اپوزیشن جماعتوں کا آئین و قانون کی بالادستی کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اپوزیشن جماعتوں نے ملک میں آئین و قانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور عوام کی حکمرانی کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کے لیے آئندہ چند روز میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو ون پوائنٹ ایجنڈے پر اکٹھا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعہ کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز کے فیصلہ سنائے جانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس عوام پاکستان پارٹی کے سبربراہ شاہد خاقان عباسی کے گھر پر منعقد ہوا، جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں محمود خان اچکزئی، شاہد خاقان عباسی، عمرایوب اوراسد قیصر نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اسد قیصر نے کہا کہ ہم شاہد خاقان عباسی کے شگرگزار ہیں کہ انہوں نے ہماری مہمان نوازی کی، آج اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ملک میں آئین و قانون کی بالادستی، آزاد عدلیہ، عوام کی حکمرانی اور حقیقی جمہوریت کے لیے مل کر جدوجہد کریں گے۔
اسد قیصر نے بتایا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس بات پربھی اتفاق کر لیا ہے کہ آئندہ چند روز میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو ون پوائنٹ ایجنڈے پراکٹھا کیا جائے تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ ملک کو درست سمت کیسے آگے لے کرجانا ہے۔
اسد قیصر نے کہا کہ عمران خان کو دی جانے والی سزا بقول ان کے عدلیہ کے چہرے پر ایک ’سیاہ دھبہ‘ ہے، میڈیا اور ایم این ایز پہلے سے ہی سزا سے متعلق کہہ رہے تھے، اگر ملک میں اس طرح کے فیصلے ہوتے رہے تو پھر یہ ایک ’بنانا ری پبلک‘ ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ون پوائنٹ ایجنڈے پراکٹھا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی بقا کے لیے سب کو اکٹھا ہونا ہو گا، عمران خان کے حوالے سے مقدمہ جب اعلیٰ عدالتوں میں جائے گا تو بہت سی چیزیں سامنے آ جائیں گی، فیصلہ میرٹ پر نہیں ہوا، پی ٹی آئی اس فیصلے کے خلاف چند دنوں میں ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرے گی۔
اسد قیصر نے کہا کہ جب تک پوری قوم آئین و قانون کی بالا دستی کے لیے متحد نہیں ہو گی یہ ملک آگے نہیں بڑھے گا، ہم نوجوانوں اور ملک کو مایوس نہیں کرنا چاہتے، ملک کو درست سمت ڈالنے کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف آنے والے فیصلے کے خلاف ہم سے جو بھی قانونی چارہ جوئی ممکن ہو سکی وہ کریں گے۔ اسد قیصر نے کہا کہ ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے لیکن ہم کسی بھی دباؤ میں نہیں آئیں گے نا ہی عمران خان کے حوالے سے کوئی سمجھوتا کریں گے۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود اچکزئی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی اور شاہد خاقان عباسی کے شکر گزار ہیں، آج جمعہ کو عمران خان کو سزا سنائے جانے کی بری خبر سامنے آئی ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آئین کی بالادستی کے لیے مل کر جدوجہد کریں گے، سیاسی اور جمہوری لوگ آئین کی بالادستی کی تحریک میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود اچکزئی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی اور شاہد خاقان عباسی کے شکر گزار ہیں، آج جمعہ کوعمران خان کو سزا سنائے جانے کی بری خبر سامنے آئی ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آئین کی بالادستی کے لیے مل کر جدوجہد کریں گے، سیاسی اور جمہوری لوگ آئین کی بالادستی کی تحریک میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ محمود اچکزئی نے کہا کہ آئین و قانون کی بالادستی کے لیے مولانا فضل الرحمان صف اوؑل میں ہوں گے
عمر ایوب نے کہا کہ آج پرچی فیصلہ آیا ہے، حکومت کا ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ ہماری فوری عمران خان سے ملاقات کروائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئین و قانون اپوزیشن جماعتیں اسد قیصر بالادستی بیرسٹر گوہر خان پی ٹی آئی تحریک تحفظ آئین پاکستان جمہوریت شاہد خاقان عمر ایوب عمران خان عوام پارٹی قانونی چارہ جوئی قوم محمود اچکزئی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اپوزیشن جماعتیں بالادستی بیرسٹر گوہر خان پی ٹی ا ئی تحریک تحفظ ا ئین پاکستان جمہوریت شاہد خاقان عمر ایوب عوام پارٹی قانونی چارہ جوئی محمود اچکزئی وی نیوز ا ئین و قانون کی بالادستی شاہد خاقان عباسی کے کے لیے مل کر جدوجہد اسد قیصر نے کہا کہ ا ئین کی بالادستی اپوزیشن جماعتوں عمران خان کے پی ٹی ا ئی کریں گے کے خلاف ہے کہ ا ملک کو
پڑھیں:
تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
اسلام ٹائمز: ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ تحریر: علی احمدی
