WE News:
2025-07-04@08:16:57 GMT

ٹاک ٹاک کے جنون نے باپ بیٹے کی جان لے لی

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

ٹاک ٹاک کے جنون نے باپ بیٹے کی جان لے لی

کراچی کے علاقے لانڈھی میں بظاہر ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے دوران ٹرین کی زد میں آکر ایک شخص اور اس کا جوان بیٹا جاں بحق ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک کا جنون، نوجوان کیسے حوالات تک جا پہنچا؟

ریلوے پولیس کے مطابق واقعہ لانڈھی ریلوے اسٹیشن کے قریب اس وقت پیش آیا جس میں کراچی جانے والی رحمان بابا ایکسپریس سے پٹری پر ٹکر لگنے سے باپ بیٹا جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

چھیپا اور ریلوے پولیس کے امدادی کارکن جائے وقوعہ پر پہنچے اور لاشوں کو قانونی کارروائی کے لیے جناح اسپتال منتقل کیا۔

پولیس کے مطابق مرنے والوں میں 45 سالہ جمیل اور اس کا 5 سالہ بیٹے صبیح اللہ شامل ہیں۔

مزید پڑھیے: ٹک ٹاک ویڈیوز یا پھر موت کا جنون؟

ڈیوٹی افسر نے غالب امکان ظاہر کیا کہ جب حادثہ پیش آیا تو باپ بیٹا پٹریوں کے قریب ایک ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہے تھے تاہم ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے صحیح تعین کے لیے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔

حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ریلوے ٹریکس کے قریب احتیاط برتیں اور خطرناک سرگرمیوں اور غیر محفوظ مقامات پر ویڈیوز بنانے سے گریز کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

باپ بیٹا ہلاک ٹک ٹاک جنون ٹک ٹاک ہلاکت لانڈھی ریلوے اسٹیشن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ٹک ٹاک جنون ٹک ٹاک

پڑھیں:

لانڈھی، ملیر اور کورنگی میں تواتر سے آنے والے زلزلوں کی وجہ کیا ہے؟ ماہرین کی رائے جانیے

کراچی:

 

شہر کے مشرقی حصے لانڈھی، ملیر، کورنگی، قائد آباد اور دیگر علاقوں میں یکم جون سے اب تک تواتر کے ساتھ 57 زلزلے آچکے ہیں جو ہلکی نوعیت کے ہیں تاہم اس میں تسلسل کی وجہ سے لوگوں میں بہت خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ 

کراچی کے جن علاقوں میں یہ زلزلے آئے ہیں وہاں کئی برسوں سے بورنگ کرکے زیر زمین پانی کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، کئی چھوٹی بڑی عمارتیں بھی تعمیر ہوچکی ہیں، ان علاقوں میں زمین 15سیںٹی میٹر دھنس چکی ہے، اگرچہ ابھی سائنٹیفک ثبوت نہیں کہ بورنگ اور بلند عمارتوں کی تعمیر کی وجہ سے حالیہ زلزلے آئے ہیں اور زمین دھنس رہی ہےلیکن یہ بات قرین قیاس ہوسکتی ہے اور اس کے لیے جامع اسٹڈی کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں لانڈھی، کورنگی، ملیر اور دیگر علاقوں کی زیر زمین صورت حال کمزور پڑتی جا رہی بالخصوص گھروں کی بنیادیں متاثر ہو رہی ہیں، زلزلوں کے مواقع پر بھی یہاں نقصانات کا اندیشہ ہے اور عام حالات میں بھی کوئی ناگہانی واقعہ پیش آسکتا ہے۔ 

 محکمہ موسمیات اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ دستیاب تاریخی ڈیٹا میں کراچی میں کبھی بھی تواتر کے ساتھ اتنے زلزلے ریکارڈ نہیں کیے گئے۔

