مقامی ٹھیکیدار کی گاڑی کو آگ لگا دی۔
ٹی ٹی پی نے اب پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ملازمین کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ اٹک اور راولپنڈی میں بھی اغوا کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ فتنہ الخوارج اب پنجاب میں اپنی مذموم کارروائیاں کرنے کی منصوبہ سازی کر رہا ہے۔ اس بارے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان ایک عرصے سے حالت جنگ میں ہے۔ صوبہ کے پی ہو یا بلوچستان، دونوں صوبوں میں اندرونی اور بیرونی دشمن کے ساتھ ریاست پاکستان کی جنگ جاری ہے۔ یہ جنگ پاکستان کی سلامتی اور بقا کی جنگ ہے یہ سادہ سی دہشت گردی کے معاملات نہیں ہیں۔ اس دہشت گردی کے پیچھے، ہمارا دشمن بھارت اور دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی شامل ہیں جو ایسے لوگوں کو فکری و نظری، اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرتی ہیں جو پاکستان سے علیحدگی کے لئے لڑ رہے ہیں، انہیں بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان کے کچھ گروہوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ڈیورنڈر لائن کا مسئلہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ افغان حکمران اسے مانتے ہی نہیں ہیں۔ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تقسیم کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہیں لیکن کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد یہ معاملہ شاید کسی نہ کسی حد تک دب گیا ہے، ختم نہیں ہوا ہے۔
پاکستان میں، علیحدگی کی تحریک اور فتنہ الخوارج کچھ گڈ مڈ ہو چکے ہیں ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ صوفی محمد کی سوات میں اسلامی ریاست قائم کرنے کی کاوشیں کیا رنگ لائی تھیں۔ ہم نے دسمبر 1979ءمیں جب اشتراکی افواج کے افغانستان پر قبضے کے بعد مجاہدین افغانستان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ہم اشتراکی فوج کے خلاف جنگ کا حصہ بن گئے پھر اس جنگ میں امریکہ اور اقوام مغرب بھی شامل ہو گئیں لیکن ہم فرنٹ لائن ریاست کے طور پر فعال اور موثر کردار ادا کرتے رہے۔ اس کے ہمیں بہت سے فائدے بھی حاصل ہوئے۔ اسی افغان جنگ کے دوران پاکستان مغربی دنیا کی آنکھ کا تارا بنا رہا۔ ڈالر یہاں پانی کی طرح بہہ رہے تھے۔ پوپ جان پال نے افغان جنگ کو شیطان کیخلاف جہاد قرار دیا جس کے باعث مغرب کا مذہبی طبقہ بھی یکسوئی کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوا۔ یہاں تفصیلات لکھنے کا وقت نہیں ہے کہ یہ لوگ کس طرح جہاد میں شریک ہوئے صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ افغانستان کے دشوار گزار پہاڑوں اور وادیوں میں جہاں انسان کا پہنچنا محال تھا وہاں مغرب کے نوجوان ڈاکٹر (خواتین و حضرات) افغانوں کی مدد کے لئے پہنچتے تھے بہرحال یہ مغرب کی اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ عالمی سطح پر پاکستان کو پذیرائی ملتی تھی۔ بھارت کا سفارتی مقام ٹھپ ہو گیا تھا۔ پاکستان نے اسی دور میں نہ صرف اپنی دفاعی قوت بڑھائی بلکہ ایٹمی پروگرام بھی مکمل کر لیا۔ ہم نے اپنی سرحدیں افغان مہاجرین کے لئے کھول دی تھیں۔ مجاہدین کو محاذ جنگ پر گولی اور روٹی پہنچانے کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔ افغان عوام کی جدوجہد آزادی کامیاب ہوئی، افغان مجاہدین جیت گئے، روسی افواج واپس لوٹ گئیں۔ افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ ہم نے افغانستان کی داخلی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اسی دور میں جنرل حمید گل کی زیرقیادت کابل میں مجاہدین کی حکومت قائم کرنے کے لئے آپریشن جلال آباد کیا گیا جو بری طرح ناکام ہوا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت نہیں گرائی جا سکی۔ پاکستان کی خاصی بدنامی ہوئی۔ ہم پھر بھی کبھی حکمت یار کی کبھی استاد ربانی کی اور کبھی مجددی کی حکومت بنانے اور گرانے میں ملوث ہو گئے۔ جنرل ضیاءالحق تو 17اگست 1988ءمیں منظر سے ہٹا دیئے گئے تھے، سی ون تھرٹی کے حادثے میں افغان جنگ لڑنے والی ہماری قیادت ختم کر دی گئی۔ جنرل حمید گل کے علاوہ بڑے جرنیل اس حادثے میں شہید ہو گئے تھے۔