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں میں مارکسزم اور سرمایہ داری کے خلاف نظریات کی جانب محققین کے ممکنہ رجحان کے خوف کے باعث امریکی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے وسیع پیمانے پر یونیورسٹیوں پر پیسہ خرچ کیا۔ اس مالی امداد کا مقصد ایک ایسے "پرامن" اور "کنٹرول شدہ" تعلیمی ماحول کی فراہمی تھی جس میں محققین مخالف نظریات اور مکاتب فکر کے خلاف علمی نظریات متعارف کروا سکیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے معروف فلاسفر نوام چامسکی کے بقول 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں MIT کا زیادہ تر بجٹ امریکی وزارت دفاع فراہم کرتی تھی جبکہ یہ بجٹ وصول کرنے والے زیادہ تر محققین ویت نام جنگ کے مخالف تھے۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مالی امداد دراصل محققین کو امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو کرنے کے لیے انجام پا رہی تھی۔
لیکن چونکہ علمی اداروں اور ماہرین کی ذات میں تنقیدی انداز اور سوالات جنم دینا شامل ہوتا ہے لہذا اس خصوصیت نے ہمیشہ سے سماجی تبدیلیاں اور تحولات پیدا کرنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بھی امریکہ کی مین اسٹریم یونیورسٹیاں جنگ مخالف تحریک کا مرکز بن چکی تھیں اور یونیورسٹی طلبہ اور اساتید جنگ مخالف مظاہروں، دھرنوں اور وسیع احتجاج کے ذریعے ویت نام میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف ویت نام میں امریکہ کے جنگی جرائم منظرعام پر آئے بلکہ امریکی معاشرے کی رائے عامہ میں جنگ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور حکومت جنگ ختم کرنے کے لیے شدید عوامی دباو کا شکار ہو گئی۔ اس جنگ مخالف طلبہ تحریک کا واضح اثر حکومتی پالیسیوں پر ظاہر ہوا اور امریکی حکومت ویت نام جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
ریگن کا انتقام اور نولبرل ازم کا ظہور
ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں میں جنگ مخالف تحریک کی طاقت اور اثرورسوخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں سے انتقام لینے اور ان کا بجٹ بند کر کے اس کی جگہ طلبہ و طالبات کو قرضے دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکومت کے اس اقدام نے امریکہ کی اعلی تعلیم کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ امریکی حکومت نے اپنے اس اقدام کا جواز نولبرل ازم پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے پیش کیا اور دعوی کیا کہ وہ معیشت کے میدان میں مداخلت کم کر کے باہمی مقابلہ بازی کی فضا کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیوں کا بجٹ کم ہو جانے کا نتیجہ فیسوں میں بڑھوتری، تعلیمی معیار میں گراوٹ اور نچلے اور درمیانے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع کم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مزید برآں، ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو ڈال کر امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو تحقیقات انجام دینے پر زور دیا۔
یوں ریگن حکومت نے یونیورسٹی طلبہ اور محققین کی فکری خودمختاری اور عمل میں آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ان پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل کرنے اور تنقیدی طرز فکر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ اور طلبہ تحریک کا احیاء
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام امریکہ میں طلبہ تحریکوں کے احیاء کا باعث بنا ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتید نے احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور کانفرنسوں کے ذریعے غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے اور امریکی حکومت سے اس جرائم پیشہ رژیم کی حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں یہ طلبہ تحریک دنیا بھر کی حریت پسند اور انصاف پسند تحریکوں سے متاثر ہوتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت اور قیام کی علامت بن گئی ہے۔
دوسری طرف امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو اور دھونس کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کو بجٹ روک دینے کی دھمکیوں، طلبہ کو نکال باہر کیے جانے اور قانونی پابندیوں کے ذریعے طلبہ تحریک ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اور جمہوری اقدار اور آزادی اظہار میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے۔
ہارورڈ ٹرمپ آمنے سامنے، یونیورسٹی کی خودمختاری کی جدوجہد
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور امیر یونیورسٹی ہے اور اب وہ ٹرمپ حکومت کے خلاف مالی امداد روک دینے پر قانونی کاروائی کر کے حکومتی دباو کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ اس قانونی کاروائی کا تعلق صرف یونیورسٹی کی خودمختاری اور آزادی اظہار سے ہی نہیں بلکہ اس نے ٹرمپ حکومت کی امتیازی اور آمرانہ پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ لہذا امریکہ میں یونیورسٹیوں کا موجودہ بحران معاشرے میں اس تعلیمی مرکز کے کردار میں گہری تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ یونیورسٹیاں عالمی سطح پر محققین کے کارخانے اور نرم طاقت کے آلہ کار سے سیاسی اور سماجی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکی ہیں۔ یہ جنگ امریکی یونیورسٹیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