این ای ڈی یونیورسٹی کے ڈاکٹر نعمان احمد نے بتایا کہ زلزلے کا آنا ایک بڑے اسکیل کا عمل ہے، اس میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بورنگ یا زیر زمین پانی کھینچنے کی وجہ سے زلزلے آرہے ہیں، اس کی ریسرچ ضرور ہونی چاہیے، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ زیر زمین پانی کا حد سے زیادہ نکالنا ایک غیر فطری عمل ہے، اس لیے جن علاقوں میں یہ بورنگ کی جاچکی ہے وہاں لازمی زیر زمین قدرتی اسٹرکچر کمزور ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زمین کے نیچے کئی تہیں ہوتی ہیں جس میں چٹان، پتھر، مٹی پانی وغیرہ ہوتے ہیں، جب اس کا ایک حصہ یعنی پانی نکال لیا جائے تو لازماً وہاں خلا پیدا ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں ان علاقوں کی زیر زمین قدرتی پوزیشن کمزور پڑجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی گھروں کی بنیادیں بھی کمزور پڑ سکتی ہیں، ان وجوہات کے باعث ان علاقوں میں زلزلوں کی صورت میں اور عام حالات میں بھی یہاں قائم گھروں کو نقصانات کا اندیشہ ہے۔

ڈاکٹر نعمان نے کہا کہ اصولی طور پر متعلقہ ادارہ یہاں ریگولر نظام کے تحت پانی پائپ کے ذریعے پہنچائے تاکہ لوگوں کو بورنگ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے، یہ ایک مہنگا عمل ہے لوگ خوشی سے نہیں بلکہ مجبوراً کررہے ہیں۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے ان علاقوں کا تفصیلی سروے کرے اور بورنگ کے نتیجے میں جو زیر زمین نقصان ہوچکا ہے اس کی لوگوں کو نشان دہی کرے اور تدارک کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ 

شعبہ ارضیات جامعہ کراچی کے ڈاکٹر عدنان خان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی کے چند مخصوص علاقوں میں آنے والے زلزلے اور وہاں زمین کا دھنسنا قدرتی طور پر ہے تاہم یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ  ماحولیات میں انسانی دخل یا زیر زمین پانی کے نکالنے کی وجہ سے یہ زلزلے  آئے ہیں یا زمین دھنس رہی ہے  اس کے لیے ریسرچ کی ضرورت ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل ریسرچ ادارے اور لوکل اداروں کی رپورٹ کے مطابق لانڈھی، کورنگی، ملیر، ڈیفنس اور نارتھ کراچی کی زمین 15سینٹی میٹر دھنس چکی ہے اور سالانہ ایک اعشاریہ پانچ سینٹی میٹر دھنس رہی ہے، یہ ڈیٹا 2017 تا 2021 کے جائزے پر محیط ہے۔

فی الوقت سائنسی ریسرچ کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیرزمین تہہ کی حرکت کی وجہ سے زمین دھنس رہی ہے لیکن یہ انڈر آبزرویشن ہے کہ لانڈھی، ملیر اور کورنگی میں زیر زمین پانی کافی زیادہ نکالا جا رہا ہے اور وہیں زلزلے آرہے ہیں اور زمین بھی دھنس رہی ہے، اس کے لیے ایک بھرپور ریسرچ کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ شہر کے بیشتر علاقوں بالخصوص لانڈھی،کورنگی اور ملیر میں ریگولر پانی کے نظام میں بحران کی وجہ سے رہائشی، انڈسٹریز اور آر او پلانٹس کے ذریعے زیر زمین پانی نکالے جانے کا عمل بہت بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ کراچی کو ریگولر واٹر سسٹم سے پانی فراہم کیا جائے اور بارشوں کے پانی کے ذریعے زیر زمین متاثرہ پانی کے ذخیرے کو ری چارج کیا جائے۔ 

ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ کراچی چاروں اطراف سے بڑے فالٹس کی زد میں ہے لیکن حالیہ زلزلے ہلکی نوعیت کے ہیں جو شہر کے بیرونی اطراف کی بڑی فالٹ لائنوں کی وجہ سے نہیں آئے ہیں بلکہ لوکل کراچی کی اپنی فالٹ لائنوں کی وجہ سے آئے ہیں، اسی لیے یہ  ایک خاص پاکٹ میں ہلکی نوعیت کے آئے ہیں جبکہ شہر کا بقیہ حصہ اس سے محفوظ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی اپنی فالٹ لائنیں پرخطر نہیں تاہم کراچی کو چاروں اطراف بالخصوص انڈیا اور بلوچستان میں موجود ٹیکٹانل پلٹیس سے خطرہ ہے، وہاں اگر زیادہ شدت کے زلزلے آتے ہیں تو وہ پورے کراچی میں تباہی لا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی انڈین ٹیکٹونک پلیٹ سنگل پلیٹ کا حصہ ہے، اس کے 110کلومیٹر کے بعد مغرب کی طرف ایک پوائنٹ ملے گا جہاں تین پلیٹس انڈین، یوریشین اور عریبین پلیٹس موجود ہیں، عریبین پلیٹ وہاں کے جنوب سے دونوں پلیٹ کے نیچے سے جا رہی اور Subduct کر رہی ہے، وہاں اگر زلزلے آتے ہیں تو اس کے اثرات بھی کراچی پر آسکتے ہیں۔

کراچی میں زمین کے دھنسنے کے عمل کے بارے میں این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ ارتھ کوئیک انجنئیرنگ ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مسعود رفیع کا کہنا ہے کہ اس کی دو بڑی وجوہات ہوسکتی  ہیں، چھوٹی بڑی عمارات کی تعمیر اور زیر زمین پانی کا استعمال، بیشتر علاقوں میں پانی کے بحران کی وجہ سے لوگوں نے متبادل طریقے اختیار کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہر میں کئی رہائشی علاقوں میں  بورنگ کرکے زیر زمین پانی نکالا جارہا ہے، اس کے علاوہ پینےکے پانی کے لیے جگہ جگہ آر او پلانٹس کی دکانیں قائم ہیں، بے تحاشا پانی نکلنے سے زیر زمین خلا پیدا ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بیشتر علاقوں میں چھوٹی بڑی عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں جن کے وزن سے زیر زمین دباؤ بڑھ رہا ہے، یہ دو بڑی وجوہات ہیں جو زمین کے دھنسنے کی وجہ بن رہی ہیں، کسی علاقے میں زیادہ زمین دھنس رہی ہے اور کسی جگہ کم، یہ عمل شہر کے کئی علاقوں میں ہو رہا ہے، اس کے لیے زیر زمین پانی کے نکالنے کا عمل روکا جانا بہت ضروری ہے۔

چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری نے بتایا کہ کراچی میں یکم جون سے اب تک 57 زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاچکے ہیں جو ریکٹر اسکیل پر 1.5 سے 3.8  کی شدت کے ہیں، یہ زلزلے ہلکی نوعیت کے ہیں اور اس سے کسی قسم کا جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سپرہائی وے, نیو سبزی منڈی اور لانڈھی رزاق آباد میں فائرنگ کے واقعات میں 3 افراد زخمی ہوگئے
  • لانڈھی، ملیر اور کورنگی میں تواتر سے آنے والے زلزلوں کی وجہ کیا ہے؟ ماہرین کی رائے جانیے
  • کراچی: خواجہ سراؤں سے دوستی پر سفاک باپ کے ہاتھوں نوجوان بیٹے کا لرزہ خیز قتل
  • وٹامن ڈرپس سے جوان اور گورا ہونے کا جنون کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟ مشی خان کا بیان وائرل
  • خواجہ سراؤں کے ساتھ بیٹھنے پر باپ نے بیٹے کو کرنٹ لگا کر مار ڈالا
  • خواجہ سراؤں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے پر باپ نے بیٹے کو کرنٹ لگا کر مار ڈالا 
  • نیویارک: بندرگاہ کے قریب دو بسیں ٹکرا گئیں، 14 افراد زخمی، آمدورفت متاثر
  • باجوڑ: صادق آباد پھاٹک میلہ کے قریب دھماکہ، اسسٹنٹ کمشنر سمیت 4 افراد جاں بحق
  • کراچی: باپ نے بیٹے کو کرنٹ لگا کر بیلچے کے وار سے قتل کردیا
  • کراچی، اورنگی ٹاؤن میں لرزہ خیز واقعہ، باپ نے نافرمان بیٹے کو بیلچے کے وار سے قتل کر دیا