خانہ جنگی کے بعد طالبان ابھرے اور 2001میں 9/11کے سانحے کے بعد یہاں امریکی اتحادی افواج آ گئیں۔ ہم نے امریکی اتحادی بننے کا فیصلہ کیا اور اپنی افغان پالیسی کو 180درجے پر تبدیل کر لیا۔ حد یہ ہے کہ ہم نے اسلام آباد میں افغان سفیر ملا ضعیف کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی۔ ہم نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر رکھا تھا انہوں نے عالمی قواعد و ضوابط کے مطابق اسلام آباد میں سفارتخانہ قائم کیا تھا اور ان کے سفیر کی حیثیت مسلمہ تھی لیکن ہم نے ایک امریکی ٹیلیفون پر اپنی دس سالہ افغان پالیسی پر خط تنسیخ پھیر کر سفیر کو امریکیوں کے حوالے کر دیا پھر 20سال تک ہم امریکی حلیف بنے رہے لیکن درپردہ امریکیوں کے خلاف لڑنے والے طالبان کے ساتھ بھی تعلق قائم رکھے رہے۔ ہماری پالیسی دوغلی تھی۔ ہماری زمین، ہماری فضا طالبان کے خلاف امریکیوں کے زیر استعمال تھی لیکن ہم نے طالبان لیڈروں کو، ان کے خاندانوں کو اپنے ہاں پناہ بھی دے رکھی تھی۔ ہماری ایسی ہی پالیسیوں کے باعث، دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ افغان بارڈر سے سلپ ہو کر ہمارے بندوبستی علاقوں تک ہی نہیں پھیلی بلکہ کراچی کے ساحلوں تک پھیل گئی۔ امریکی یہ جنگ ہار کر کئی سال پہلے افغانستان سے رخصت ہو چکے ہیں ان کی اعلان کردہ جنگ ختم ہو چکی ہے لیکن یہ جنگ ہمارے کھاتے میں چڑھ چکی ہے۔ پاکستان کے خلاف لڑنے والے گروہوں کے ہاتھ امریکی فوج کا چھوڑا ہوا جدید اسلحہ ان کے ہاتھ آ چکا ہے، ان کی حملہ آور ہونے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ طالبان کی کابل میں حکومت قائم ہونے کے بعد ہماری شمال مغربی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی۔ 14اگست 2021ءکو جب امریکی یہاں سے بھاگے اور طالبان کابل پر قابض ہو گئے تو ہم نے جشن فتح منایا تھا لیکن ہماری امیدیں بر نہ آ سکیں۔ افغانستان ہمارے خلاف لڑنے والے گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے ایک فرق ضرور ہے پہلے امریکہ بھارت اور افغان حکومت ایسے گروہوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا انہیں امداد دیتا تھا کہ وہ ہم پر حملہ آور ہوں لیکن اب دہشت گردوں کو ایسی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد عمران حکومت نے کچھ ایسی غلطیاں کیں جن کے ہولناک نتائج نکلے۔ دہشت گردوں کو پاکستان میں دوبارہ قدم جمانے کے مواقع ملے اور اب وہ زیادہ قوت کے ساتھ پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج اور دیگر ریاستی و مملکتی ادارے ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں ان کا قلع قمع کرنے کا عزم صمیم اور قربانیاں دینے کا محکم ارادہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دفعہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ ان شاءاللہ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: امریکیوں کے پاکستان کی کی حکومت کے ساتھ کے خلاف لیکن ہم کے بعد کے لئے

پڑھیں:

پاکستان نے افغان قوم کی ہر مشکل میں مدد کی، جواب میں کبھی خیر نہیں ملی، سعد رفیق

