رچرڈ گرینل نے پرانی ٹوئٹس ڈیلیٹ کردیں ’انہیں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے گمراہ کیا گیا‘
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل اس وقت توجہ کا مرکز بنے جب انہوں نے ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل ہی عمران خان کی رہائی کے لیے مہم شروع کردی۔
رچرڈ گرینل نے سوشل میڈیا کے ذریعے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا، جس پر پاکستان میں خوب تبصرے ہوئے، جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کہاکہ اب حکومت کے گھبرانے کا وقت ہوگیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں رچرڈ گرینل نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنے والے پاکستانی کو کیوں ڈانٹ دیا؟
رچرڈ گرینل نے ایک موقع پر پاکستان کے میزائل پروگرام کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی کو ہدفِ تنقید بنایا۔
تاہم اب انہوں نے 11 دسمبر 2024 سے پہلے کی تمام ٹوئٹس ڈیلیٹ کردی ہیں، لیکن عمران خان کی رہائی کا ایک ٹوئٹ برقرار رکھا ہے۔
دوسری جانب امریکی سرمایہ کاروں کے پاکستان میں موجود وفد کے سربراہ جینٹری بیچ نے کہا ہے کہ رچرڈ گرینل کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے گمراہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ رچرڈ گرینل کی اب پاکستان کے بارے میں پہلے سے بہتر انڈر اسٹینڈنگ ہے۔ ’مجھے رچرڈ گرینل نے خود بتایا کہ اسے ڈیپ فیک اے آئی والی پرزینٹیشنز دی گئی تھیں، میں یہاں سابق وزیراعظم کے معاملے پر بات کرنے کیلئے نہیں آیا ہوں، ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو احترام کے نظر سے دیکھتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں رچرڈ گرینل نے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھو ملر کی پوسٹ پر طنز کیوں کیا؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ آج رچرڈ گرینل کو پاکستان کی موجودہ صورت حال کا زیادہ بہتر ادراک ہوگیا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی سرمایہ کار امریکی صدر ٹوئٹس ڈیلیٹ ڈونلڈ ٹرمپ ڈیپ فیک رچرڈ گرینل وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی سرمایہ کار امریکی صدر ٹوئٹس ڈیلیٹ ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز عمران خان کی رہائی
پڑھیں:
غزہ میں جنگ بندی میں پیشرفت 24 گھنٹوں میں واضح ہو جائے گی، ٹرمپ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جولائی 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج چار جولائی بروز جمعہ کہا ہے کہ اگلے 24 گھنٹوں میں واضح ہو جائے گا کہ آیا فلسطینی عسکری تنظیم حماس نے اسرائیل کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی کے لیے اُن کے پیش کردہ ’’حتمی منصوبے‘‘ کو قبول کر لیا ہے یا نہیں۔ ٹرمپ نے منگل کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل 60 روزہ جنگ بندی کی شرائط پر متفق ہو چکا ہے، جس دوران دونوں فریق جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کریں گے۔
جمعہ کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جب اُن سے پوچھا گیا کہ آیا حماس نے اس منصوبے کو قبول کر لیا ہے، تو ٹرمپ کا کہنا تھا، ''دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، اگلے 24 گھنٹوں میں ہمیں معلوم ہو جائے گا۔‘‘
حماس کی جانب سے شرائطجمعرات کو حماس سے قریبی ایک ذریعے نے بتایا کہ تنظیم چاہتی ہے کہ امریکی حمایت یافتہ اس منصوبے میں جنگ کے مستقل خاتمے کی ضمانت شامل ہو۔
(جاری ہے)
دو اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ یہ نکات ابھی بھی مذاکرات کے مراحل میں ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں جمعرات کے روز بھی درجنوں فلسطینی مارے گئے۔پچھلی جنگ بندی اور امریکی تجاویز
پچھلی 60 روزہ جنگ بندی اس وقتختم ہو گئی تھی جب 18 مارچ کو اسرائیلی حملوں میں 400 سے زائد فلسطینی مارے گئے تھے۔
ٹرمپ نے اس سے قبل امریکہ کی جانب سے غزہ کا انتظام سنبھالنے کی تجویز دی تھی، جسے انسانی حقوق کے ماہرین، اقوام متحدہ اور فلسطینیوں نے نسلی تطہیر (ethnic cleansing) کی کوشش قرار دے کر مسترد کیا تھا۔
ابراہیمی معاہدے اور سعودی عرب سے روابطصدر ٹرمپ نے جمعہ کو تصدیق کی کہ انہوں نے سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی، جس میں ابراہیمی معاہدوں کی توسیع پر بھی بات ہوئی۔
ٹرمپ نے کہا، ''یہ ان موضوعات میں سے ایک تھا جن پر ہم نے بات کی۔ مجھے لگتا ہے بہت سے ممالک ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہونے جا رہے ہیں۔
‘‘ انہوں نے کہا کہ ایران کو حالیہ امریکی اور اسرائیلی حملوں سے پہنچنے والے نقصان کے بعد اس سمت میں پیش رفت متوقع ہے۔امریکی میڈیا Axios نے رپورٹ کیا کہ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد سعودی وزیر دفاع نے ایران کی مسلح افواج کے سربراہ عبدالرحیم موسوی سے بھی ٹیلیفون پر بات کی۔ ٹرمپ کی یہ ملاقات اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے آئندہ ہفتے کے دورۂ واشنگٹن سے قبل ہوئی ہے۔
شکور رحیم روئٹرز کے ساتھ
کشور مصطفیٰ، رابعہ بگٹی