اپنی ٹوئٹ میں سابق وفاقی وزیر اور لیگی رہنما کا کہنا تھاکہ جنرل مشرف اور اس کے چند بزدل ساتھیوں کی افغانستان پر امریکی قبضے کے جُرم میں شرمناک اعانت کو کبھی پاکستانی قوم کی رائی برابر حمایت حاصل نہیں تھی، وہ ہمیشہ پاکستانیوں کی نفرت کا شکار رہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وفاقی وزیر خواجہ سعید رفیق نے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان قوم کی ہر مشکل مرحلے پر دینی بھائی اور ہمسایہ جان کر مدد کی لیکن بد قسمتی سے قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمیں جواب میں خیر نہیں ملی۔ اپنی ٹوئٹ میں خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھاکہ جنرل مشرف اور اس کے چند بزدل ساتھیوں کی افغانستان پر امریکی قبضے کے جُرم میں شرمناک اعانت کو کبھی پاکستانی قوم کی رائی برابر حمایت حاصل نہیں تھی، وہ ہمیشہ پاکستانیوں کی نفرت کا شکار رہے۔ انہوں نے کہا کہ لاکھوں افغان مہاجرین دہائیوں تک پاکستان میں بسے اور لاکھوں آج بھی یہیں کاروبار زندگی میں مصروف ہیں، پاکستان کی موجودہ اور سابقہ سیاسی و فوجی قیادتوں نے بارہا موجودہ افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کی سرپرستی نہ کرنے اور پاکستان پر دہشت گرد حملوں کیلئے انھیں افغان سرزمین کو بطور لانچنگ پیڈ استعمال کرنے سے روکے جانے کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امارات اسلامی افغانستان کو پاکستان میں حملے اور تخریب کاری روکنے کیلئے اپنا اثر استعمال کرنے کیلئے کہا گیا، پاکستان پر بار بار حملے کرنیوالے خوارج کو پناہ نہ دینے اور پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن ہماری کوئی بات نہیں مانی گئی۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان کے پاس اپنی سکیورٹی فورسز اور عوام پر افغانستان سے حملہ آور دہشت گرد گروپوں کو روکنے کیلئے اب ڈائریکٹ ایکشن کے سوا کیا راستہ باقی بچا ہے؟ خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھاکہ امارات اسلامی تمام بین الاقوامی قوانین کے تحت افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کیلئے استعمال کرنے سے روکنے کی پابند ہے، بہتر ہو گا کہ ہم پر جوابی حملے کرنے اور ایک نئی جنگ چھیڑنے کے بجائے فساد کی جڑ کو اپنی سرزمین سے اکھاڑ پھینکیں یا ان فسادیوں کو اپنی جنت میں بسا لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آپ سے قطعاً لڑنا نہیں چاہتے، یاد رکھیے کہ ہم امریکا، برطانیہ یا روس نہیں ہیں، ہم ہزاروں میل دور سے نہیں آئے، ہمیں آپ کی سرزمین کے ایک انچ پر قبضہ نہیں کرنا لیکن اپنی سرزمین پر ہونیوالے حملے ہر حال میں روکنے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کبھی نہ بھولیں اہل پاکستان افغان عوام کی خوشحالی سلامتی، خود مختاری اور ترقی کے حامی ہیں، ہمارے تمام سیاسی و عسکری ادارے افغانستان کو امن و استحکام کا گہوارہ دیکھنا چاھتے ہیں لیکن جواب میں ایسی ہی گرمجوشی درکار ہے، جئیں اور جینے دیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی
  • دہشت گردوں کی سہولت کاری ناقابل برداشت
  • پاک افغان تعلقات اور موجودہ صورتحال
  • افغان سر زمین پاکستان کیخلاف استعمال ہو رہی ہے، حافظ نعیم
  • دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں
  • افغانستان کے عوام اب طالبان حکومت کے پیچھے نہیں کھڑے، وفاقی وزیراطلاعات
  • پاک افغان جنگ: محرکات، اسباب، وجوہات کو جانیے اور سمجھیے
  • پاکستان نے افغان قوم کی ہر مشکل میں مدد کی، جواب میں کبھی خیر نہیں ملی، سعد رفیق
  • پاکستان کی جوابی کارروائیاں طالبان کے عسکری نیٹ ورک اور دہشت گردوں کے خلاف ہیں: اسحاق ڈار
  • قبائلی عوام کا افغانستان کےحمایت یافتہ دہشت گردوں کیخلاف ہتھیار اٹھانےکا اعلان